تحریر:ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
سماجی اداروں خاص کر این جی اوز کو غیر ممالک میں قائم سماجی تنظیموں سے مالی تعاون حاصل کرنے کے لئے ضروری قانون ایف سی آر اے رجسٹریشن کی تجدید نو کے سلسلے میں تقریبا چھ ہزار این جی اوز کو سپریم کورٹ سے کوئی راحت حاصل نا ہونے کے بعد سماجی و سیاسی حلقوں میں یہ سوال موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ آخر وہ کیا اسباب اور وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر موجودہ حکومت نے 5900 این جی اوز کا ایف سی آر اے رجسٹریشن 31 دسمبر 2021 کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف گلوبل پیس انیشئٹیو نامی این جی او نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کرتے ہوئے تجدید نو کی حکم کی درخواست کی تھی، سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کی جانب سے یہ دعوی سامنے آیا کہ ان سماجی اداروں نے یا تو متعینہ مدت کے اندر وزارت داخلہ سے رجسٹریشن کے رینیول (تجدید) کی درخواست نہیں دی تھی، یا حکومت کی رپورٹ کے مطابق ان این جی اوز نے ایف سی آر اے کے اصول و ضوابط کے خلاف ورزی کی ہیں، چونکہ گزشتہ کئی برسوں سے وقتافوقتا یہ مسئلہ سرخیاں حاصل کرتا رہاہے تو ضروری ہے کہ ہم ایف سی آر اے کی تاریخ، اس کے اہم اصول و ضوابط نیز موجودہ و گزشتہ حکومتوں کی پالیسی کیا رہی ہے؟ ان حقائق پر روشنی ڈالیں۔
غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) کو خدمت خلق کے کاموں میں مدد کرنے کے لئے عوام، حکومتوں اور متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہی غیر ملکی ادارے و تنظیمیں بھی مالی مدد کرسکتی ہیں تاہم غیرممالک سے مالی تعاون حاصل کرنے کے سلسلے میں ہمارے ملک ملک کی پارلیمنٹ نے 1976 میں غیر ملکی چندہ (ریگولیشن) ایکٹ (ایف سی آر اے) کے نام سے قانون پاس کیا، اس قانون کے پس منظر میں ایمرجنسی کے دوران پیدا ہونے والے نازک حالات ہیں جو 1969 کے دوران پیدا ہونے شروع ہوئے، ملک میں حکومت مخالف تحریکیں سماجی تنظیموں کی شکل میں مضبوط ہوگئی تھیں، ایمرجنسی کے دوران یہ تحریکیں مزید مضبوط ہوتی جارہی تھیں جب کہ خفیہ اداروں کی رپورٹوں کے مطابق غیر ملکی طاقتیں ہمارے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل انداز ہونے کی غرض سے حکومت مخالف تنظیموں و تحریکوں کو یہ غیرممالک اپنے آزاد سماجی اداروں کے ذریعے مالی تعاون فراہم کررہے تھے۔ ایف سی آر اے کی شکل میں غیرملکی چندہ حاصل کرنے کے اصول و ضوابط تیار کئے گئے جن پر عمل کرتے ہوئے ہی ہمارے ملک میں کوئی فرد واحد یا تنظیم و ادارے کسی بھی غیرملکی تنظیم یا ادارے سے مالی تعاون حاصل کرسکتے ہیں۔ ایف سی آر اے کے اصول و ضوابط تیار کرنے کا مقصد ایک خودمختار آزاد نظام جمہوریہ کے اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جائے۔
18 دسمبر 2006 میں کانگریس (یو پی اے) مرکزی حکومت کے ذریعے 1976 کے ایف سی آر اے قانون پر ازسر نو نظر ثانی کرتے ہوئے نئی ترمیمات کے ساتھ پارلیمنٹ میں بل پیش کیا گیا، جس کے بعد نئے سرے سے اس قانون کو Foreign Contribution (Regulation) Act, 2010 کے نام سے 19 اگست 2010 میں پارلیمنٹ نے پاس کیا۔ اس نئے قانون کے ذریعے غیر ممالک سے آئے ہوئے فنڈ کے استعمال کو مزید منظم و منضبط کرنے کی کوشش کی گئی تھی، نیز قومی مفادات کے خلاف ان کے کسی بھی ممکنہ استعمال کو روکنے کے لئے پرانے قانون میں ترمیم کی گئیں، انہیں ترمیمات کے بعد بہت سی این جی اوز کے ایف سی آر اے تجدید نہیں کئے گئے اور ایک بڑی تعداد کو اصول و ضوابط کی بے ضابطگی کے الزام میں رد کردیے گئے، اعداد و شمار کے مطابق 2011 میں کل 40000 این جی اوز کو ایف سی آر اے کے تحت رجسٹریشن حاصل تھا جو آج 16000 تقریبا ہے۔ 2012 میں کانگریس حکومت نے 3922 این جی اوز کے رجسٹریشن خارج کئے تھے، ان میں گرین پیس اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی شامل ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل کو 2000 میں ایف سی آر اے رجسٹریشن حاصل ہوا تھا جس کی تجدید کانگریس حکومت میں پہلی بار روکی گئی۔
2014 میں موجودہ بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی، وزیراعظم نریندر مودی نے نام نہاد این جی اوز اور غیر ملکی فنڈنگ کو نیشنل سیکیورٹی کے لئے کئی بار خطرہ بتاتے ہوئے یہ اشارہ کردیا تھا کہ حکومت کی پالیسی میں سختی متوقع ہے، وزارت داخلہ کے ذریعے پارلیمنٹ میں Foreign Contribution (Regulation) Amendment Bill, 2020 پیش کیا گیا، جس کے ذریعے اس قانون میں کچھ اہم ترمیمات پیش کی گئیں، این جی اوز کے موجودہ ذمہ داروں کے لئے اپنے آدھار کارڈ جمع کرنے کو کہا گیا۔ 21 ستمبر 2020 کو یہ بل لوک سبھا میں پاس ہوا اور پھر 23 ستمبر 2020 کو راجیہ سبھا سے پاس ہوگیا۔ اس ترمیم سے پہلے ہی بہت سی این جی اوز موجودہ حکومت کے سخت عتاب کا شکار ہوچکی تھیں، 2015 میں گرین پیس کا رجسٹریشن کئی بینک اکاونٹ کھولنے اور فنڈ کی آمد و رفت کی بنیاد پرختم کرکے ان کو بھارت سے واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا، سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندرا جے سنگھ کی این جی او لائرس کلیکٹیو کے کام کاج کو لے کر سی بی آئی کی انکوائری ہوئی اور انکوائری کے بعد سیاسی مقاصد کے لئے غیرملکی فنڈ کے استعمال کے الزام میں رجسٹریشن رد کردیا گیا، اسی دوران میں فورڈ فاونڈیشن، تیستا سیتلواڈ کی این جی او سب رنگ ٹرسٹ کے اوپر بھی فنڈ کا غلط استعمال کرنے کے الزام میں رجسٹریشن رد ہوا۔
ایف سی آر اے کے اصول و ضوابط کے مطابق اگر کوئی فرد واحد، تنظیم یا ادارہ اگر غیر ممالک سے فنڈ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو اس قانون کے تحت رجسٹریشن کرواکر وزارت داخلہ سے اجازت حاصل کرنی ہوگی، موجودہ ضوابط کے تحت اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) میں بینک اکاونٹ ہونا ضروری ہے، ان فنڈ کو صرف او صرف انہیں مقاصد کے حصول کے لئے ہی خرچ کیا جاسکتا ہے جن مقاصد کے تحت حکومت سے اجازت ملی ہو، ہر سال ان این جی اوز کو سالانہ رپورٹ جمع کرنی ہوگی، کسی بھی دیگر مقاصد یا پروجیکٹ کے لئے خصوصا سیاسی امور یا مقاصد کے لئے بذات خود یا کسی بھی دوسری این جی او کو یہ فنڈ ٹرانسفر نہیں کئے جاسکتے ہیں، کسی بھی میڈیا یا جرنلزم کے لئے بھی یہ فنڈ استعمال نہیں کئے جائیں گے، عدلیہ کے جج یا حکومت کے افسران، سیاسی رہنما کو بھی یہ فنڈ نہیں دیے جائیں گے۔
حالیہ دنوں میں جن اداروں اور این جی اوز کے رجسٹریشن رد یا تجدید نو سے روکے گئے ہیں ان میں آئی آئی ٹی دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، انڈین میڈیکل ایسو سیئشن اور نہرو میموریل میوزیم و لائبریری،لال بہادر شاستری میموریل فائونڈیشن، لیڈی شری رام کالج فار وومن، دہلی کالج آف انجینئرنگ اور آکسفیم انڈیا اہم ہیں۔ اس سے پہلے مدر ٹریسا مشنریز آف چیرٹی کا رجسٹریشن بھی تجدید کرنے سے وزارت داخلہ نے منع کر دیا تھا لیکن 6 جنوری کو مزید پانچ سال کے لئے تجدید کردیا گیا۔ موجود اعداد و شمار کے مطابق غیر ممالک سے آنے والے فنڈ میں گزشتہ دو سالوں کے دوران تقریبا 87 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، 2018-19 میں 16490 کروڑ فنڈ ہمارے ملک میں سماجی فلاح و بہبود کاموں کے لئے غیر ممالک سے آئے جب کہ 2019-20 میں یہ فنڈ کم ہوکر 2190 کروڑ ہوگئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتیں اپنے پروجیکٹ صنعتی اداروں کے مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل دیتی ہیں، اور ان صنعتی و معاشی پروجیکٹ کے مضر اثرات سماج کے سب سے دبے کچلے طبقے پر پڑتے ہیں، ان پسماندہ طبقات کے حق میں لڑنے کے لئے سماجی تنظیمیں اور ادارے حکومت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان حکومتوں کا عتاب ان اداروں کو جھیلنا پڑتا ہے، اگر کانگریس حکومت نے سال 2012 میں تقریبا 4000 این جی اوز کو غیرملکی فنڈ لینے سے روکا تو وہیں موجودہ بی جے پی حکومت نے 2014 سے اب تک سات سالوں میں تقریبا 16754 این جی اوز کے ایف سی آر اے ختم کئے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ غیرملکی فنڈ اور ایف سی آر اے سے متعلق یہ پالیسی کسی مخصوص سیاسی پارٹی کی نہیں بلکہ یہ پالیسی حکومتوں کی ہیں چاہے وہ کسی بھی نظریہ کی حامل رہی ہوں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کی غیر ممالک سے آنے والے فنڈ کا حساب اوران کا صحیح استعمال کیا اور کیسے ہورہاہے؟ یہ معمہ ہر حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بھی رہا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)