روہنی سنگھ، نئی دہلی
ویسے بڑی بوڑھیاں کہہ گئی ہیں کہ صبح کے خواب سچ ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک صبح میں جنوب مغربی دہلی میں میری رہائش گاہ کی گھنٹی کئی بار اتنی زور سے بجی، کہ بیڈ کے ساتھ ساتھ کمرے کی ہر چیز ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ پہلے میں سمجھی کہ عالم خواب میں ہوں۔ ابھی کیا فکر ہے، جب بیدار ہو جاؤں گی، تو برے وسوسوں کو دور کرنے کے لیے کچھ دکشنا دے کر بھگوان سے پرارتھنا کروں گی۔
گھنٹی سے مایوس ہو کر اب کوئی ایپارٹمنٹ کے دروازے کو بے دردری کے ساتھ کھٹکھٹا کر زور آزمائی کر رہا تھا۔ چونکہ ان دنوں مہمان یا پاس پڑوس سے شاید ہی کوئی اپنے درشن دیتا ہے، اس لیے مجھے بھی تجسس ہوا کہ ان حالات میں کس کو میری اتنی یاد آئی ہے کہ لمحے کا قرار بھی نہیں ہے۔
دروازہ کھول کر دیکھا تو زعفرانی رنگ کے کپڑے پہنے، جے سری رام کا ورد کرتے ہوئے کئی افراد کوریڈور میں نظر آئے۔ ان میں سے ایک شخص نے کتابچہ تھما کر بتایا کہ وہ ایودھیا میں بھگوان رام کے عالیشان مندر کی تعمیر کے لیے چندہ مانگنے آئے ہیں۔ میرے لیے تو بھگوان ہر انسان کے دل میں بستا ہے، مگر میں نے اپنے پرس میں ہاتھ ڈال کر، جو کچھ ہاتھ میں آیا، ان کے حوالے کر دیا۔
معلوم ہوا کہ میرے بہت سے جاننے والوں اور رشتہ داروں نے رام مندر کی تعمیر کے لیے دل کھول کر چندہ دیا ہے۔ وہ مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ مندر بھارت کے لیے ایک نئی صبح لے کر آئے گا۔ مگر کیسے؟ تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ میرے ایک رشتہ دار کہنے لگے کہ بھگوان رام کئی ہزار سالوں سے بن باس میں تھے، اب ان کو اپنا گھر ملے گا۔ اب بتاو گھر بنانے کے لیے بھگوان کو بندوں سے چندہ اکھٹا کرنے کی کیا ضرورت جبکہ پوری کائنات ہی بھگوان کی ہے؟
لیکن کچھ دن پہلے جب رام مندر کے لیے زمین کی خریداری کے سلسلے میں ہونے والی اراضی کرپشن کا معاملہ سامنے آیا تو مجھے لگا کہ جیسے مجھے ٹھگا گیا ہو۔ میرے وہ رشتہ دار، جنہوں نے دل کھول کر چندہ دے کر اس مندر کو بھارت کے لیے ایک نوید بتایا تھا، وہ بھی غصے میں ہیں، کہ ان کی محنت کی کمائی، جو انہوں نے بھگوان رام کے گھر کی تعمیر کے لیے دی تھی، مبینہ طور پر پجاریوں اور کئی مشکوک قسم کے لوگوں کے پیٹ میں پہنچ گئی ہے۔ بتایا گیا کہ رام مندر ٹرسٹ نے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے ایک لیڈر سے ڈھائی کروڑ روپے میں زمین خریدی۔ خیر اس میں کوئی غلط بات تو نہیں ہے مگر اسی لیڈر نے بس پندرہ منٹ قبل یہی زمین دیگر افراد سے صرف 20 لاکھ روپے میں خریدی تھی۔
اب یہ حضرت، جنہوں نے بھگوان رام کے نام پر بس چند منٹ میں ہی دس گنا منافع کمایا، اسی بھگوان کے نام پر ایسی عقیدت دکھاتے ہیں کہ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسے کئی اسکینڈل اب سامنے آرہے ہیں۔ ایک دوسرے کیس میں ایک اور لیڈر نے زمین دو کروڑ روپے میں خریدی اور دو ماہ بعد رام مندر ٹرسٹ کو 18کروڑ میں بیچی۔ بی جے پی کے ایودھیا کے میئر رشکیش اپادھیائے اس ڈیل میں گواہ کے طور پر موجود ہیں۔
رام چرت مانس کے مصنف تلسی داس جی نے کہا تھا:
نام رام کو انک ہے سب سادھن ہیں سون
انک گئیں کچھو ہاتھ نہیں انک رہیں دس سون
یعنی رام کا نام دنیا میں نمبر ون ہے باقی سب کچھ صفر ہے۔ ہندسے کے بغیر کسی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ جب ایک ہندسے کو صفر سے پہلے رکھا جائے تو وہ دس بار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح رام کا نام لینے سے پھل دس گنا ہو جاتا ہے۔ ان کا مطلب تھا کہ رام کے نام پر جو عقیدت لٹاتا ہے، اس کو اس کا دس گنا پھل ملتا ہے۔ تلسی داس نے تو روحانی پھل کی بات کہی تھی۔ شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہو گا کہ کبھی کسی کو بس چند منٹوں میں ہی رام کے نام سے دس گنا منافع دنیاوی رنگ و روپ میں ملے گا۔
بھگوان رام کے پرم بھگت اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جن کا کیریئر ہی اس مندر کی تحریک سے شروع ہوا تھا کی ناک کے نیچے یہ سودا ہوا ہے۔ کرونا وائرس سے نمٹنے میں ان کی ناکامی اور بدانتظامی تو اظہر من الشمس تو ہے ہی، لگتا ہے کہ یہ قضیہ ان کو لے ڈوبنے کا سامان مہیا کروائے گا۔
ہندو قوم پرستوں کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے رام جنم بھومی ٹرسٹ کے ممبروں سے وضاحت طلب کی ہے اور اس آگ پر پانی ڈالنے کا کام شروع ہو گیا ہے۔ حریف سماج وادی پارٹی نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اگلا صوبائی انتخاب رام بنام کام کے نعرہ کو لے کر لڑے گی۔
اپوزیشن جماعتیں اس فراڈ کی وجہ سے وزیراعظم نریندر مودی کو نشانہ بنا رہے ہیں، مگر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پچھلی تین دہائیوں سے رام مندر کی تحریک سے جڑے ان عقیدت مندوں کی عقیدت اتنی سطحی ہے کہ اس کو دولت جمع کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ بابری مسجد کو مسمار کرنے اور اس کی جگہ مندر کو بنانے کے نام پر کتنا خون ملک میں بہہ چکا ہے۔
جب مسجد کو مسمار کیا گیا تھا، تو تقریبا دو ہزار افراد ہندو مسلم فسادات کی بھینٹ چڑ گئے تھے، اکیلے ممبئی شہر میں ہی ایک ہزار کے قریب افراد فسادات کی نذر ہو گئے تھے اور ان میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
اکتوبر 2019 کو بھارت کی سپریم کورٹ نے مسمار شدہ بابری مسجد کی زمین کو رام مندر ٹرسٹ کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنا دیا تو ہندو قوم پرستوں کا جوش بلند ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ رام مندر کی تعمیر سے بھارت کے باسیوں کی ہر مشکل اور پریشانی دور ہو جائے گی۔
مندر تعمیر کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کو دی گئی ہے، جس نے ٹینڈر طلب کیے۔ متعدد ہندو تنظیموں نے ہندووں کے جذبات کو متحرک کرنے کے لیے پورے ملک میں چندہ جمع کرنے کی مہم شروع کی۔ مندر کی تعمیر پر تقریبا 11 بلین روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ابھی تک چندہ کے ذریعے 54 بلین روپے جمع ہو چکے ہیں۔
جس جگہ پر مندر کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہاں 400 سال سے زائد عرصے سے ایک مسجد کھڑی تھی، جس کو مغل شہنشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی نے تعمیر کروایا تھا۔ ہندوؤں کے ایک طبقہ کا خیال تھا کہ مغل جنرل نے جس جگہ مسجد تعمیر کی وہاں بھگوان رام پیدا ہوئے تھے۔ مگر محکمہ آثار قدیمہ کو اس مسجد کے نیچے کھدائی کر کے کوئی ایسا سراغ نہیں ملا، جس سے ثابت ہوتا کہ 16ویں صدی میں مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں کوئی عمارت کھڑی تھی۔ مگر آستھا یا عقیدہ کو بنیاد بنا کر عدالت نے مندر کے حق میں فیصلہ سنا کر اس کے عوض اس علاقے سے دور مسجد بنانے کے لیے ایک قطعہ زمین مسلمانوں کے سپرد کرنے کے احکامات دے دیے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ رام کے نام پر فنڈ اکٹھا کرنا ایک بہت بڑا فریب تھا اور اب کسی کو معلوم نہیں ہے کہ چندہ جمع کرنے والے لوگ کون تھے؟ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوریوانند نے کہا کہ چندہ جمع کرنے والی مہم کا مقصد مسلم سماج کو مزید خوف زدہ کرنا اور ان کو کنارے لگانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مندروں میں بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھولے بھالے عوام چاہے وہ انکم ٹیکس نہ دیتے ہوں، مندروں کو دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔
رام جنم بھومی ٹرسٹ کے سربراہ مہنت نرتیہ گوپال داس کہتے ہیں کہ ان سے ایک سال سے پیسے خرچ کرنے کے سلسلے میں کوئی رائے مشورہ نہیں کیا جا رہا۔ رام کے نام پر، جو چندے کی لوٹ ہو رہی ہے، مجھے یقین ہے اس کو انسان تو کیا بھگوان بھی معاف نہیں کریں گے۔ کہاوت ہے جو مندر، مسجد، گوردوارے یا دھرم شالہ کا چندہ کھائے گا، اس کو چندے کی چپت تو ضرور لگے گی۔ مگر آنکھ ملتے ہوئے صبح سویرے کی نیند قربان کرتے ہوئے، جس طرح میں نے بھی اس مندر کی تعمیر میں اپنے خون پسینے کی کمائی چندے میں دی تھی، میرا دل دکھی ہے کہ وہ کمائی صبح نو کی تعمیر کے بجائے کسی کرپٹ لیڈر کے پیٹ میں چلی گئی ہے۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو )