تحریر:محمد خالد
بنارس کی گیان واپی مسجد کی ملکیت کا تعین کرنے کی غرض سے عدالت نے مسجد کا سروے کرنے کا حکم دیا تھا۔ سروے مکمل ہونے کے بعد اس سے قبل کہ عدالت سروے کا جائزہ لینے اور حقائق کو سمجھنے کے بعد کوئی فیصلہ دیتی، ہندو اور مسلمان دونوں نے اپنے اپنے انداز میں سروے پر رائے دینا شروع کر دی تھی۔ اسی دوران مسجد کے وضو خانہ حوض میں لگے فوارہ کو شیو لنگ سے تعبیر کیا جانے لگا۔ بس پھر کیا تھا بعض ٹی وی چینل کو اپنی ٹی آر پی بڑھانے کا بہترین موقع ہاتھ آ گیا۔ مسلمان اور ہندو مختلف چینلوں پر بلائے جانے لگے اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے نوپر شرما ایپوسوڈ تک پہنچ گیا۔ جس میں گیان واپی مسجد اور شیو لنگ کی بات نبی کریم ؐ کی شادی تک پہنچ گئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توہین رسالت کے قصور وار کون ہیں؟ وہ مسلم جن پر اطاعت رسول اللہ ؐ فرض ہے یا پھر وہ غیر مسلم، جن کو موجودہ مسلمانان ہند نے نبی رحمت محمد رسول اللہ ؐ سے واقف ہی نہیں کرایا، جبکہ اسی ملک میں جب مسلمانوں کی زندگی میں سیرت رسولؐ موجود تھی تو اس وقت یہاں کے برادران وطن بھی نبی کریم ؐ کو بڑی عقیدت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
ٹی وی چینلوں پر جانے والے مسلمانوں کے سامنے تو خالق کائنات کی انسانی رہنمائی کے لئے آخری کتاب ہدایت موجود ہے جس میں حکم دیا گیا ہے کہ؛ ’’اور اے ایمان لانے والو!یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ اُنہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں ؟‘‘(الانعام 108)
ٹی وی چینلوں پر ہونے والی بحثوں کے علاوہ گزشتہ چند روز سے پورے ملک میں اہانت رسول اللہ ؐ کے تعلق سے مسلمانوں کی جانب سے جس انداز اور لہجے میں لعن تعن کی جا رہی ہے اور انتہائی جذباتی بیان جاری کئے جا رہے ہیں، ان سے معتدل برادران وطن کی تو بس دل آزاری ہو رہی ہے مگر شدت پسند ہندوؤں کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی میں اضافہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ایک تشویشناک بات یہ ہے کہ اس وقت علماء و دانشور حضرات تسلسل کے ساتھ مضامین و بیانات پیش کر رہے ہیں جن میں احادیث کے حوالے سے حضرت عائشہ ؓ کے نبی کریم ؐ کے ساتھ عقد نکاح کے وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر6 سال اور رخصتی کے وقت کی عمر 9 سال بتائی جا رہی ہے۔ جس کو درست ثابت کرنے کے لئے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ سبھی تہذیب و مذاہب میں تقریباً اسی عمر کو شادی کے لئے مناسب عمر سمجھا جاتا رہا ہے۔حالیہ واقعہ کی اولین قصور وار نوپر شرما نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ میں نے وہی بات کہی ہے جو کہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی بھی شخص اسلام دشمنی میں کسی اسلامی تعلیم کا حوالہ دے گا تو اس کا انداز شرارت آمیز اور گستاخانہ ہوگا اور وہ اپنی اسلام دشمنی کی بھڑاس نکالنے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی بھرپور کوشش کرے گا مگر جب اس کی کہی ہوئی بات کا قانونی جائزہ لیا جائے گا تو پھر اس کے کہے ہوئے الفاظ ہی اصل مانے جائیں گے نہ کہ اس کا لہجہ اور رویہ۔
ذرا سوچئے! کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مسلمانان ہند کے نزدیک اس وقت ہندوؤں کی سب سے بڑی جماعت کو کھلا دشمن سمجھا اور بتایا جاتا ہے اور اس کی مخالفت میں کسی قسم کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو کیا یہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ؛’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ ‘‘(المائدہ – 8)
اللہ رب العزت نے ہمیں اپنے محبوب ؐ کی شکل میں جو اسوہ نصیب فرمایا ہے اس کا نہ تو کوئی ثانی ہو سکتا ہے اور نہ ہی مقابل۔ اس اسوہ کی اطاعت تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور اس کے کسی بھی حصے کو چھوڑنے کا مطلب اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ فرمایا؛ ’’درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘( الاحزاب – 21)
رحمت عالم حضرت محمد ؐ کی لاثانی شخصیت کا ہی نتیجہ ہے کہ آپؐ کی حیات مبارکہ پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے وہ اپنے آپ میں معجزہ سے کم نہیں۔ دنیا کی ہر زبان اور ہر فکر و نظریہ کے بہترین دانشوروں نے نبی کریم ؐ کی سیرت طیبہ پر لکھنا اپنی شخصیت کا اعتراف کرانے کے لئے ضروری سمجھا۔ اس کے ساتھ جو سب سے زیادہ اہم نکتہ ہے وہ یہ کہ سیرت طیبہؐ کی کسی بھی کتاب میں ایسا کوئی واقعہ شاید ہی مل سکے کہ باوجود تمام آزمائشوں اور دشواریوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے بعد بھی آپ ؐ نے پوری حیات مبارکہ میں کسی کو دشمن نہیں بتایا، کسی سے مایوس نہیں ہوئے، کسی سے مرعوب نہیں ہوئے۔ جب کہ آپ ؐ نہ صرف غیر مسلموں سے واقف تھے بلکہ اپنی صفوں میں موجود منافقین کو بھی خوب پہچانتے تھے تو کیا ہم پر لازم نہیں کہ ہم کلمہ گو کے علاوہ انسانوں میں کسی بھی قسم کی تفریق کرنا اور ہر وقت دشمنی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا سلسلہ بند کریں اور خالقِ کائنات کی تخلیق کی ہوئی آخری ـ’خیر امت‘کے فریضہ کو ادا کرنے کے لئے سنجیدہ ہو جائیں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہم سب مسلمان رحمت العالمین حضرت محمد ؐ کے امتی ہیں۔
اللہ رب العزت کی جانب سے رہتی دنیا تک کے لئے اہل ایمان کا جو تعارف پیش کیا گیا ہے وہ انتہائی واضح اور اہمیت کا حامل ہے۔ فرمایا؛ ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘ (آل عمران – 110)
اللہ تعالیٰ کی تمام ہدایات ہم تک نبی کریم ؐ کے توسط سے ہی حاصل ہوئی ہیں۔ ہم مسلمانوں پر اللہ کا یہ بھی ایک عظیم احسان ہے کہ ہمارے دلوں میں نبی کریم ؐ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کہ ہم آپ ؐ کے تعلق سے زرہ برابر بھی نازیبا بات برداشت نہیں کر سکتے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا اپنا جائزہ لیں کہ ہماری زندگی میں کس قدر اتباع سنت کی اہمیت پائی جاتی ہے۔ نبی کریم ؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز سے ہمارا تعلق کیسا ہے۔ ہمارے معاملات زندگی کی سیرت طیبہ سے کتنی مطابقت ہے۔ کس قدر ہم رسومات دنیا کے غلام بن چکے ہیں۔
ایک شادی کے عمل کو ہی دیکھ لیں کہ شادی کارڈ پر تو لکھوایا جاتا ہے، النکاح من سنتی اور پھر کس طرح کی خرافات کو فخریہ اختیار کیا جاتا ہے کہ بھائی کیا کریں، معاشرے میں رہنا ہے تو معاشرے کے تقاضوں کو پورا کرنا پڑے گا جب کہ دین ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ جس نے جاہلیت کے طور طریقوں کو نہ چھوڑا، اس کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہوگا۔ جھوٹ بولنا ہنر تسلیم کر لیا گیا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک متفق علیہ حدیث ہے کہ؛ ’’حضور نبی اکرم ؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد(یعنی والدین) اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں‘‘ دین کی ان تعلیمات کی روشنی میں ہمیں اپنے معاملات زندگی کا جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔ مسلمان کی اولین ذمہ داری دین پر پورے طور پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ بندگان خدا تک اللہ کے دین کو پہنچانا ہے۔ اس وقت دین کو دو طرح سے شدید نقصان پہنچ رہا ہے، ایک یہ کہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت عملاً دین سے دور ہے اور دوسری بات مسلمانوں کا انتہائی جذباتی طرزِ عمل۔
آئیے حالات حاضرہ کا صحیح طور پر جائزہ لیں کہ کیا ہم نے اپنے مسلمان ہونے کا حق ادا کیا ہے، اگر نہیں تو پھر آج ہی خود سے عہد کریں کہ اب سے بقیہ زندگی میں شریعت کی پابندی کی کوشش لازماً کریں گے۔ نبی کریم ؐ کی تعلیمات کو اپنے عمل سے پیش کریں گے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی بنیاد سیرت النبی ؐ کی روشنی میں اپنی زندگی گزاریں گے۔
(مضمون نگار سکریٹری جنرل، انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ (ایشو)