تحریر:بدری نارائن
یوگی آدتیہ ناتھ کا اثر اور وقار ہمارے معاشرے کے مذہبی نظام سے آتا ہے، کسی کے لیے وہ ’بابا‘ ہیں اور کسی کے لیے ’مہاراج جی‘ یا ’مہنت جی‘، لیکن زیادہ تر لوگ انہیں ’یوگی جی‘ کہتے ہیں۔ گورکھپور کے ایک گاؤں میں ایک بزرگ ان پڑھ عورت انہیں’’گورکھناتھ‘ کہتی ہیں۔ وہ ان کا اصلی نام نہیں جانتی۔ ان کی طرح یوگی بھی اس علاقے کے بہت سے غریبوں کے لیے ’گورکھناتھ‘ ہیں۔
ابتدائی قرون وسطی میں ناتھ پنتھ کے بانی گرو گورکھ ناتھ کی شبیہ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ جڑگئی ہے۔ اتر پردیش کے کچھ حصوں میں، نشیبی بستیوں میں، آپ کو یہ ملے گا کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ایک کرشماتی مذہبی رہنما کی شبیہ رکھتے ہیں اور ان کے تئیں بہت عزت رکھتے ہیں۔ ان دنوں ایک لیڈر اور وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کی شبیہ پر بھی چرچے ہو رہے ہیں۔
شبیہ اور سیاست
سیاسی قائدین کی شبیہ تصوراتی سرمایہ سے نکلتی ہیں جو انہوں نے حاصل کیا ہے یا انہیں وراثت میں ملا ہے۔ اتر پردیش کے موجودہ اسمبلی انتخابات میں چار لیڈروں کی شبیہکے درمیان مقابلہ ہے۔ یہ لیڈر ہیں یوگی آدتیہ ناتھ، اکھلیش یادو، مایاوتی اور پرینکا گاندھی۔
یوگی کی شبیہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ قریبی سے جڑی ہوئی ہے۔ جب میں اتر پردیش کے ایک گاؤں پہنچا، تو پی ایم آواس یوجنا اور آیوشمان بھارت جیسی مرکزی اسکیموں پر بحث چل رہی تھی، ایک بزرگ اس کا سارا کریڈٹ ’یوگی جی‘ کو دے رہے تھے۔ میں نے انہیں ٹوکا تو فوراً جواب آیا، ’یوگی مودی ایک ہی ہیں ۔‘
میڈیا میں بیانیہ یہ ہو سکتا ہے کہ یوگی اور مودی کی تشبہیات میں ٹکراؤ ہے، لیکن عام لوگوں کے لیے یہ دونوں ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنی علامتی طاقت ایک دوسرے کو اس طرح منتقل کرتے ہیں کہ ووٹر کے ذہن میں جب بھی یوگی کا نام آتا ہے، اس کے ساتھ مودی کی طاقت جڑ جاتی ہے اور مودی میں یوگی کی طاقت نظر آتی ہے۔
اکھلیش یادو کے تصوراتی سرمایہ میں ان کا اپنا ایک مرکب شکل ہے، جو انہوں نے اپنی عوامی زندگی میں ملائم سنگھ یادو کی شبیہ کے ساتھ سرمایہ سے حاصل کیا ہے۔ وہ رام منوہر لوہیا کی وراثت سے بھی طاقت حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، ملائم کی شبیہ اب زیادہ تر پس منظر تک محدود ہے اور اکھلیش کی اپنی ایک تبدیلی پسند نوجوان لیڈر کی تصویر منظر عام پر آگئی ہے۔ ان کے رویے میں مستقل مزاجی کے ساتھ تبدیلی کی خواہش بھی ہے۔
بی جے پی یوگی کی ایک طاقتور ایڈمنسٹریٹر کی شبیہ پیش کر رہی ہے۔ ایک لیڈر کی تصویر جس نے اپنی پولیس اور بلڈوزر کے ذریعے مافیا کو نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ایک حساس وزیر اعلیٰ کی تصویر بھی پیش کی جا رہی ہے، جس نے کووڈ پر کنٹرول حاصل کیا اور لاک ڈاؤن سے بری طرح متاثر ہونے والے مہاجر مزدوروں کی مدد کی۔ اس کا مقصد ہندوتوا اور ترقی دونوں کا اپنا چہرہ پیش کرنا ہے۔
بی جے پی سے آگے یوگی کی شبیہ
اتر پردیش میں بی جے پی کیڈر اکثریتی ووٹروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ پچھلی حکومتوں پر ’لنگی ٹوپی والے غنڈوں‘ کا غلبہ تھا، لیکن یوگی نے اب ان پر نکیل کس دی ہے ۔اتر پردیش میں بہت سے لوگ وزیر اعلیٰ کو ہندوتوا کی علامت مانتے ہیں، جو ترقیاتی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ریاست کے کچھ حصوں میں یوگی آدتیہ ناتھ کا اثر پارٹی کی موجودگی کے بغیر بھی جاری ہے۔ ہمارے مطالعہ کے دوران، بندیل کھنڈ کے علاقے میں سپیروںکے ایک گاؤں میں، لوگوں نے سختی سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وزیر اعلیٰ ان کے گاؤں میں بنائے جانے والے مقامی دیوتا کے مندر کا افتتاح کریں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے تکشا بابا مندر کے لیے حکومت سے کوئی مدد نہیں چاہتے، اس مقدس موقع پر یوگی کی موجودگی ہی کافی ہے۔
اس الیکشن میں بی جے پی کے اثر کو سمجھنے کی کلید ‘’یوگی-مودی ایک ہی‘ ہے۔
(مضمون نگار جی پی پنت سوشل سائنس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور پروفیسر ہیں،یہ ان کاذاتی خیالات ہیں)