مولانا عبدالحمید نعمانی
گاندھی جی کی کامیابی اور قابل توجہ بننے میں بڑا دخل ان کے صبر و تحمل اور اخلاقی اقدار اور صاف گوئی کا ہے، انہوں نے اسلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پہاڑی واعظ، ، جین مت، گیتا، رام چرت مانس، ٹالسٹائی وغیرھم سے استفادہ کرتے ہوئے ایک نظام زندگی بنا کر اس کے مطابق زندگی گزارنے پر توجہ دی، وہ لوگوں میں فصل پیدا کرنے کے بجائے وصل پر زور دیتے نظر آتے ہیں، عظیم شخصیات کے اخلاقی عمل سے توانائی لیتے ہوئے، وقت کے لمحات سے لڑتے ہوئے منزل کی طرف بڑھے ہیں، ان کے تصور قومیت میں منفی رجحان اور دیگر سے نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اس تناظر میں بھارت کو باقی نوع انسانی سے الگ رکھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔
بھارت میں ہندوتو وادی تحریکات کے تحت راجا رام موہن رائے، ٹیگور اور گاندھی کے بجائے دیگر شخصیات کو منصوبہ بند طریقے پر نمایاں کیا گیا ہے، ملت کے نام پر سیاست کرنے والے مسلم سیاسی عناصر نے بھی اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی، ان کی تنقیدکا رخ ہندوتو وادی فرقہ پرست سے زیادہ گاندھی، نہرو کی طرف رہا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ کبھی کبھی موتی لعل نہرو، جواہر لعل نہرو اور گاندھی جی وغیرہ بھی ہندوتو وادی لہر کے دباؤ میں آ گئے ہیں، اس دباؤ کو مسلم قیادت کو ختم یا کم کرنے پر توجہ و توانائی لگانا چاہیے، سب کی ذمہ داری گاندھی، نہرو پر ڈال کر ماتم کرنا ملت کے وقار و اعتبار اور خود اعتمادی کے منافی ہے، ٹیگور، گاندھی جی سے عمر میں بڑے تھے، ہمیں ٹیگور اور گاندھی جی کو ایک ساتھ مطالعہ کرکے مسائل کا بہتر تجزیہ کرنا چاہیے۔ نہرو کو ملا لینے سے مزید راستے وا ہو جائے گا، تینوں کے خوابوں کو ملا کر اپنے عمل کو سچا کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
گاندھی جی کے دورہ و قیام افریقہ کی جدوجہد کی تاریخ الگ ہے، اسے بھی پڑھنا چاہیے، تاہم 1920 ءکے بعد سے بھارت میں حیات کا باب الگ دور میں کھلتا ہے، ٹیگور کے وشو بھارتی میں گرو دیو اور سابر متی آشرم میں گاندھی جی کی تصویر کو بھارت کی تصویر سے ملا کر دیکھنے سے عہد حاضر کے چہرے اور تصویروں کو بھی جاننے پہچاننے میں آسانی ہو گی، ٹیگور کی تصور ی شکل اور گاندھی جی کے اخلاقی جوہر کو سامنے رکھنے سے دیگر شخصیات کے فکر و عمل کے بہتر موازنے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔
مذہبی تناظر میں نہرو کی شخصیت، گاندھی جی سے بالکل متضاد ہے، لیکن گاندھی، نہرو کے تعلقات کے حوالے سے کئی باتیں قابل توجہ و مطالعہ ہو جاتی ہیں، گاندھی جی پکے مذہبی ہوتے ہوئے بھی ریاست کے تصور اور عملی شکل میں نہرو کے ساتھ ہو جاتے ہیں، یہ بھارت جیسے مختلف مذاہب والے ملک میں ایک نسبتاً بہتر حل اور راستہ ہے،نہرو کو جانتے ہوئے بھی گاندھی جی ان کی حوصلہ افزائی کیوں کرتے تھے،؟ اس کا جواب فکر و عمل کے سفر کے مختلف پڑاؤ پر مل جاتا ہے، بہت سی باتوں میں خاصا اختلاف تھا، حتی کہ گانگریس کے مقصد اور دائرہ عمل کو لے کر بھی اختلاف تھا، گاندھی جی اسے بھارت کی روحانی اور اخلاقی حیات نو کا اور ضمناً سیاسی آزادی اور معاشی ترقی کا ذریعہ سمجھتے تھے اور وسیلہ بنانا چاہتے تھے، جب کہ نہرو، اپنے جدید تعلیم یافتہ ساتھیوں کی ہمراہی میں گانگریس کی جدوجہد کو سیاسی و معاشی مقاصد تک محدود رکھنا چاہتے تھے،یہ باہمی اختلافات ملک و قوم کے حق نقصان دہ کے بجائے مفید ثابت ہوئے ہیں، لیکن یہ تاریخ ہے کہ گاندھی جی کی شخصیت، کانگریس پر حد سے زیادہ حاوی ہو گئی تھی۔ ایک طرف نہرو نے گاندھی کے نظریے کے اس حصے کو قبول کر لیا کہ کانگریس اپنے مقصد حاصل کرنے کے لیے وہ ذرائع اختیار کرے جو اخلاقی لحاظ سے پاکیزہ ہوں تو دوسری گاندھی جی نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ کانگریس پر ہماری شخصیت کا حاوی ہونا ملک کے وسیع تر مفاد میں، آزادی ضمیر اور جمہوریت کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے، یہ صاف طور پر نظر آ رہا تھا کہ کانگریسی لیڈروں کی ایک بڑی تعداد اپنے یقین و آزادی کے برخلاف گاندھی جی سے تعلق و محبت اور احترام میں ان کے پروگرام کو قبول کر رہی ہے تو گاندھی جی کانگریس سے اپنے تعلقات کم تر کرتے گئے حتی کہ 1934 میں اس کی ممبری سے استعفا دے دیا، باتیں بنانا بہت آسان ہے لیکن ایسا عملاً کرنا بہت مشکل کام ہے، دیگر کے متعلق آئیڈیل کی بات اور اپنے متعلق پھسڈی پن کے نمونے ہمارے سامنے آئے دن آتے رہتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نکالنا صحیح نہیں ہوگا کہ گاندھی جی کانگریس کےمخالف ہو گئے تھے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ گاندھی جی کو لگتا تھا کہ ہمارے کچھ مقاصد اور کانگریس پارٹی کے دائرے میں پورے نہیں ہو سکتے ہیں اور نہ متعلقہ پروگرام چلائے جا سکتے ہیں، کانگریس کے لوگ بھی گاندھی جی کو کانگریس سے پوری طرح الگ اور مخالف نہیں سمجھتے تھے، گاندھی جی ضرورت کے وقت مشورے اور تعاون دیتے رہتے تھے، اور یہ واقعہ ہے کہ گاندھی جی پوری طرح کانگریس میں رہتے ہوئے اپنے مشن پر پوری توجہ نہیں دے سکتے تھے، دیگر تعمیری کاموں کے ساتھ ہندستانیوں کے اخلاقی و روحانی شعور میں اساسی تبدیلی پر توجہ مرکوز کر دیا، تا کہ بھارت، عدم تشدد اور سچ پر مبنی ایسے سماج کا نمونہ پیش کر سکے جس میں وہ دنیا کی نجات سمجھتے تھے ، اس صورت حال نے لوگوں میں کشمکش کی حالت پیدا کر دی تھی، ان کے سامنے یہ سوال تھا کہ آیا گاندھی جی کے ساتھ تعمیری کام کریں یا نہرو کے ساتھ سیاسی کام، اس کشمکش سے وفاداری زد میں آ رہی تھی، لیکن گاندھی، نہرو، کشمکش کو توسع سے کام لیتے ہوئے دور کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
بس دونوں کے متعلقین میں صرف ترجیحات کا معاملہ رہ گیا تھا کہ تعمیری و سیاسی کاموں میں سے فوقیت کسے دی جائے، آزادی سے پہلے گاندھی جی کے ساتھ والے سول نافرمانی اور دیگر پارٹی پروگراموں میں شریک ہو کر خود کو دونوں جگہ رکھنے میں کامیاب رہے لیکن آزادی کے بعد، تحریک آزادی سے متعلق پروگرام ختم ہو گئے اب اس دوسرے دور میں افلاس، عدم مساوات، چھواچھات، ناخواندگی، سماجی حالات وغیرہ کے خلاف جدوجہد اور لڑائی کے مقاصد اور طریقے کو لے کر گاندھی، نہرو میں عام اتفاق کے ساتھ اہم اختلافات تھے، ان میں مصالحت و موافقت ایک مشکل عمل تھا، صنعتی ترقی، ٹریکٹر سے اور ہل بیل سے کھیتی اور روایتی طور طریقے میں خاصا فرق اور دوری تھی، دونوں کے طرز فکر و عمل اور ترقی کے ذرائع و آلات کو لے کر آج بھی بحث جاری ہے۔
اس سلسلے میں گاندھی جی کی عظمت کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ نہرو، گاندھی جی آگے اور وقت کے تقاضوں اور رفتار کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں، گاندھی جی کے برعکس گاؤں کے بجائے عوام کا رخ شہروں کی طرف زیادہ ہو گیا ہے، گاؤں شہر بننے کی راہ پر گامزن دکھائی دیتا ہے، تاہم گاندھی جی نے مصالحت کا راستہ نکالنے کی کوشش کی، اگر آزادی کے بعد وہ مزید وقت زندہ رہتے تو ممکن ہے کہ اپنے کچھ پروگراموں کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جاتے، گاندھی جی کے بعد جو گاندھی وادی رہ گئے تھے وہ گاندھی واد کے ساتھ زیادہ دور تک نہیں چل سکے، ان میں سے زیادہ تر اقتدار کے کھونٹے سے بندھ کر رہ گئے اور گزرتے دنوں کے ساتھ، کئی باتوں کو لے کر آپس میں کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے، کچھ نے گاندھی، نہرو دونوں سے غیر مطمئن ہو ہو کر کمونسٹ پارٹی بنالی تھی، لیکن یہ زیادہ کامیاب نہیں ہو پائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا مرکز ثقل بھارت سے باہر تھا، ان کا فلسفہ حیات بھی گاندھی جی کے برعکس، ہندستانی ذہن کے برخلاف تھا، ایک گروہ جو نہرو کا حامی سمجھا جاتا تھا، کانگریس کے اندر رہ اسے جمہوری اشتراکیت کی طرف لانا چاہتا تھا۔
آزادی کے بعد کانگریس حکومت کی پالیسیوں سے مایوس ہو کر شوسلسٹ پارٹی بنالی، اس گروپ کے لوگوں کا دعوٰی تھا کہ ہم نہرو کی اسی راہ پر چل رہے ہیں جسے وہ ترک کر چکے تھے، بعد کے دنوں کی کانگریس، ملک میں جاری تحریکات، گاندھی جی کے حوالے سے ونوبا بھاوے کی سرگرمیوں کے مطالعے سے کئی چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں، ان کی روشنی میں یہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ گاندھی واد اور گاندھی وادی، فرقہ پرست ہندوتو اور ہندوتو وادیوں کے مقابلے میں ناکام اور پیچھے کیوں اور کیسے رہ گئے؟