تحریر:محمد یاسین جہازی
موہن داس کرم چند گاندھی، 1918کی سیاسی فضا پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور عدم تشدد کے نظریہ سے ہر کسی کے دل میں اپنا مقام بنالیا تھا۔ گاندھی جی تحریک سول نافرمانی کے ذریعہ انگریزوں کودیس نکالا دینا چاہتے تھے، جو مسلمانوں کی اجتماعی قوت کے بغیر ناممکن تھی، اس لیے گاندھی جی نے مسلمانوں کی تحریک خلافت کی بلا شرط تائید و حمایت کی، جس سے پورے ہندستان میں ہندو مسلم اتحاد عروج پر پہنچ گیا۔
”23/ نومبر 1919کو خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس دلی میں ہوا تھا۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس لکھنو کے بعد وزیر اعظم برطانیہ لائڈ جارج نے لارڈ میر کی دعوت میں ایک دل خراش تقریر کی، جس سے یہ انداز ہ ہوا کہ وزیر اعظم سلطنت برطانیہ اب اپنے اور حکومت برطانیہ کے وعدوں سے انحراف کرنے والے ہیں۔ اس تقریر نے مسلمانوں میں بہت جوش بھر دیا اور فورا 23/ نومبر 1919کو خلافت کانفرنس کا ایک جلسہ دلی میں بڑی دھوم دھام سے مسٹر فضل الحق (بنگال) کی صدارت میں منعقد ہوا۔ مہاتما گاندھی بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ ان کے خیر مقدم کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔“ (تحریک خلافت، ص/102)
”نون کو اپریشن کا ریزولیوشن آل انڈیا خلافت کانفرنس میں پاس ہوا تھا۔ اِس کانفرنس میں مہاتما گاندھی کے علاوہ سب مسلمان تھے۔ جن میں علما بھی تھے۔ مولانا عبدالباری صاحب کی رائے بھی حاصل کی گئی تھی اور نہایت غور و بحث کے بعد یہ تجویز پاس ہوئی تھی۔“ (خطبہ استقبالیہ دوسرا اجلاس عام جمعیۃ علماء ہند، منعقدہ 19، 20، و21/ نومبر1920ء بمقام دہلی)
23/ نومبر 1919کو منعقد اسی خلافت کانفرنس سے فراغت کے بعد بعد نماز عشا جمعیت علمائے ہند کی تشکیل عمل میں آئی۔
گاندھی جی نے پہلی مرتبہ پبلک پلیٹ فارم سے 23/ مارچ 1920ء کو میرٹھ میں ہورہی خلافت کانفرنس میں اس نظریہ کو پیش کیا۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ ”ہمیں حکومت کی تائید کرنے اور تقویت پہنچانے سے ہر طرح پرہیز کرنا چاہیے۔ یہی طریقہ حکومت کو آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ ہم سے معاملہ کرے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ تمام سرکاری خطابات واپس کردیے جائیں۔ عدالتوں اور درس گاہوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہندستانی سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیں اور جو نئے قانون ساز ادارے بننے والے ہیں، ان میں ہر طرح سے حصہ لینے سے انکار کریں۔“ (شیخ الاسلامؒ کی سیاسی ڈائری، ج/دوم، ص/ 103)
گاندھی جی نے پہلی مرتبہ پبلک پلیٹ فارم سے 23/ مارچ 1920ء کو میرٹھ میں ہورہی خلافت کانفرنس میں اس نظریہ کو پیش کیا۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ ”ہمیں حکومت کی تائید کرنے اور تقویت پہنچانے سے ہر طرح پرہیز کرنا چاہیے۔ یہی طریقہ حکومت کو آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ ہم سے معاملہ کرے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ تمام سرکاری خطابات واپس کردیے جائیں۔ عدالتوں اور درس گاہوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہندستانی سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیں اور جو نئے قانون ساز ادارے بننے والے ہیں، ان میں ہر طرح سے حصہ لینے سے انکار کریں۔“ (شیخ الاسلامؒ کی سیاسی ڈائری، ج/دوم، ص/ 103)
جمعیۃ اور ترک موالات کا فتویٰ
نان کو آپریشن یعنی ترک موالات نے جہاں ہند و مسلم کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں اہم کردار ادا کیا، وہیں انگریزوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ثابت ہوئی، اس لیے جمعیت علمائے ہند نے اس فضا کو برقرار رکھنے کے لیے اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر اس سے جوڑنے کے لیے ترک موالات کا فتویٰ دیا۔
”6/ستمبر(1920ء) کو جمعیت علما کا ایک اجلاس کلکتہ میں زیر صدارت مولانا تاج محمود صاحب سندھی (امروٹی) منعقد ہوا، اور8/ ستمبر1920ء کو پانچ سو علما کے دستخط سے ترک موالات کا فتویٰ شائع ہوا۔ یہ فتویٰ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب نائب امیر شریعت بہار نے تحریر فرمایا تھا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، ج/ دوم، ص/152۔ تحریک خلافت، ص/161)
اس اجلاس میں ترک موالات کے حوالے سے درج ذیل تجویز پاس کی گئی:
’’جمعۃ علماء ہند کا یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ چوں کہ ٹرکی کے ساتھ صلح کرنے میں دول یورپ نے صریح طور پر نا انصافی کی اور اسلامی جذبات کو پامال کیا ہے، اور وزرائے برطانیہ نے اپنے صاف و صریح وعدوں کی ا علانیہ خلاف ورزی کی ہے اور خلافت کے اقتدار کو زائل کرنے اور خلیفۃ المسلمین کی مذہبی طاقت کی بیخ کنی کرنے میں اسلام کے ساتھ صریح طور پر مذہبی تعصب کا ثبوت دیا ہے، اس لیے مسلمانوں پر بحیثیت متبع اسلام ہونے کے لازم ہوگیا ہے کہ وہ ان اعدائے اسلام سے ترک موالات کریں۔‘‘ محرک: مولانا ابوالکلام آزاد۔مؤید: مولانا عبد الصمد صاحب مقتدری بدایونی۔ مولانا مظہر الدین صاحب۔ مولانا عبد القیوم، عرف نور احمد صاحب۔“ (متفقہ فتویٰ علمائے ہند، ص/14)
اس کے بعدجمعیۃ کے دوسرے اجلاس عام منعقدہ 19، 20، و21/ نومبر1920ء کے علاوہ مختلف اجلاس اور پروگراموں میں اس کا اعادہ کیا گیا۔
گاندھی جی،نہرو رپورٹ اور جمعیۃ
جمعیۃ علماء ہند کے نقطہ نظر سے سول نافرمانی کی تحریک مکمل آزادی کے حصول پر مبنی تھی، لیکن سائمن کمیشن کے چیلنج کے جواب میں نہرو رپورٹ پیش کی گئی، جس میں مکمل آزادی کے بجائے ہندستان کو درجہ نو آبادیات دینے کی وکالت کی گئی تھی۔ اس میں سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ کانگریس کے ساتھ ساتھ گاندھی جی نے بھی اس رپورٹ کی تمام تجاویز منظور کرلیں۔
5/ نومبر1928 کو آل انڈیا کانگریس نے اپنے کلکتہ کے اجلاس میں نہرو رپورٹ کی تمام تجاویز منظور کرتے ہوئے کہا کہ ”موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر کانگریس اس دستور اساسی کو قابل قبول سمجھتی ہے بشرطیکہ 31/ دسمبر1929تک برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ اسے منظور کرلے اور اس کو منظور نہ کرنے کی صورت میں کانگریس پر امن عدم تعاون کی مہم شروع کردے گی اور لوگوں کو مالیہ اور ٹیکس ادا نہ کرنے کا مشورہ دے گی“۔ (شیخ الاسلامؒ کی سیاسی ڈائری، جلد دوم، ص/ 444)
اس رپورٹ نے مسلمانوں میں متعدد خدشات کو جنم دیا، جس کے پیش نظر اس کے جائزہ کے لیے 28/ اگست 1928کو جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیااور رپورٹ پر مفصل تبصرہ کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے ”تنقید و تبصرہ“ کے نام سے اپنی مفصل رپورٹ پیش کی۔جس میں جمعیت نے نہرو رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا۔ بعد ازاں جب آخری مدت تک انگریزی حکومت نے کوئی ریسپانس نہیں دیا، تو ایک سال بعد کانگریس نے بھی 31دسمبر1929کواپنے اجلاس لاہور کے اختتام پراس رپورٹ کو دریائے راوی میں بہا دیا اور مکمل آزادی کی تجویز پاس کی۔اگر روزل اول ہی کانگریس اور گاندھی جی جمعیت کی بات مان لیتے،تو آزادی کی تحریک کا ایک سال ضائع ہونے سے بچ جاتا۔
گاندھی جی اورجمعیۃ کا دائرہ حربیہ
نہرو رپورٹ کو دریا برد کرنے کے بعد مکمل آزادی کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے گاندھی جی نے ڈانڈی مارچ یا نمک مارچ کے ذریعہ سول نافرمانی،یا ترک موالات، یا عدم تعاون یعنی (Civil Disobedience) تحریک کا آغاز 12مارچ 1930کو کیا۔ چنانچہ جمعیت نے بھی عملی اقدام اٹھاتے ہوئے اپریل 1930میں دائرہ حربیہ قائم کیا اور اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ اس تحریک میں اتنی شدت آگئی کہ بالآخر حکومت کو جھکنا پڑا اور اسے روکنے کے لیے گاندھی ارون مفاہمت کرنی پڑی۔یہ مفاہمت5مارچ1931کوہوئی، جس کی وجہ سے عارضی طور پر دائرہ حربیہ کی سرگرمیوں کو موقوف کردیا گیا،لیکن حکومت نے وعدہ خلافی کی تو جمعیت علمائے ہند نے 29فروری 1932سے دوبارہ پوری قوت و شدت کے ساتھدائرہ حربیہ کی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا اور حکومت کو جھکنے پر مجبور کیا۔
گاندھی جی اور مسودہ تحفظ حقوق مسلم
ہندستان کے مجوزہ دستور اساسی میں مسلمانوں کے پرسنل لاء کے تحفظ کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی تشکیل کردہ ایک کمیٹی نے ایک فارمولہ تیار کیا اور 23 مارچ 1931کو گاندھی جی کے پاس بھیج دیا۔
”دہلی25مارچ۔ معلوم ہوا ہے کہ 23مارچ کو جمعیت علمائے ہند کے سربرآوردہ ارکان گاندھی جی سے تنہائی میں ملے اور دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ کن کن مسائل پر گفتگو ہوئی اس کی تفصیل معلوم نہ ہوسکی؛ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی امور اور پرسنل لاء کے تحفظات پر گفتگو ہوئی۔ بعد کی اطلاع سے ظاہر ہوتا ہے کہ گاندھی جی نے جمعیت علمائے ہند سے مذہبی تحفظات کی تحریری یادداشت طلب کی تھی، جس کو صدر جمعیت علمائے ہند نے گاندھی جی کے پاس بھیج دیا، جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئندہ دستور اساسی میں کوئی ایسی دفعہ ہونی چاہیے جس کا مفہوم یہ ہو کہ مسلمانوں کے تمام پرسنل لاء حسب قوانین اسلام نافذ رہیں گے اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اور یہ کہ مسلمانوں کی مذہبی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جن مقدمات میں مسلم حاکم کا ہونا ضروری ہے، ان کے انفصال کے لیے قاضیوں کا تقرر ہوگا۔ جمعیۃ علماء ہند کے اس مطالبہ کو تمام مسلمانوں کے تمام گروہوں کی تائید حاصل ہے اور یقین کیا جاتا ہے کہ ہندو اور دوسری اقوام پر چوں کہ اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، اس لیے وہ اس کو منظور کرلیں گے۔ (دہلی انفارمیشن بیورو)۔“ (الجمعیۃ28مارچ1931)
جمعیۃ کے دسویں اجلاس عام میں گاندھی جی کی تقریر
جمعیۃ علماء ہند کا دسواں اجلاس عام کراچی میں ہوا۔ یکم اپریل 1931کی نشست میں گاندھی جی نے شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔ گاندھی جی کے خطاب کے اہم اقتباسات درج ذیل ہیں:
”کراچی 2؍ اپریل۔ جمعیۃ علماء ہند کے سالانہ اجلاس کراچی میں گذشتہ شام گاندھی جی نے اپنی تقریر میں آگرہ، بنارس، مرزا پور، کانپور وغیرہ کے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان شہروں میں ہندو مسلمان دشمنوں کی طرح ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں کسی فرقہ پر الزام عائد نہیں کرسکتا؛ لیکن اخبارات کی اطلاعات سے جو کچھ معلوم ہوا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانپور میں شرارت ہندووں کی طرف سے شروع ہوئی۔ جبریہ ہڑتال کرانا میرے خیال میں گناہ عظیم ہے۔ آپ نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ فسادات کی تحقیقات کے لیے کانگریس نے ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی ہے، جو بہت جلد اپنا کام شروع کرنے والی ہے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بحیثیت ایک ہندو کے میں اپنے ہم مذہبوں کے اس فعل پر بہت شرمندہ ہوں۔ اگر دونوں فرقوں میں سے ایک بھی پوری طرح رواداری سے کام لے، تو فرقہ وارانہ فسادات ہمیشہ کے لیے معدوم ہوسکتے ہیں۔ میں اسلام کے فاضل علما سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے اثر کو کام میں لاکر مسلمانوں کے دلوں سے فسادات کے زہریلے اثرات کو زائل کریں اور باہمی اتحاد اور رواداری کا سبق دیں۔ میں ہندووں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ گھونسے کا جواب مکے سے نہ دیں؛ بلکہ اگر مسلمان کسی غلطی کا ارتکاب بھی کریں، تو ان سے برادرانہ سلوک کریں۔
ہندو مسلم اتحاد اور سوراج
آپ نے فرمایا کہ ہندو مسلم اتحاد ہی سے حاصل ہوسکتا ہے اور جب تک کہ فرقہ وارانہ مسئلہ کی گتھی نہ سلجھ جائے، گول میز کانفرنس میں شرکت کرنا بیکار ہوگا۔
صوبہ سرحد کے باشندوں کی شان دار خدمات کا اعتراف
اس سلسلہ میں آپ نے صوبہ سرحد کے باشندوں کی شان دار خدمات کا اعتراف کیا اور کہا کہ انھوں نے عدم تشدد کے اصول پر پوری طرح عمل کیا ہے اور علما سے درخواست کی کہ وہ دعا کریں کہ خدا مجھے ہندو مسلم حقوق کے تصفیہ میں کامیابی عطا فرمائے، جس کے لیے میں کل دہلی جارہا ہوں۔
اصولی حقوق کے متعلق کانگریس کا بیان
اصولی حقو ق کے متعلق شائع شدہ بیان کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ہم محصول سوراج کے لیے کام کر رہے ہیں اور وہ سوراج غربا کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ میں آپ سب صاحبان سے جو یہاں موجود ہیں، درخواست کرتا ہوں کہ آپ کانگریس کے ساتھ اشتراک عمل کرکے سوراج کے حاصل کرنے میں کانگریس کی مدد کریں۔
سندھ کی علیحدگی کا مسئلہ
میں جس دن سے کراچی آیا ہوں، ہندووں کی طرف سے مسلسل زور دار تار موصول ہورہے ہیں، جس میں مجھ سے سندھ کی علاحدگی کی مخالفت کرنی کی درخواست کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فرقوں میں کشیدگی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندووں کا خیال ہے کہ اگر سندھ ایک علاحدہ صوبہ بنادیا گیا، تو مسلمان انھیں ہڑپ جائیں گے۔ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ مسلمان ہندووں کا اعتماد حاصل کریں اور انھیں بتادیں کہ سندھ کی علاحدگی سے ان کی جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ میں ہندووں سے اپیل کروں گا کہ وہ بزدل نہ بنیں اور اپنے مسلمان بھائیوں پر اعتماد کریں۔ ہندووں کے دلوں سے خوف نکال کر اور آپس میں اتحاد پیدا کرکے ہر دو اقوام کو چاہیے کہ وہ علاحدگی سندھ کا متفقہ مطالبہ کریں اور پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے مسترد نہیں کرسکتی۔
کھدر پہننے کی اپیل
آخر میں آپ نے مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ کھدر پہنیں اور روزانہ سوت کاتیں۔ کھدر کے استعمال میں فرقہ پرستی حائل نہیں ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سوت کاتنے والوں میں سب سے بڑی تعداد مسلمان عورتوں کی ہے، جو کہ کھدر بنانے میں بڑی امداد کر رہی ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان بجائے اپنے ہندو بھائیوں کے، جو انھیں کا گوشت پوست ہیں، لنکاشائر والوں کو فائدہ پہنچائیں۔ مسلمانوں کو حضرت عمر ؓسے سادگی کا سبق لینا چاہیے۔ مجھے تعجب ہے کہ اس حالت میں جب کہ ملک غربت و افلاس میں مبتلا ہے، مسلمان فضول خرچی کی آفت میں مبتلا ہیں۔“ (روزنامہ الجمعیۃ 9/ اپریل 1931)
اردو کے حوالے سے گاندھی جی کے رویہ پر اظہار افسوس
ہندستانی ادبیات کے متعلق 24و 25اپریل1936کو ناگپور میں کئی اجلاس منعقد ہوئے، جس میں اردو کے مقابلہ میں ہندی زبان کو اولیت دینے کی وکالت کی گئی۔ اس کا افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ کانگریس کے دیگر متعصب لیڈروں کی حمایت کرتے ہوئے گاندھی جی نے بھی اس کی تائید کردی، جس پر جمعیت نے گاندھی جی کے رویہ پر افسوس کا اظہار کیا۔
”اور ہم سمجھتے ہیں کہ ناگپور میں قوم پرور ہندو رہنماوں کی طرف سے یہ کھلم کھلا متعصبانہ کارروائی آئندہ قومیت کی تعمیر و تشکیل کے لیے کچھ خوش آئند ثابت نہیں ہوگی؛ بلکہ اور زیادہ پیچیدگیاں اور خرابیاں پیدا کردے گی۔ گاندھی جی ہندی بھاشا کو ہندستان کی زبان بنانے کے لیے جو سعی کر رہے ہیں وہ بے انتہا خطرناک ہے اور اس سے ہندستان کی دو سب سے بڑی قوموں کے درمیان سخت کشمکش پیدا ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے۔…… اور ہمیں حیرت ہے کہ قومی زبان کے موضوع پر اردو کے خلاف گاندھی جی یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ وہ قرآن کے حروف میں لکھے جانے کی وجہ سے ملکی زبان بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی،تو پھر ایک معمولی سمجھ کے ہندو کی ذہنیت اس معاملہ میں کیا ہوگی۔ گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو اور بابو راجندر پرشاد کی شخصیتیں کانگریس جیسی حریت پرور ایثار پیشہ جماعت کے اندر چوٹی کی شخصیتیں ہیں اور ان کا کسی ایسی خالص فرقہ وارانہ تحریک میں شامل ہونا اور اس کو چلانا یقینا بہت زیادہ افسوس ناک ہے۔
گاندھی جی خواہ پہلے زبان کے معاملہ میں کتنے ہی ہندی پرست کیوں نہ رہے ہوں؛ مگر جب سے انھوں نے ہندستان کی قومی سیاسیات میں قدم رکھا اور یہاں کی قوموں کا مشترک نظریہ ان کے سامنے آیا، انھوں نے قومی زبان کے لیے ہندستانی لفظ کا استعمال کرنا شروع کردیا۔ اور جب کبھی کسی نے اردو کا ذکر کیا، تو انھوں نے یہی کہا کہ ہندستانی کا لفظ اردو اور ہندی دونوں کو شامل ہے اور اسے وہ زبان مقصود ہے جو عموما بولی جاتی ہے۔ مگر اب ایک عرصہ کے بعد گاندھی جی پھر ہندستانی کو چھوڑ کر ہندی کا لفظ اختیار کر رہے ہیں اور اردو کے ساتھ ہندی کا تقابل ان کی سرپرستی میں شروع ہورہا ہے۔ ملکی سیاسیات کے لیے موجودہ مرحلہ پر یہ ایک مہلک قدم ہے جس کی غلطی کا انھیں جلد احساس ہوجائے گا۔ اور اگر انھوں نے محسوس نہ کیا تو آئندہ نسل اس کو تجربہ اور مشاہدہ سے سمجھ لے گی۔“ (الجمعیۃ یکم جون 1936)
گاندھی جی سے ارکان جمعیۃ کی گفتگو
”بعض ذمہ دار کانگریسی لیڈروں کے ان بیانات کے خلاف جمعیت نے بھی نوٹس لیا اور 17مارچ 1937کو حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحب سیوہاروی اور حضرت مولانا بشیر احمد صاحب کٹھوری ارکان مجلس عاملہ جمعیت علمائے نے گاندھی جی سے ملاقات کرکے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ اسی طرح ارکان جمعیت نے یہ بھی مطالبہ رکھا کہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے سیاسی پیچدگیوں اور سیاسی مفاہمت کے نظریوں سے جدا ایک ایسا ادارہ قائم کردیں، جس کا نصب العین صرف ہندستانی جماعتوں میں مدنی خوشگوار ی پیدا کرنا، فسادات کا سد باب کرنا، زندگی کے تمام پہلووں میں رواداری پھیلانے کی سعی کرنا ہو۔گاندھی نے دونوں مسئلوں کے متعلق فراخ دلی کے ساتھ تبادلہ خیالات کیے اور دونوں پہلووں پر عملی اقدامات کرنے کی بات کہی۔“(الجمعیۃ 20مارچ 1937)
انگریزو! بھارت چھوڑ دو تحریک،گاندھی جی اور جمعیۃ
کانگریس نے 8/ اگست 1942کو انگریزو! بھارت چھوڑ دو تحریک کا عملی طور پر آغاز کیا۔جمعیت علمائے ہند نے بھی 17/18/ اگست1942ء کو شانہ بشانہ اس تحریک میں حصہ لینے کا اعلان کیا، جس سے پورے ہندستان میں بھونچال آگیا۔ تحریک شروع ہوتے ہی جہاں کانگریس کے بڑے لیڈران گرفتار کرلیے گئے، وہیں جمعیت علمائے ہند کے رہنماوں کو بھی پابند سلاسل کردیا گیا، جس میں شیخ الاسلامؒ، مجاہد ملتؒ اور سحبان الہندؒ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ اس گرفتاری کیبعد گاندھی جی نے وائسرائے لن لتھ گو سے خط و کتابت کی،لیکن وائسرائے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، جس سے مجبور ہوکر گاندھی جی نے برت رکھنے کا فیصلہ کیا۔ گاندھی جی کے صحت کے پیش نظرجہاں عوام الناس نے اس برت کی مخالفت کی، وہیں جمعیت نے نہ صرف اس کی مخالفت کی؛ بلکہ باقاعدہ اس احتجاج کی قیادت کی۔
”گاندھی جی نے گرفتاری کے بعد وائسرائے سے خط و کتابت شروع کی، جو فروری 1943تک جاری رہی۔ مگر وائسرائے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بالآخر گاندھی جی نے اکیس روز کا برت رکھا جو 10فروری (1943) سے شروع ہوکر 3/ مارچ 1943کو ختم ہوا۔ دہلی میں اس موقع پر ایک صلح کانفرنس کا انتظام کیا گیا، جس میں گاندھی جی کے اس برت پر احتجاج بھی کیا گیا۔ حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ چوں کہ اس کی قیادت فرمارہے تھے، لہذا مولانا موصوف کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔“ (علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، جلد، دوم، ص/ 162)
سینٹرل ریلیف کمیٹی جمعیۃ علماء ہند کے وفد کا گاندھی جی سے ملاقات
جمعیۃ علماء ہند اور دیگر قوم پرور جماعتوں کی مشترکہ کوششوں سے ہندستان آزاد تو ہوگیا، لیکن کچھ لیڈروں کی غلط قیادت کی وجہ سے تقسیم کی بدقسمتی بھی مسلط ہوگئی، جس نے فرقہ وارانہ فسادات کا ایسا خونی سلسلہ شروع کردیا، جس سے انسانیت شرمسار ہوکر رہ گئی۔ ایسے خطرناک اور مہیب حالات میں خدام جمعیت نے انسانیت کی خدمت اور انھیں بسانے کا بیڑا اٹھایا۔ بالخصوص لٹے پٹے مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، جس کے لیے قائدین جمعیت روزانہ گاندھی جی سے ملاقات کرتے تھے اور بالخصوص دہلی کے مسلمانوں کی داستان مظلومیت سے واقف کراتے تھے۔ چنانچہ گاندھی جی نے بھی ہندو مسلم اتحاد کو بحال کرنے اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے جان کی بازی لگادی اور جمعیت کی ہر رپورٹ پر ایکشن لیتے ہوئے امن و اتحاد کی فضا قائم کرنے میں سنہرے کردار ادا کیے۔ اس سلسلے کے چند شواہد درج ذیل ہیں:
”دہلی۔ 24دسمبر۔ چند روز سے دہلی میں تالے توڑنے، دوکانوں اور مکانوں پر زبردستی قبضہ کرنے، لوٹ ماراور خنجر زنی کی وارداتیں ہونے لگی تھیں، جس سے دہلی کے مسلمانوں میں بے چینی اور پریشانی پیدا ہونے لگی تھی۔ چنانچہ سنٹرل ریلیف کمیٹی جمعیت علمائے ہند کا ایک وفد اس سلسلہ میں گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزادؒ سے ملا۔ اور شہر کے حالات اور اہم انتظامی امور کے بارے میں ضروری گفت وشنید اور مشورے کیے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ 26/ دسمبر1947)
دہلی۔25/ دسمبر۔ کل سنٹرل ریلیف کمیٹی جمعیت علمائے ہند کا ایک اہم وفد گاندھی سے ملا۔ اس میں حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ، حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحبؒ، مسٹر جعفری صاحب اور حافظ محمد نسیم صاحب بٹن والے شریک تھے۔ گاندھی جی سے گفتگو کے وقت حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل بھی موجود تھے۔
جمعیۃ علماء ہند کے اس وفد نے مذکورہ حضرات سے اہم معاملات کے بارے میں گفتگو کی۔ کہاجاتا ہے کہ یہ گفتگو بہت امید افزا رہی۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 27/ دسمبر 1947)۔
”معلوم ہوا ہے کہ اس ملاقات میں مسلمانان دہلی کے امن و تحفظ کا بنیادی مسئلہ زیر بحث رہا اور گفتگو نتیجہ خیز ہوئی۔ اس ضمن میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مرکزی حکومت نے جدید قطعی فیصلہ کیا ہے کہ دہلی کی بھاری اکثریت والے مسلم حلقوں میں غیر مسلم ریفیوجی نہیں بسائے جائیں گے۔ اس فیصلہ کی باضابطہ اطلاعات حکام متعلقہ تک پہنچا دی گئی ہیں۔ اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ اب ان کے متعلقہ افسر اور حکام بالادست مرکزی حکومت کی اس طے شدہ پالیسی پر عمل درآمد کرنے کے لیے اپنی پوری قوت سے کام لیں گے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ 29/ دسمبر1947)
آزاد کانفرنس لکھنو میں گاندھی جی کی تعریف
تقسیم ہند کے نتیجے میں ساڑھے چار کروڑ مسلمانوں کی حیثیت اقلیت میں تبدیل ہوجانے کی وجہ سے پیدا شدہ خطرات اور انڈین یونین میں مسلمانوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے 27-28دسمبر1947کو لکھنو میں امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی صدارت میں ایک عظیم الشان کانفرنس ہوئی، جسے ”آزاد کانفرنس“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں کئی تجاویز پاس کی گئیں، جن کی ایک تجویز میں آزادی کے لیے اور بھارت میں جمہوری حکومت کے لیے گاندھی جی کی تعریف کی گئی۔
”یہ کانفرنس گاندھی جی اور ان تمام کانگریسی لیڈروں کی شان دار خدمات اور کوششوں کی معترف ہے، جنھوں نے انڈین یونین کے تمام باشندوں کے لیے مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے کام کیا ہے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، ۲/ جنوری 1948)
مولانا حفظ الرحمان صاحب ناظم عمومی جمعیت علمائے ہند نے اس تجویز کو پیش کرتے وقت اپنے خطاب میں گاندھی جی کا شکریہ ادا کیا۔
”تقریر ختم کرتے ہوئے مولانا حفظ الرحمان صاحب نے ایک مرتبہ پھر گاندھی جی کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر دہلی کی حالت سدھارنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ایک حدیث کا حوالہ دے کر کہا کہ جو شخص ایسے انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ خدا کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، ۲/ جنوری 1948)
مسلم ریلیف کمیٹی کا گاندھی جی سے ملاقات
”دہلی4جنوری۔ آج صبح 11 بجے حضرت مولانا احمد سعید صاحب، مولانا حفظ الرحمان صاحب، حافظ نسیم صاحب، سید محمد صاحب جعفری، مسٹر سلطان یار خان صاحب ایڈوکیٹ وغیرہ اراکین سنٹرل مسلم ریلیف کمیٹی جمعیت علمائے ہند نے مہاتما گاندھی سے ملاقات کی اور دہلی کے حالات پر تفصیلی گفتگو کی۔ معلوم ہوا ہے کہ آج کی گفتگو کااہم موضوع یہ تھا کہ ”شرنارتھیوں“ کے لیے آبادی قائم کرنے کی تجویز پر جلد از جلد عمل کیا جائے۔
ہزاروں عورتیں اور بچے شدید سردی کی مصیبت برداشت کر رہے ہیں۔ ہر ایک ہمدرد انسانیت ان کی اس پریشانی سے تکلیف محسوس کر رہی ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اب تک حکومت نے ان کے آباد کرنے اور بسانے میں چستی سے کام نہیں لیا اور جبریہ قبضہ کی اخلاق سے گری ہوئی صورت جو شرنارتھیوں نے اختیار کی؛ اس نے عام طور پر بددلی پیدا کردی ہے۔ اگر یہ شرنارتھی جبر اور دہشت انگیزی کے بجائے رواداری اور اخلاق سے کام لیتے، تو یقینا وہ مسلمانوں کو اپنا بہترین ہمدرد اور مددگار پاتے۔ نامہ نگار۔“ (روزنامہ الجمعیۃ۷/ جنوری 1948)
اجمیر، دہلی کے حالات پر گاندھی جی سے ملاقات
”دہلی۔ 6 جنوری۔ معلوم ہوا ہے کہ آج جمعیت علمائے ہند کے معزز ارکان حضرت مولانا احمد سعید صاحب، مولانا حفظ الرحمان صاحب وغیرہ نے ۱۱ بجے کے قریب گاندھی جی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات آدھ گھنٹہ جاری رہی۔ اس ملاقات میں خاص طور سے اجمیر کے حالیہ فسادات اور دہلی میں قیام امن کے مسائل پر گفتگو ہوئی۔ نامہ نگار“ (روزنامہ الجمعیۃ، 4جنوری 1948)
گاندھی جی کا مرن برت
بھارت کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات اور قتل و غارت کے بعد دہلی میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ دہشت پسند سکھوں اور ہندووں نے گویا یہ طے کر رکھا تھا کہ دہلی میں ایک مسلمان کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے، جسے روکنے کے لیے گاندھی جی نے 12/ جنوری 1948کو مرن برت رکھنے کا اعلان کردیا۔
”12/ جنوری، نئی دہلی۔ گاندھی جی نے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن کو مطلع کیا کہ حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ حکومت کی کوئی تدبیر اکارگرہوتی نظر نہیں آتی۔ میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ میں مرن برت رکھنے جارہا ہوں۔ دہلی میں مکمل امن کے سوا کوئی چیز مجھے اس فیصلے سے نہیں روک سکتی۔“ (شیخ الاسلامؒ کی سیاسی ڈائری، جلدچہارم، ص/601)
ناظم عمومی جمعیۃ کے تاثرات
”دہلی۔ 12/ جنوری۔ آزاد ہندستان کے لیے یہ بہت ہی بڑا حادثہ ہے۔ حالات خواہ کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں، دنیا کی عظیم ترین شخصیت کی بقا کے لیے ہندو، مسلمان، سکھ، سب ہندستانیوں کا فرض ہے کہ وہ انتقامی جذبات کو پس پشت ڈال کر مہاتماجی کے مقصد کو کامیاب بنائیں۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 15/ جنوری 1948)
گاندھی جی کے مرن برت پر جمعیۃ کے وفد کی ملاقات
”نئی دہلی۔ 14/ جنوری۔ ……اس کے بعد مسلمانوں کے ایک وفد نے گاندھی جی سے ملاقات کی۔ یہ وفد چھ ممبران پر مشتمل تھا۔اور اس کی قیادت مولانا احمد سعید صاحب اور مولانا حفظ الرحمان نے کی۔“ (روزنامہ الجمعیۃ 17/ جنوری 1948)
گاندھی جی کی برت کشائی
گاندھی جی نے برت کشائی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ جب تک سبھی فرقہ کے ذمہ داران دہلی میں امن و امان کے قیام کا اطمینان نہیں دلائیں گے، تب تک برت جاری رہے گا، چنانچہ سبھی فرقوں کی طرف سے اطمینان دلایا گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا حفظ الرحمان صاحب سیوہارویؒ نے یقین دہانی کرائی۔ برت کشائی کے لیے باقاعدہ 21/ جنوری 1948کو ایک جلسہ ہوا، جس میں مولانا حفظ الرحمان صاحب ناظم عمومی جمعیت علمائے ہند نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ”گاندھی جی کے برت کے سلسلہ میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور فرقہ وارانہ امن و اتحاد کی فضا پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ چوں کہ حکومت کی طرف سے بھی یقین دلایا گیا ہے، اس لیے میں ڈاکٹر راجندر پرشاد کی اس اپیل کی تائید کرتا ہوں کہ گاندھی جی اپنا برت توڑ دیں۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 21/ جنوری 1948)
گاندھی جی سے آخری باتیں
”از حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحب ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء ہند-بارہ بجے دوپہر کا وقت، جب میں،مولانا احمد سعید،مسٹر محمد جعفری اور حافظ محمد نسیم روزانہ معمول کے مطابق دنیا کی اس عظیم ترین شخصیت مہاتما گاندھی سے ملاقات کرنے گئے۔ گاندھی جی اس وقت دھوپ میں سو رہے تھے۔ تھوڑا انتظار کرنا پڑا۔ جب سوکر اٹھے، تو موہن لال گوتم اور پنڈت سندر لال جی بھی ہمارے ساتھ مہاتما جی کے پاس چلے۔ گفتگو شروع ہوئی۔ اول گوتم جی نے ریاستی میواتیوں کو ضلع گوڑگاوں میں بسائے جانے کے متعلق گفتگو کی اور مہاتما جی نے اس سلسلہ میں ان کی حوصلہ افزائی کی اور یقین دلایا کہ میری تمام ہمدردیاں اور کوششیں تمھارے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد ہنس کر مجھ سے فرمایا:”میں نے کہا تھا کہ مجھے ۳/ فروری کو سیوا گرام جاناہے۔ مگر میں تمھارا قیدی ہوں۔ جب تم اجازت دوگے، جاوں گا۔ تم نے آج جواب دینے کا وعدہ کیا تھا، بتلاؤ کیا کہتے ہو۔“میں نے کہا: مہاتما جی! ہم سب نے مشورہ کرکے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آپ ضرور سیوا گرام تشریف لے جائیں۔ وہاں بھی ضروری کام ہیں۔ ہم سب بھی یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کے جانے کے بعد آپ کی پیدا کردہ صلح و آشتی کا اثر مضبوط اور پائیدار ہے یا نہیں۔ لیکن آپ کو اپنے وعدہ کے مطابق 14فروری کو ضرور واپس آجانا ہے۔
مہاتما جی نے ہنستے ہوئے فرمایا: ”ضرور14کو واپس آجاؤں گا، اگرکوئی آسمانی یا شیطانی حادثہ پیش نہ آجائے۔‘‘ہم سب نے کہا: خدا تعالیٰ آپ کو سلامت واپس لائے۔ ایسی ہنسی خوشی میں ہم سب رخصت ہوئے۔ آہ! کون جانتا تھا کہ دنیا کی اس بڑی شخصیت کے منھ سے نکلا ہوا یہ جملہ قدرت کے فیصلے کا اظہار ہے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 31/ جنوری 1948)
مہاتما گاندھی کا جمعیت کو مبارک ہدیہ
30جنوری 1948کو جب جمعیت کا وفد گاندجی سے ملاقات کے بعد واپس آنے لگا تو گاندھی جی نے جمعیت علمائے ہند کو کلام اللہ شریف کو بطور ہدیہ پیش کیا۔
”…… تقریبا ایک بجے ملاقات ختم ہوئی۔ اور جمعیت علمائے ہند کے ارکان برلا ہاوس سے واپس ہونے لگے، تو پنڈت سندر لال صاحب پیچھے سے دوڑتے ہوئے پہنچے کہ مہاتما جی مولانا حفظ الرحمان صاحب کو یاد فرمارہے ہیں۔ جب مولانا موصوف مہاتما کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے، تو قرآن شریف مترجم، جو گاندھی جی کے مطالعہ میں تھا، مولانا حفظ الرحمان صاحب کو عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اس کو ساتھ لیتے جاؤ۔
اس واقعہ سے صرف چار گھنٹے بعد مہاتما گاندھی اس دار فانی سے رخصت ہوگئے، جس طرح وہ جملہ(آسمانی یا شیطانی حادثہ……) حیرت انگیز ہے، اسی طرح یہ فعل بھی تعجب خیز ہے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ 6/ فروری 1948)
گاندھی جی کی موت
21/ جنوری 1948کو باقاعدہ ایک جلسہ میں گاندھی جی کی برت کشائی کی گئی۔لیکن اس کے ۸ دن بعد 30جنوری 1948کو برلا ہاوس میں ناتھو رام گوڈسے نامی شخص نے گولی مارکر آپ کوقتل کردیا۔”پانچ بجے کے بعد حسب معمول گاندھی جی اپنے عبادتی جلسے میں جانے کے لیے کوٹھی سے نکلے، راستہ طے کیا۔ پھر چبوترے پر چڑھ کر اپنے تخت کی طرف جارہے تھے کہ حاضرین کی دو رویہ صف میں سے ایک نوجوان نکل کے سامنے آیا، دونوں ہاتھوں سے ڈنڈوت کیا، پھر چرن لینے کے لیے جھکا، جھکتے ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر بھرے ہوئے ریوالور کو سنبھالا اور سیدھا ہوا، تو دفعۃ فائر شروع کردیے۔ پہلی گولی نے سینے کی ہڈی توڑ دی، دوسری اور تیسری گولی پیٹ کو پار کرگئی۔ گاندھی جی زمین پر گر پڑے۔ چند منٹ بعد قفس عنصری سے روح پرواز کرگئی۔قاتل گرفتار کرلیا گیا۔ قاتل نے اپنا نام ناتھو رام بتایا، ضلع پونہ کا رہنے والا اور پونہ ہندو مہا سبھا کا عہد ہ دار۔“ (شیخ الاسلامؒ کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/630)
جمعیۃ کا اظہار افسوس
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کی تاریخ پہلے سے طے تھی، لیکن گاندھی جی کے حادثہ قتل کی وجہ سے یکم فروری تک ملتوی کردی گئی۔ یکم فروری کو مجلس عاملہ نے اپنی پہلی تجویز میں گاندھی جی کے حادثہ قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔ بعد ازاں 20-21مارچ 1948کو منعقد مجلس عاملہ میں اور پھر 26-27/ اپریل 1948کو منعقد پندرھویں اجلاس عام میں بھی اس تجویز کو دوہرایا۔ تجویز کا متن درج ذیل ہے:
”مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس مہاتما گاندھی کے دردانگیز حادثہ قتل پر اپنے انتہائی غم و اندوہ کا اظہار کرتا ہے۔آپ نے تحریک آزادی کے لیے صداقت، صبر، ضبط وتحمل، پرامن سول نافرمانی اور عدم تشددکے بہترین اصول کے ذریعہ ایثار و خلوص کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہوکر تحریک آزادی کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا۔آپ جمہوریت، مساوات اور ہندو مسلم اتحاد کے پرخلوص حامی تھے۔ آپ نے ان بلند مقاصد کے لیے بارہا جان کی بازی لگائی۔ اور انھیں مقاصد کی خاطر اپنی جان عزیز کوقربان دی۔
مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس آپ کی عظیم الشان بے نظیر تاریخی خدمات کا اعتراف کرتا ہے اور آپ کو پورے ہندستان کا بہت بڑا محسن تصور کرتا ہے۔ اور تمام جمہوریت پسند آزادی اور ترقی کے حامی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کرکے اس نازک ترین مسئلہ پر پوری سرگرمی اور اتحاد عمل کے ساتھ ہندستان کی صحیح جمہوریت اور ترقی کی منزل مقصود تک پہنچائیں اور جان کی بازی لگاکر مہاتما گاندھی کے مقاصد کو کامیاب کریں۔“
گاندھی جی کے حادثہ قتل پر اکابرین جمعیۃ کا اظہار رنج
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ صاحب کا پیغام:”گاندھی جی کے غم ناک حادثہ کی ناگہانی خبر وحشت اثر نے جو دل و دماغ پر تباہ کن کیفیت پیدا کی ہے، وہ حدود تحریر و تقریر سے باہر ہے؛ کیوں کہ یہ سانحہ معمولی سانحہ نہیں ہے اور نہ صرف ہندستان سے تعلق رکھتا ہے؛ بلکہ ایک نمونہ قیامت ہے، جس کا تمام انسانی دنیا سے تعلق ہے اور جو کہ تمام عالم کے امن و امان کو بھسم کرنے والا ہے، جس شخص کی بد باطنی اور جس پارٹی کی ناپاک سازش اس میں کام کرنے والی ہے، وہ دھرم اور مذہب کے بھی دشمن ہیں او رعقل و انسانیت اور دیس و ملک کے بھی۔یقینا ایسے عظیم الشان مصائب کے وقت میں فطری طور پر شدت رنج و الم کی وجہ سے دل اور دماغ؛ بلکہ اعضا و جوارح بیکار اور معطل ہوجاتے ہیں؛ مگر میں اپنے تمام ہندستانی بھائیوں اور بالخصوص قومی لوگوں سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھیں اور صبر واستقلال کو ہرگز ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دیں؛ بلکہ مہاتما جی کی تعلیمات اور اصولوں پر بہ نسبت پہلے کے بہت قوت کے ساتھ عمل پیرا ہوکر مہاتما جی کو اور تمام ملک کو زندہ کردیں اور گوشہ گوشہ میں امن و صلح کا پیغام قول وعمل کے ذریعہ پہنچادیں، جس کی خاطر گاندھی جی نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔“(روزنامہ الجمعیۃ، 31/ جنوری 1948)
جمعیۃ کا یوم ماتم کا اعلان
”دہلی۔ 5فروری۔ مولانا حفظ الرحمان ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند نے حسب ذیل اپیل جاری کی ہے۔مہاتما گاندھی جی نے کم و بیش چالیس سال متواتر جس طرح وطن عزیز کی خدمت انجام دی، وہ ملک اور باشندگان ملک کے حق میں احسانات کا ایک گراں قدر سلسلہ ہے۔ ہندستان کا کوئی بھی متنفس ان احسانات سے مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے انھیں احسانات اور ہر مذہب اور ہر فرقہ کے لیے مساویانہ اور مخلصانہ خدمات نے آپ کو پورے ہندستان کا محبوب اور واجب الاحترام رہنما بنادیا تھا۔بدنصیبی سے آج وہ دن ہے کہ ہم آپ کے المناک حادثہ وفات پر ماتم کر رہے ہیں۔ مسلمانان ہندستان کو جو تعلق مہاتماگاندھی کے ساتھ رہا ہے، اس کے مظاہرہ کے لیے تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ 13/ فروری کو یوم ماتم منائیں۔تمام ماتحت جمعیتوں اور تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں اس یوم کا پوری طرح اہتمام کریں۔
یوم ماتم کا پروگرام یہ ہوگا: 13فروری (1948) کو جمعہ کی نماز کے بعد کسی کھلے میدان میں پبلک میٹنگ کی جائے۔ اس جلسہ عام میں مہاتما گاندھی کے حالات زندگی، آپ کے اصول کار اور ہندو مسلم اتحاد کے عظیم الشان مقصد پر تقریریں کی جائیں، جس کے لیے مہاتما گاندھی نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ اور عہد کیا جائے کہ مہاتما جی کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ملک کی آزادی کو برقرار رکھیں گے۔ اس میں جمہوریت اور مساوات کا صحیح نقشہ قائم کرکے ترقی کی بلند ترین سطح پر پہنچائیں گے۔
تقریروں کے بعد تمام حاضرین کھڑے ہوکر مہاتما جی کے احترام میں دو منٹ کے وقفہ کے لیے خاموشی اختیار کریں۔“ (روزنامہ الجمعیۃ8؍ فروری 1948)
مولانا محمو داسعد مدنی صاحب صدر جمعیۃ علماء ہند گاندھی جی کو بھارت کا تھامس کارلائل (Thomas Carlyle)مانتے ہیں۔مولانا مدنی صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
Gandhiji was, in many ways. the Indian equivalent of Thomas Carlyle who shook the prejudicial attitude of Jews and Christians towards Islam and Muslims through his 1840 lecture titled“The Hero as Prophet”, where he showered praise on Islam and called the Prophet genuine, compassionate and humane. It was Gandhiji’s commitment to communal harmony that led him to engage with great freedom fighters like Maulana Mahmood Hasan and Maulana Husain Ahmed Madani, among many other stalwarts of the Jamiat Ulema-e-Hind.
ترجمہ: گاندھی جی، مختلف جہات سے، ہندستان کے تھامس کارلائل کے ہم پلہ تھے، جس نے اپنے 1840 کے لیکچر بعنوان’’The Hero as Prophet‘‘ میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں یہودیوں اور عیسائیوں کے متعصبانہ رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے اسلام کی تعریف کی اور پیغمبر اسلام ﷺ کو سچا، رحم دل اور کریم النفس قرار دیا۔ گاندھی جی کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نظریہ کی وجہ سے مولانا محمود حسنؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ اور جمعیت علمائے ہند کی دیگر بہت سی عظیم آزادی پسندشخصیات نے ان کاساتھ دیا۔
اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں کہ
Gandhiji’s ethical concepts and moral universe are capable of dealing with the violent sectarian politics that is being unleashed today.
ترجمہ: گاندھی جی کے اخلاقی تصورات اور مثالی کردار آج کل چل رہی پرتشدد فرقہ وارانہ سیاست سے نمٹنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔
مضمون کے آخری پیراگراف میں رقم طراز ہیں کہ
We must face this onslaught with the moral force Gandhiji employed throughout his political career. Our fight must remain, under all circumstances, non-violent.)The Indian Express, October 8, 2018, In Good Faith: Sarvodaya for polarised times. Written by Mahmood A. Madani.(
ترجمہ:ہمیں اس خطرناک حملے کا مقابلہ اخلاقی قوت کے ساتھ کرنا چاہیے جو گاندھی جی نے اپنے پورے سیاسی کیریئر میں استعمال کیا۔ ہماری لڑائی ہر حال میں تشدد سے پاک رہنی چاہیے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ بھارت کی آزادی کی تاریخ میں اور مذہب کی کثرت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے گاندھی جی کی زندگی، اخلاق اور نمایاں کردار قابل تقلید ہے۔ آج کچھ شدت پسند اور امن و آزادی کے دشمن لوگ گاندھی جی کو گالیاں دے رہے ہیں اور ان کے قاتل کو پرنام کر رہے ہیں، ایسا صرف دماغی خلل سے متاثر اور امن کے دشمن لوگ ہی کرسکتے ہیں۔