از عبدالحمید نعمانی
بھارت کے لوگوں میں کہانی بنانے کی بڑی صلاحیت و مہارت ہے، اس سلسلے میں عظیم اور معروف کرداروں اور شخصیات و اصطلاحات کا بڑی بے دردی سے اور غیر ذمہ دارانہ انداز میں استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس کی زد میں گاندھی جی بھی ہیں، جو بھی اجودھیا جاتا ہے یا کہیں اور موقع ملتا ہے تو سوچے سمجھے اور مطلب جانے بغیر رام راج کی باتیں کرکے عوام کو گمراہ کرنے اور فرقہ وارانہ ماحول بنانے کا کام کام کرتا ہے۔
گاندھی جی کے آئیڈیل اور مثالی سماج میں اول تو سلطنت کا وجود ہی نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے طاقت کا استعمال لازمی ہے، فوج، پولیس ہوگی اور یہ عدم تشدد کے اصول و عقیدہ کے خلاف ہے، لیکن تشدد سے پاک سماج کی تشکیل اور اس سطح تک سب لوگوں کو عملاً لانا ممکن نہیں ہے لہٰذا کسی نہ کسی درجے میں ریاست کی تشکیل اور کمزوروں، کو استحصال سے بچانے کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہے لیکن گاندھی جی کے نزدیک یہ حکومت فرقہ وارانہ، ہندو راشٹر کی شکل میں نہیں ہوگی بلکہ تمام مذاہب کے ساتھ یکساں احترام و انصاف کرنے والی سیکولر طرز کی ہوگی، آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد گاندھی جی کے متعلق ہندو مسلم فرقہ پرست عناصر نے بہت سی غلط باتوں کی تشہیر کر کے لوگوں کو بھرم میں ڈالنے کا کام کیا ہے، گاندھی جی نے صاف اور واضح الفاظ میں لکھا ہے:
’’میں تو ہندو راج کا خواب دیکھنا بھی حب وطن کے خلاف سمجھتا ہوں‘‘۔( ینگ انڈیا، بابت 18؍ستمبر 1924)
انہوں نے کانگریس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ’’ کانگریس ہندو ادارہ نہیں بن سکتی، جو لوگ ایسا بنائیں، وہ ہندوستان اور ہندو دھرم کے دشمن ہیں، ہم کروڑوں کی ایک قوم ہیں، ان کروڑوں کی آواز کسی نے نہیں سنی ہے، اس بات پر اصرار ہے تو شہروں کے چند خدائی فوجداروں کو ہو گا، ان لوگوں کی آواز کو ہندوستان کے کروڑوں دیہاتیوں کی آواز نہیں سمجھنا چاہیے، انڈین یونین کے مسلمانوں نے اپنے کو اجنبی اور غیر ملکی ظاہر نہیں کیا ہے، ہندوؤں کے بہت نقائص کے باوجود یہ دعویٰ تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ہندو دھرم کبھی ایسا نہیں تھا کہ دوسروں کو جدا کرتا ہو، کثیر التعداد لوگ جو دوسرے مذاہب سے واسطہ رکھتے ہیں، سب آپس میں مل کر ایک وحدت قائم کرتے ہیں ،یہ سب مساوی حق رکھتے ہیں کہ انھیں ہندوستان کا شہری سمجھا جائے، نام نہاد اکثریتی فرقے کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے کو دوسروں سے بالا دست بنائے، تعداد کی قوت یا تلوار کی قوت، حق کی قوت نہیں ہو سکتی۔‘‘ (ہریجن، بابت 10؍اگست، 1947 )
رام راجیہ کا مطلب گاندھی کے نزدیک وہ بالکل نہیں ہے جو عام معنی میں لیا اور سمجھا جاتا ہے بلکہ عدل و انصاف پر مبنی حکومت الہیہ ہے جیسا کہ انہوں نے خود تشریح کی ہے، گاندھی جی چوں کہ دشرتھ، کوشلیہ کے بیٹے رام چندر کی شخصیت کو تصوراتی مانتے ہیں ، (ہریجن، 27/7/1937) ایسی حالت میں عام معنی میں ہندو راج یا ہندو راشٹر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے، بلکہ ایک لا مرکزی قسم کی اصولی و اخلاقی طرز کی حکومت ہے، کبیر اور گاندھی جی ،رام کو عام معنی سے ہٹ کر خاص علامتی معنی میں لیتے ہیں، اس تناظر میں گاندھی جی کی اجتماعی زندگی کا نصب العین، ان کے نظریہ و اصول کے مطابق ستیہ اور اہنسا پر مبنی لا مرکزی سماج کا نظام حکومت ہی مراد ہو سکتی ہے۔
اگر گاندھی جی آزادی کے بعد زیادہ دنوں تک زندہ رہتے تو گمان غالب یہی ہے کہ وہ ملک اور ہندوستانی سماج کے سامنے ایک بہتر نمونے والی حکومت کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتے ،تاہم انہوں نے ملک کے آزاد ہوتے ہی ایک اہم امر کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے اور وہ ہے ، ہندوستان کو ہندو ملک بنانے کی تردید و تغلیط اور ہندو راشٹر کو گوارا نہ کرنا، انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے:
’’اگر اہل ملک قانون شکن بن کر آپس میں لڑیں گے تو وہ ثابت کر دیں گے کہ وہ آزادی کو ہضم کرنے کے قابل نہیں، اگر ایک ڈومینین، اپنی جگہ صحیح طریقہ کار اختیار کرے گی تو وہ دوسری کو بھی صحیح کرنے پر مجبور کر دے گی اور اسے پوری دنیا کی تائید حاصل ہو گی۔‘‘
’’بلا شبہ ہم یہ گوارا نہیں کریں گے کہ کانگریس کی تاریخ کو از سر نو لکھیں اور یونین کو ہندو ملک بنا دیں، جس میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو ،مجھے امید ہے کہ ہم اس طرح اپنے اصولوں کی خود ہی تردید نہ کریں گے‘‘(ہریجن، 5؍اکتوبر، 1947)
دو دن کے بعد ہی ہندو راج کی سمت میں بڑھنے کو بربادی بتاتے ہوئے کہا ،’’میں تو کبھی ہندو راج میں شریک نہیں ہو سکتا اور نہ سردار پٹیل ہو سکتے ہیں، جو مسلمان دوستوں کے مفاد کی تائید کرتے ہیں، میرے ہندو دھرم نے مجھے تمام مذاہب کا احترام کرنا سکھایا ہے، اگر پنڈت جواہر لعل نہرو اور سردار، ان جیسے خیالات رکھنے والے لوگ، عوام کے اعتماد سے محروم ہیں تو ان کی جگہ، کسی اور جماعت کو بر سر اقتدار کیا جائے لیکن میں یہ توقع نہیں کر سکتا نہ مجھے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ اپنے ضمیر کے خلاف عمل کریں گے اور سمجھیں گے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے، اس سمت میں بربادی ہے۔‘‘ (دہلی ڈائری، 7؍ اکتوبر، 1947′)
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)