مولانا عبدالحمید نعمانی
اگر جمہوریت اور سیکولرازم کے اصولی اجزاء و اعضاء کا مطالعہ کیا جائے تو آزاد بھارت کی قومی ریاست کی شکل، کچھ ترمیم و فرق کے ساتھ گاندھی جی کی نمائندہ حکومت سے مشابہت رکھتی ہے، یہ نقشہ قریب قریب دنیا کے مختلف ممالک، خصوصاً یورپ و مغرب میں رائج جمہوریتوں کا بھی ہے، گاندھی جی کے حوالے سے ایک فرق و ترمیم یہ ہے کہ ووٹ کا حق انھیں لوگوں کو ملے جو ہاتھ سے محنت کر کے ملک کی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں۔
مشاہدے کے حوالے سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت اور سیکولرازم کی اصولی تفصیلات و تعبیرات کو لے کر زیادہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ بے چینی اور احساس محرومی کا سوال برابر سامنے آتا رہتا ہے کہ عملاً اقلیتوں اور کمزوروں کے معاملے میں انصاف و آزادی کو بروئے کار نہیں لایا جاتا ہے۔ اس پر گاندھی جی نے مختلف مواقع و اوقات میں اپنے اختلافات درج کرائے ہیں، حقوق و اختیارات سے محرومی اور انصاف میں رکاوٹ، آزادی اور سوراج کے منافی ہے ایسی حالت میں جمہورعوام کی منتخب حکومت کا کوئی زیادہ معنی نہیں رہ جاتا ہے، اس کے متعلق گاندھی جی نے جس رائے کا اظہار کیا ہے اس سے فرقہ وارانہ راشٹر واد کی بھی پوری طرح تردید و تغلیط ہوجاتی ہے، وہ بغیر لاگ لپیٹ کے لکھتے ہیں۔
’’سوراج سے میری مراد ہے، ہندستان کی حکومت عوام کی مرضی سے ہو، جس کا اندازہ ان بالغ باشندوں کی بڑی سے بڑی تعداد سے کیا جائے، (خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، دیس میں پیدا ہوئے ہوں یا حقوق شہریت حاصل کرکے دیسی بن گئے ہوں) جنھوں نے ہاتھ کی محنت کے ذریعے، ریاست کی خدمت میں حصہ لیا ہو اور رائے دہندگان کی حیثیت سے اپنے نام رجسٹر میں درج کرانے کی زحمت اٹھائی ہے‘‘(ینگ انڈیا، 29/جنوری 1925)
گاندھی جی کے نزدیک قومی حکومت کے تصور میں بڑا توسع ہے، وہ فرقہ وارانہ محدود و منفی تصور قومیت کے قطعی خلاف تھے، ان کے تصور قومیت کے دائرے سے بین الاقوامییت باہر نہیں ہے، یہاں گاندھی جی، رابندر ناتھ ٹھاکر، ساتھ ہو جاتے ہیں،سو دیسی کے زبردست حامی ہونے کے باوجود، بین الاقوامی اتحاد اور تعاون کے بڑے داعی و حامی کے روپ میں سامنے آتے ہیں، گاندھی جی بین الاقوامی اتحاد و تعاون اور ترقی پسند قوموں کو دوست بنانے کے لیے اپنے اقتدار اعلی کے ایک حصے کی قربانی و دست برداری کے لیے بھی تیار تھے، یہ ایک عالمی وفاقی حکومت میں شرکت کے لیے کوئی بڑی قیمت نہیں ہے بلکہ اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہونے کی بڑی توقع ہے، ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا:
’’اس زمانے میں جب کہ آمد و رفت اور مراسلت، اس قدر تیزی سے ہونے لگی ہے اور نوع انسانی کا شور اس قدر زیادہ ہو گیا ہے کہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہماری قومیت کو بین الاقوامییت کے منافی نہیں ہونا چاہیے، ہندستان کے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ سب سے الگ تھلگ رہے اور جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اس سے متاثر نہ ہو، لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ دنیا کی ترقی پسند قوموں کا ساتھ دیں۔‘‘
بلکہ ایک دوسرے کی دوست اور ایک دوسرے کی پابند ریاستوں کا ایک وفاق چاہتا ہے، ممکن ہے کہ وہ دن دور ہو، جب یہ امر وقوع میں آئے ہیں، اپنے ملک کی طرف سے کوئی بہت بڑا دعویٰ نہیں کرنا چاہتا لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مطلق خود مختاری کے بجائے قوموں کی باہمی پابندی کا اصول ماننے کو تیار ہیں۔
تو مجھے یہ کوئی بہت بڑی یا ناممکن بات معلوم نہیں ہوتی، میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم میں یہ قابلیت ہو کہ خود مختار ہو سکیں لیکن ہم خود مختاری نہ برتیں،( ینگ انڈیا ،26 /ستمبر 1924 ء)
گاندھی جی تعلقات و قربانی کا بڑا وسیع تصور رکھتے تھے، اس تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات سے آگے جا کر اپنے وسائل کو دنیا کی بھلائی میں لگانے اور ضرورت پڑنے پر خود کو نوع انسانی کی خاطر وقف و فنا کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
( غیر مطبوعہ کتاب گاندھی اور گاندھی واد سے ماخوز)