اے رحمان
جمہوریت کو ـ’’عوام کی حکومت،عوام کے ذریعے،عوام کے لئے‘‘ کہا جاتا ہے ،اور یہی جمہوریت کی موزوں ترین تعریف سمجھی گئی ہے۔آئینِ ہند میں عوام کو طاقت کا سرچشمہ اور اقتدار و اختیار کا اصل منبع گردانا گیا ہے لہذٰا صدر جمہوریہ اور وزیرِ اعظم ریاست یعنی عوام کے تنخواہ کیش ہی نہیں،تمام ارکانِ حکومت عوامی خدّام (public servants ) تصوّر کئے جاتے ہیں۔عوام کی رائے اور مرضی حرفِ آخر ہے اور ان کی فلاح و بہبود اربابِ اقتدار کا فرضِ اولّیں۔عوام کو آئین یہ حق دیتا ہے کہ وہ نہ صرف حکومت کے اعمال و افعال،پالیسیوں،کار کردگی اور معاملات پر کڑی نظر رکھیں بلکہ ان سب چیزوں کے سلسلے میں حکومت سے جب چاہیں توضیح و جواز طلب کر سکیں۔بالفاظِ دیگر حکومت سے ہر قسم کی جواب طلبی عوام کا بنیادی جمہوری حق ہے اور عوام کو ہر قسم کی جوابدہی حکومت کا بنیادی فرض جو آئین کے ذریعے اس پر عائد کیا گیا ہے۔اس روشنی میں موجودہ سیاسی منظر نامہ اور حکومتی رویّہ ایک نہایت تکلیف دہ اور غیر جمہوری صورتِ حال کی غمازی کرتا ہے۔
تقریباً دو سو سال قبل لارڈ ایکٹن نے کہا تھا power tends to corrupt, and absolute power corrupts absolutely یعنی اقتدار بدعنوان (بے ایمان) کرتا ہے اور مطلق اقتدار مطلقاً بد عنوان کر دیتا ہے۔۲۰۱۴ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بڑی اکثریت سے کامیابی حاصل کر کے حکومت قائم کی تھی اور پانچ سال تک سرورِاقتدار سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ہٹ دھرمی سے ہندو راشٹر کا ناقوس پھونکا اور مسلم دشمنی نیز فرقہ وارانہ منافرت کا زہر پھیلا کر ملک کے مثالی تکثیری معاشرے کوآلودہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، لیکن ۲۰۱۹ میں جب پہلے سے بھی زیادہ یعنی ’’وحشیانہ اکثریت‘‘ (brute majority ) سے زمامِ کارہاتھ آئی تو حکومت کا کردار بھی وحشیانہ ہو گیا اور کبھی بے لگام منہ زور گھوڑے ،کبھی بے مہار اونٹ اور کبھی بپھرے ہوئے سانڈ کی مانندعوام کے آئینی حقوق کو بے شرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کرنا اس نے اپنا شعار بنا لیا۔پچھلے دو سال میں دیگر سیاسی بدعنوانیوں سے قطع نظر ،کووڈ ۱۹ کی عالمی وبا کے تئیں بے اعتنائی،غفلت ،بد عملی اورغیر ممالک کو اپنی ویکسین اور آکسیجن فراہم کرنے جیسے بے دماغی سے کئے گئے ظالمانہ اور عوام دشمن فیصلوں نے اربابِ حکومت اورخصوصاً ہمارے نرگسیت زدہ وزیرِ اعظم کا بسنتی چولا بھی اتار کر اس خالصتاً آمرانہ اور فاشسٹ ذہنیت کو اجاگر کر دیا ہے جو وکاس،آتم نربھرتا،میک ان انڈیا اور وشو گورو ئیت جیسے کھوکھلے ،جھوٹے اور گمراہ کن نعروں کے پسِ پشت کارفرما ہے۔رہی بات ہندو راشٹر اور ہندوؤں سے ہمدردی کی تو کووڈ سے مرنے والے ہزاروں ہندوؤں کی لاشیں چتا کے لئے لکڑی نہ مل پانے کے سبب گنگا میں بہا دی گئیں یا دریا کنارے کی ریت میں دفن کر دی گئیں (جو برسات کے موسم میں جل تھل ہوتے ہی اوپر آ جائیں گی اور کئی نئی وباؤں کا موجب ہوں گی) لیکن حکومت کی جانب سے ردِ عمل یا ہمدردی کا اظہار ہونا تو کجا ان خبروں کو ہی گمراہ کن اور مبالغہ آمیز قرار دے کر معاملے سے پہلو تہی کر لی گئی۔ہندو حضرات بشمول مودی بھکت خود چیخ چیخ کر سوشل میڈیا پر سوال کر رہے ہیں کہ یہ حکومت کون سے ہندوؤں کی حفاظت کی بات کرتی ہے۔یو پی کے وزیرِاعلیٰ نے تو ان افراد کے خلاف فوجداری مقدمے قائم کرنے کے احکامات جاری کر دیئے جو طبی سہولیات اور آکسیجن کی کمی یا نافراہمی کی عوامی سطح پر شکایت کریں۔اس کو شقی القلبی اور شدّادیت کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔عالمی وبا کے سلسلے میں حکومتِ ہند کی عموماً اور وزیرِ اعظم مودی کی خصوصی طور سے نام لے کر دنیا بھر میں مذمّت کی گئی اور کی جا رہی ہے۔سربراہِ مملکت کی مذمّت پورے ملک اور اس کے عوام کی مذمّت ہی سمجھی جانی چاہیئے۔لیکن بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی وبا سے بخوبی اور موثر طور پرنپٹنے کے لئے قومی سطح پر کوئی پالیسی وضع نہیں کی گئی۔اور سرکشی کی انتہا یہ کہ سپریم کورٹ کے ذریعے بعض سوالات قائم کرنے اور وضاحتیں طلب کرنے کے جواب میں عدالت کوتقریباً ڈانٹتے ہوئے کہہ دیا گیا کہ ہماری عقل و دانش پر بھروسہ رکھا جائے۔ہم جو کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں۔
اب بات کی جائے عوام کے حقِ جواب طلبی اور حکومت کے فرض ِجوابدہی کی۔شہنشاہیت اور آمریت میں بہت سے مماثلات ہیں جن میں ایک اہم مماثل یہ ہے کہ دونوں کے کسی قول و فعل کی تنقیص نہیں کی جا سکتی نہ ہی کسی فرمان کی توجیہ طلب کی جا سکتی ہے۔دس بارہ روز قبل دلّی میں بعض دیواروں پر کچھ پوسٹر نظر آئے جن میں وزیرِ اعظم کو مخاطب کر کے پوچھا گیا تھا ’’ مودی جی ہمارے بچوں کی ویکسین وِدیش کیوں بھیج دی گئی‘‘ ۔اطلاع ملتے ہی جلالِ شاہی ابل پڑا اور پولیس نے محض فوری کاروائی جتانے کی غرض سے پچیس افراد کو دیواریں خراب کرنے،سرکاری حکّام کی حکم عدولی اوراسی قبیل کے بعض قوانین کے طور پر گرفتار کر لیا۔گرفتار شدگان میں سبھی نچلے طبقے سے متعلق یعنی روزینہ مزدور،معمولی خوانچہ فروش اور رکشا کشاں قسم کے غریب لوگ تھے۔(اس نوع کی کاروائیاں عبرت آموزی کے واسطے کی جاتی ہیں)۔یاد رہے کہ کئی مرتبہ بی جے پی کارکنان نے بھی اس قسم کی پوسٹر بازی کی ہے لیکن کبھی کوئی قانونی کاروائی نہیں کی گئی۔
عالمی وبا سے پیدا شدہ صورتِ حال اور حکومت کی بے حسی عوام کی برداشت سے باہر ہو چکی ہے اور اب چاروں سمت سے صدائے احتجاج بلند کی جا رہی ہے۔لیکن ہمارا قومی یعنی mainstream میڈیا تو حکومت کا زر خرید کفش بردار ہے لہذٰا لوگ سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہیںجو اب فیس بک،ٹویٹر اور وہاٹس ایپ جیسے دور رس،دور رسا اور وسیع الحدود وسائل ابلاغ کا حامل ہے۔یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اب ان ذرائع کی رسائی اور قوت اخبارات اور ٹی وی چینلزسے بھی متجاوز ہو چکی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت اب ان کی ناک میں بھی نکیل ڈال کر انہیں قابو کرنے کی جستجو میں ہے۔فیس بک اور ٹویٹر کو تو نوٹس دیئے ہی جا چکے تھے اب حال ہی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون کے تحت رہنما اصول مرتّب کرنے کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ اصول یا حکم جاری کیا گیا کہ حکومت کسی بھی وہاٹس ایپ پیغام کا بنیادی ماخذ معلوم کرنے کا اختیار رکھتی ہے (اگر کوئی پیغام بار بار آگے بھیجا یعنیforward کیا جائے تو صرف وہاٹس ایپ کے منتظمین ہی جانتے اور بتا سکتے ہیں کہ اس پیغام کی ابتدا کہاں اور کس کے ذریعے ہوئی) ۔یہ تو اب ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نہ تو اپنے کسی قول و عمل کے لئے جوابدہی ضروری سمجھتی ہے نہ اپنی کسی غلطی یا غفلت پر تنقید اور اس کے خلاف احتجاج۔ معمولی سی صدائے احتجاج بلند کرنے پر ہزاروں افراد گرفتار ہو کر اس وقت ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں،اور وہ بھی زیادہ تر ملک دشمنی اور غدّاری کے الزامات کے تحت۔وہاٹس ایپ نے مذکورہ قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف دلّی ہائی کورٹ میں اس بنیاد پر عذرداری داخل کی ہے کہ یہ قانون نہ صرف حق،تحریر و تقریر بلکہ حقِ حفاظتِ ذاتیات(Right to Privacy )کی پامالی کرتا ہے۔اور اس خبر کو کئی انگریزی اخبارات نے جلی سرخیوں میں شائع کیا ہے۔ہندوستانی عوام اس وقت سخت غم و غصّے کی کیفیت میں ہیں اور حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر کئے جا رہے سوالات اور احتجاج کو کچلنے کے لئے کی جا رہی کوشش اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔لیکن عوام کا اتنا شدید غصّہ اور احتجاج ہمیشہ حکومتِ وقت کے ادبار کی پیشگوئی ہوتا ہے۔اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اگلا انقلاب سوشل میڈیا کا ہی مرہونِ منت ہو گا۔