خالد انور پورنوی المظاہری
یہ خبر بجلی بن کر گری کہ آج امارت شرعیہ پھلواری شریف،پٹنہ کے امیر شریعت،خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں ،مفکراسلام کے خطاب سے مشہور،اسم بامسمیٰ حضرت مولاناسید محمدولی رحمانی اس دنیائے فانی سے رحلت فرماگئے،اناللہ واناالیہ راجعون،اس طرح آج بہارایک بار پھر یتیم ہوگیا۔
دینی ،دنیاوی،سیاسی ،سماجی ،بلکہ ہراعتبارسے ولی کامل ،آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے بانی مولانامنت اللہ رحمانیؒ کے صاحبزادہ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانی مولانامحمدعلی مونگیر کے پوتاہونے کا انہیں شرف حاصل تھا،اسی لئے ذہن ومزاج کے اعتبارسے بھی باپ ،داداہی کے نقش قدم پر بہت تیزی سے آگے بڑھے،قیادت تو انہیں ورثہ میں ملی تھی،مگراپنی بے باک تحریروتقریر اور محنت وجدوجہد،سعی پیہم اور عمل مستحکم کے ذریعہ قائدانہ صلاحیت میں جو عروج حاصل کیا رہتی دنیاانہیں یادکرے گی۔
خانقاہ رحمانی مونگیرکے سجادہ نشیں ہونے کے باوجود ہم نے انہیں گوشہ نشیں نہیں دیکھا، بلکہ دین کے ساتھ دنیوی اعتبارسے ہندوستانی مسلمان کس طرح آگے بڑھیں؟وہ ہمیشہ اسی سوچ وفکر میںلائحہ عمل تیارکرنے میں مصروف وسرگرداں نظر آئے، ریٹائرڈ ڈی آئی جی ابھیانند کے ذریعہ رحمانی 30قائم کرکے آئی آئی ٹی، میڈیکل، سائنس اور وکالت کے اہم میدانوں میں مسلم اور غریب نوجوانوں کے لئے انہوں نے جومواقع فراہم کئےوہ تاریخ کے سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔امارت شرعیہ پھلواری شریف ،پٹنہ کے امیر شریعت بنتے ہی امارت شرعیہ کے زیر اہتمام بہارکے کونے کونے میں اسکولس کے قیام کی۔ انہوں نے مہم چلائی، میڈیکل کالج کے قیام کا اعلان کیا، عصری تعلیم سے آراستہ ہوکر مسلم نوجوان کس طرح قائدانہ رول اداکریں ؟اس کے لئے ہمہ تن مصروف تھے کہ داعی اجل کی آواز پر انہوں نے لبیک کہااور اس دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے ۔
حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی بیک وقت آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے سکریٹری ، آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈکی تحریک اصلاح معاشرہ کے کنوینر،رحمانی 30کے بانی ،انجمن حمایت اسلام کے صدرنشیں،آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر،ندوۃ العلماء لکھنؤکے انتظامی رکن،علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کورٹ کے ممبر،گورنمنٹ آف انڈیاکی اسٹینڈنگ کمیٹی، مانیریٹنگ کمیٹی اور سینٹرل وقف کونسل کے ممبر،مولاناآزادفائونڈیشن کے وائس چیئرمین کے علاوہ جامعہ خانقاہ رحمانی مونگیر کے روح رواں،سجادہ نشین اور مختلف دینی، ملی،تنظیموں کے سربراہ اور ہندوستان کے باکمال جلیل القدرعلماء وصوفیاء میں سے تھے ،آپ کے حلقہ ارادت سےتقریباًدس لاکھ افراد وابستہ ہیں،مگر اس کے باوجود ایک امیرشریعت کی حیثیت سے بہت ہی کم وقت میں امارت شرعیہ کی تعمیروتوسیع میں جو اہم کردار انہوں نے پیش کیا ، اس کا مکمل اجر رب کےیہاں انہیں ضرورملے گا،ان شاء اللہ
عمر کے 70ویں سال میں بھی قوم وملت کے کام کے تئیں ہم نے انہیںجواں اور بہت ہی پرعزم دیکھا،قوت ارادی ان کی ایک خاص صفت تھی اور جدھر گئے ہواکا رخ انہوں نے موڑ دیا۔گاندھی میدان میں ’دین بچائو،دیش بچائو‘کانفرنس کے نام سے پہلی بار اتنی بڑی بھیڑ دیکھی گئی،جو بات سچ ہو ،منہ پر کہتے، مدمقابل کوئی بھی ہو وہ نہیں دیکھتے تھے،مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کی تقریب صد سالہ میں وزیر اعلیٰ حکومت بہار نتیش کمار کی موجود گی میں جس صاف گوئی کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق وتحفظ کی آواز بلندکی تھی اور اپنی تقریر کے ذریعہ مسلمانوں کے مسائل کو جس انداز سے پیش کیاتھااس کا پورانقشہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
دارالعلوم دیوبند ،ندوۃ العلماء لکھنؤسے فراغت کے بعد یونیورسٹی سے بھی عصری علوم کی ڈگریاں انہوں نے حاصل کیں تھیں،1974سے 1996تک بہار قانون ساز کونسل کے وہ رکن بھی رہے اوردوبار ڈپٹی چیئرمین بھی بنائے گئے ۔قانون ساز کونسل میں رہ کرقوم وملت کے لئے اپنی نمایاں خدمات انجام دیں۔مظلوموں اور محروموں کے مسائل کو حل کرنے میں نہ صرف دلچسپی دکھائی بلکہ عملاًمتحرک رہے،شاید اسی لئے آپ کی عوامی مقبولیت اور تعلیمی وتنظیمی خدمات کے پیش نظر2005میں کئی پارٹیوں نے مسلم وزیر اعلیٰ کے طورپران کا نام پیش کیا۔2010میں بھی یہ آواز سنی گئی،گرچہ آپ نے اس عہدہ پر عدم دلچسپی کا اظہار فرمایااور اخبار ی بیان کے ذریعہ اس کی تردید فرمادی تھی۔ اپنی فقیری میں شہنشاہی کو انہوں نے ترجیح دی تھی!
حضرت مولانامحمدولی رحمانی ؒ جس طرح بولنے میں صاف گو تھے،اپنی تحریر میں بھی ویسے ہی تھے۔جو بھی لکھتے ،غضب کا لکھتے ،نہایت ہی سادہ ،عام فہم لیکن بامقصد اورباسلیقہ، اندازبالکل الگ ہوتا،ایک ایک لفظ میںفکر سمائی رہتی وہ خود بھی تحریکی مزاج کے آدمی تھےاور لکھتے بھی تھے اسی مزاج پر۔فراغت کے بعد خانقاہ رحمانی مونگیر میں حدیث کی کتابیں پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہفت روزہ نقیب کی ادارت کی ذمہ داری بھی آپ نے نبھائی تھی اور صحافتی معیار اور وقار کو بلند کرنے میںا ہم رول اداکیاتھا۔پٹنہ سے روزنامہ ایثاربھی آپ نے نکالااور قوم وملت کے مسائل کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے رہے،اس سے ایثار کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا،مگرناگزیر وجوہات کی بناء پر چند مہینے میں ایثار بند ہوگیا،مگر جذبہ ایثار آپ کے اندربدرجہ اتم اس وقت بھی موجود رہا، اس لئے پانچویں اور چھٹے امیر شریعت کے انتخاب میں ہزارہا عقیدت مندوں کے اصرارکے باوجود آپ نے انکار کردیااور متفقہ امیر شریعت کے انتخاب کاآپ حصہ بنے۔
قوم وملت سے آپ کا گہرارشتہ رہا،ان کے مسائل سے باخبر رہتے اوراسے حل کرنے کے لئے زوردارتحریک چھیڑنے کا ہنربھی جانتے تھے،1992میں سرحدی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی کے نام ملک بدرکیاجانے لگا،تو آپ نے ارریہ کی سرزمین میں تحفظ شہریت کانفرنس کا انعقاد کرکے بنگلہ دیشی کے نام پرملک بدرکی سازش کو ناکام بنادیا۔2002میں تحفظ مدارس کی تحریک چلائی اور مسلم پرسنل لا ءبورڈکے پلیٹ فارم سے اوقاف کے تحفظ ،عورتوں کے حقوق کا تحفظ ،آرٹی ای ایکٹ اور انکم ٹیکس کے نئے خطرناک قوانین اور تین طلاق بل کے خلاف تحریک آپ کی زندگی کی روشن خدمات ہیں۔
ان تمام ذمہ داریوں کے باوجود درجنوں کتابیں آپ نے لکھی ہیں، کئی قومی ایوارڈ سے بھی آپ کو نوازاجاچکاہے،کولمبیایونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا،مگر چھوٹوں پر شفیق اورانہیں آگے بڑھانے کا جذبہ ان میں خوب دیکھا گیا۔