تحریر:ڈاکٹر ادت راج
بابری مسجد کیس کے حل کے بعد محسوس ہوا کہ اب وکاس کی سیاست ہوگی۔ ملک کے لوگ بھی ہندو مسلم جھنجھٹ سے تنگ آچکے تھے۔ اسی وجہ سے سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا اسے تسلیم کیا گیا اور کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ مسلم فریق نے خاموشی منظوری دیتے ہوئے خاموشی اختیار کر لی اور سوچا کہ ڈپریشن سے نکلنا ہی مناسب ہے۔ پولرائزیشن کا فائدہ حاصل کرنے والے کہاں رکنے والے تھے؟ کبھی گائے، کبھی روہنگیا مسلمان، کبھی CAA-NRC، اس طرح فرقہ پرستی بڑھتی ہی چلی گئی۔
توقع تھی کہ ملک کے عوام مناسب جواب دیں گے، لیکن وہ بھی نہ ہوسکا۔ جنہوں نے ترقی، ہم آہنگی اور امن کی بات کرنے والوں کو ملک دشمن کہنا شروع کر دیا۔ عام ہندو خاموش رہا۔ انضمام بڑھتا جا رہا ہے اور کہاں اور کب رکے گا، کچھ کہنا مشکل ہو گیا ہے۔
گیان واپی مسجد کا سروے کرنے کا نچلی عدالت کاحکم ایک بڑا جھٹکا تھا۔ عدالت کے پاس آئینی اختیارات نہیں تھے لیکن جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا دور چل رہا ہے۔ عبادت گاہ ایکٹ 1991 لایا گیا تھا، جس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ 1947 سے پہلے تعمیر کردہ عبادت گاہوں کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، یعنی ایسے معاملات میں جمود برقرار رہے گا۔
سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے فیصلے میں بھی یہی موقف رکھا۔ گیان واپی تنازع جس طرح سے کھڑا ہوا ہے، اس طرح کے معاملات کا کوئی خاتمہ نہیں ہے۔ اس طرح ملک میں ڈیڑھ سو سال تک طوفان برپا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کا کیا بنے گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
پہلے سماج ذات پات کی بنیاد پر اس قدر بٹا ہوا تھا کہ تحفظ کی ذمہ داری ایک خاص ذات پر تھی اور باقی سب تماشائی بنے ہوئے تھے۔ معاشرے، ذات پات یا مذہب کی بنیاد پر بٹے ہوئے لوگوں کی وجہ سے ہم دوسروں کو حملے کا موقع دیتے رہے اور ہم غلام بن گئے۔ موجودہ دور میں مالی طور پر کمزور ہونا ایک طرح کی غلامی ہے۔ ہماری معیشت 2.5 ٹریلین ڈالر کی ہے جس میں 1 کھرب 30 لاکھ کا غیر ملکی قرضہ ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقتصادی اور اسٹریٹجک بحران
ملک معاشی طور پر کمزور ہو چکا ہے۔ چین مقبوضہ لداخ اور اروناچل میں بیٹھا ہے لیکن اس کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں، اسے ہٹانےکی بات تو دور۔ جو لوگ انجان اور ناسمجھ مسلمانوں کو ہراساں کرنے یا بائیکاٹ کرنے پر خوش ہیں، وہ یہ نہیں سمجھ پا رہےہیں کہ وہ خود اپنا نقصان کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ متنازع مقدمات کو کہاں تک اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ آج بدھ مت کے ماننے والے کم ہیں اور کل حالات بدلیں گے تو وہ یہ بھی مطالبہ کریں گے کہ بدھ مت کی ہزاروں خانقاہیں جو پشیامتر شونگا نے بنائی تھیں اور مندروں کو کھود کر بدھوں کے حوالے کیا جائے۔ ایسے مطالبات بھی اٹھنے لگے ہیں۔ مشہور مؤرخ ڈی این جھا کا کہنا ہے کہ چینی سیاح ہیوین سانگ نے لکھا ہے کہ شیو بھکت میہرکل نے 1,600 بدھ اسٹوپوں اور وہاروں کو تباہ کیا اور ہزاروں بدھوں کو ہلاک کردیا۔
کیا بدھ مت کے پیروکاروں کو وہی کرنا چاہیے جو گیان واپی مسجد کے ساتھ ہو رہا ہے؟ کیا اس کی کوئی انتہا ہے؟ سوامی وویکانند اور بنکم چندر چٹرجی دونوں نے کہا کہ جگناتھ مندر پہلے بدھ مندر تھا۔ کیا ان کا سروے نہیں ہونا چاہیے؟ کیا ایسے تنازعات کی کوئی انتہا ہے؟
پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے ناگاساکی اور ہیروسیما پر ایٹم بم گرائے، کیا کسی نے جاپان کو امریکہ پر لعنت بھیجتے سنا؟ ان کا وژن مستقبل کی تشکیل میں ہے، نفرت پھیلا کر ووٹ حاصل کرنے میں نہیں۔ تقریباً 3 ہزار سال کی تاریخ ہمارے سامنے ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک پر حملہ ہوا اور ایک بار بھی ہم جیت نہیں سکے، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ معاشرہ ذات پات میں بٹ گیا۔ کیا کوئی ذات ملک کی حفاظت کر سکتی ہے؟ آج بھی ہم ذات پات کی بنیاد پر بٹے ہوئے ہیں اور اگر مذہب کے نام پر ایک اور بڑا خلا وسیع ہوا تو آنے والی نسل یقیناً اس کی قیمت ادا کرے گی۔
قطب مینار کی تعمیر میں مندر کی مورتی اور آثار کا مواد استعمال کیا گیا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں مشینیں نہیں تھیں اور سامان کی پیداوار بہت کم تھی۔ تو ایسی صورت حال میں پرانا مواد استعمال کیا گیا۔ بہت سے مندر ایسے ہیں جن میں بدھ مت، جین مت اور اسلام کے آثار پائے جاتے ہیں، تو کیا ان سب کو گرا دیا جائے؟ اگر یہ شروع ہوتا ہے تو یہ سب سے بڑی صنعت ہوگی اور سیمنٹ، کپڑا، لوہا وغیرہ کی تیاری پیچھے رہ جائے گی۔
اقتدار کے بجائے اپوزیشن سے سوال
آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہاں غلط ہوا لیکن اپوزیشن میں کون ہے؟ لوگ اپوزیشن سے بھی پوچھتے ہیں کہ وہ کچھ کیوں نہیں کرتے؟ راہل گاندھی کا نام متبادل کے طور پر بحث ہوتی ہے لیکن اگر مگر کے ساتھ ۔
آر ایس ایس اور بی جے پی نے امیج کو خراب کیا ہے، لیکن سوچنا چاہیے کہ راہل گاندھی نے آج تک جو کچھ کہا اس میں کیا کمی ہے؟ انہوں نے کہا کہ کورونا کا سونامی آئے گا، ان کا مذاق اڑایا گیا۔ نمستے ٹرمپ اور مدھیہ پردیش میں حکومت بنانے کے لیے لاک ڈاؤن پہلے نہیں بلکہ اچانک کیا گیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ اگر کووڈ سے لڑنے کے لیے ٹیسٹنگ بڑھائی جائے تو اس کی بھی مخالفت ہوئی ۔
معیشت تباہ نہ ہونے کے لیے لوگوں کو نقد رقم دینے کا مشورہ دیا گیا، لیکن وہ بھی نہیں ہوا۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ تازہ ترین مثال سری لنکا کی ہے۔ ہم ایک شخص کی پرستش کی ذہنیت رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا اپنے حصے کے لیے لڑے۔ مذہب لوگوں کی افیون ہے، ذات پات بھی کم افیون نہیں۔ عوام اس دوہرے نشے میں پھنس چکی ہے اس لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ سڑکوں پر آکر لڑے۔
پہلے تحریکیں ہوتی تھیں، حکومتیں جھک کر سنتی تھیں۔ عوام کو بھی اپنے آپ سے رابطہ کرنا چاہیے کہ کیا کوئی لیڈر یا جماعت جادوگر ہے؟ آئین کو بچانا ہے۔ اگر اب نہ بیدار ہوئے تو مزید موقع نہیں ملے گا۔ بہت ہوئی بربادی اب بس کرو۔ نہ تاریخ مٹے گا اور نہ بنے گا لیکن انسانیت فنا ہو جائے گی۔
(بشکریہ:دی کوئنٹ ہندی )