دہلی: اترپردیش کے پریاگ راج میں دنیا کے سب سے بڑے مذہبی میلے مہاکمبھ کے درمیان ایک نمائش میں وارانسی کی گیانواپی مسجد کو ہندو مندر کے طور پر دکھانے کا معاملہ سرخیوں میں ہے۔
‘دی ٹیلی گراف’ کے مطابق، گیانواپی مسجد، جو وارانسی میں کاشی وشواناتھ مندر سے متصل ہے، ایک درجن سے زیادہ اسلامی ڈھانچوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں عدالت میں ا عرضی دائر کی گئی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسجد کوایک مندر کے پہلے سے موجود ڈھانچے پر بنایا گیا تھا۔معلوم ہوا ہے کہ مہاکمبھ میں گیانواپی مسجد کے اوپری حصے کو مندر کے طور پر دکھا کر ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مبینہ طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس نمائش کی نقاب کشائی مہاکمبھ میں سومیرو پیٹھادھیشور سوامی نریندرانند سرسوتی نے ہفتہ (18 جنوری) کو کی تھی۔ اس نمائش میں گیانواپی سے متعلق 120 تصاویر لگائی گئی ہیں جو کہ مسجد کے مختلف حصوں میں موجود مبینہ ہندو مجسموں اور علامتوں کی ہیں۔اخبار نے کچھ ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تصاویر 2023 میں وارانسی کی ایک مقامی عدالت کے حکم پر مسجد کے سروے کے دوران لی گئی تھیں۔ تاہم عدالت نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ سروے کے دوران لی گئی تصاویر سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔سروے کی تصاویر کو سیل بند لفافے میں عدالت کے سامنے رکھا گیا تھا اور انہیں خفیہ رکھا گیا تھا، اس لیے انہیں کھلے عام دکھانا توہین عدالت کے مترادف ہوگا۔ تاہم سرکاری طور پر نمائش کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ تصاویر فوٹوگرافی کے شوقین افراد نے لی تھیں۔اس سلسلے میں نریندرانند سرسوتی نے کہا، ‘ہم آئینی طریقوں سے گیانواپی کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے تمام سناتنی لوگوں (ہندو) کو آگے آنا چاہیے۔(سورس،دی ٹیلیگراف،وائرہندی)