تحریر:مولانا عبد الحمید نعمانی
آج کے سائنسی دور کے ذرائع ابلاغ کے سنامی میں بے تحاشا معلومات کا انفجار (دھماکے) ہے ، لیکن حقیقت اور سچ کا پتا لگانا ایک مسئلہ و مشکل کام ہے۔ اس کا اندازہ بابری مسجد کے سلسلے میں بہت اچھی طرح ہوتا رہا ہے اور آج گیان واپی محلے کی اورنگ زیب سے پہلے تعمیر کردہ جامع مسجد کے متعلق پروپگنڈہ میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا اور مختلف سائٹوں پر جو جانکاریاں فراہم کی جاتی ہیں ، وہ کوئی تحقیق و تجزیہ پر مبنی نہیں ہوتی ہیں ، عموماً سنی سنائی اور چلتے پھرتے ناقص علم و مطالعہ کے لوگوں کے تبصرے و چٹکلے سے اخذ کردہ ہوتی ہیں ، اس کا اندازہ’’وکی پیڈیا‘‘کی طرف سے گیان واپی مسجد کے متعلق فراہم کردہ جانکاریاں ہیں ۔ اس کے تحت وہ بتاتا ہے:
’’ گیان واپی مسجد جسے کبھی کبھی عالمگیری مسجد بھی کہا جاتا ہے ۔ ورانسی میں واقع ایک مسجد ہے ۔ یہ مسجد ، کاشی و شو ناتھ مندر سے ملی ہوئی ہے ۔ 1669ءمیں مغل حملہ آور اورنگ زیب نے پراچین (قدیم ) وشو یشور مندر کو توڑ کر یہ گیان واپی مسجد بنادی ، گیان واپی ایک سنسکرت لفظ ہے جس کا معنی گیان کا کنواں ہے۔ 1991ءسے مسجد کو ہٹا کر مندر بنانے کی مہم چل رہی ہے ۔ لیکن 2022ءمیں سروے ہونے کے بعد یہ زیادہ چرچے میں ہے ۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مسجد کے وضو خانے میں شیو لنگ ملا ہے جسے حملے سے بچانے کے لیے اس وقت کے ہیڈ پجاری نے گیان واپی کوپ (کنواں ) میں چھپا دیا تھا۔‘‘
نیچے گیان واپی مسجد کی تصویر دے کر اوپر ’’عالمگیری مسجد ‘‘لکھا ہے اس کے نیچے تعارفی تحریر لکھا ہے ۔’’ گیان واپی مسجد (دائیں) اور مغربی دیوار (بائیں ) جو مندر جیسے لگتے ہیں‘‘
مذہب سے متعلق جانکار ی کے عنوان کے تحت بتایا گیا ہے تعلق- اسلام ، ملکیت – گیان واپی مسجد ٹرسٹ ، انتظام – گیان واپی مسجد۔
حالات کی جانکاری ، کے تحت لکھا ہے ۔
واقع – ورانسی ، نگر نکایہ ، ورانسی نگر نگم ، ضلع -ورانسی ، ریاست – اتر پر دیش، ملک- بھارت۔
تعمیری تفصیل کے تحت لکھا ہے ۔
طرز، مغل فن تعمیر
بانی ، اورنگ زیب
تعمیر 1669
مینارے، 2
اس کے ساتھ ہی جیمس پرنسیپ کی بنائی، مسجد کی ایک تصویر دی گئی ہے ، جس کو انھوں نے گیان واپی مسجد کو ( بغیر ثبوت و دلیل ) وشیشور مندر کے روپ میں ذکر کیا ہے ساتھ ہی تصویر کے نیچے یہ بھی لکھا ہے’’ توڑی گئی مندر کی اصل دیوار آج بھی مسجد میں کھڑی ہے ۔‘‘
حوالے میں اخبارات اور ٹی وی چینلز کی خبروں اور کچھ لوگوں کے یہاں وہاں سے بے جوڑ باتوں کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ ایک قدیم حوالہ کاشی کھنڈ کتاب کا ہے ۔ یہ مہا پرانوں میں شمار اسکند (سیو کا بیٹا) پران کا ایک باب ہے ، لیکن کاشی کھنڈ سے جامع مسجد گیان واپی کی جگہ وشو ناتھ مندر ہونے کا ثبوت کسی طرح بھی فراہم نہیں ہوتا ہے ، اس کتاب پر قدرے تفصیل بحث و مطالعہ کی ضرورت ہے ، ہم اس پر کسی دیگر مواقع و تحریروں میں مطالعہ و تجزیہ پیش کریں گے ، دیگر تمام شواہد و امور کو نظر انداز کر کے اورنگ زیب کے متعلق برٹش سامراج کے گماشتوں ، تنخواہ دار برطانوی مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کرنے والے مغربی مصنّفین مشترقین اور ان سے متاثر دائیں بازو فرقہ پرست برہمن وادی ہندوستانی قلم کاروں و مصنفوں نے غلامانہ ذہنیت کے تحت پھیلائے غلط الزامات سے فرقہ وارانہ تاریخ بنانے کی مذموم سعی کی جارہی ہے ، اس سلسلے میں مغلیہ سرکاری تاریخ نویس ساقی خاں مستعد کی کتاب ’’ماثری عالمگیری ‘‘کا حوالہ قطعی طور سے بے بنیاد بے معنی اور غیر متعلق ہے اس کتاب میں کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے بنارس کی وشو ناتھ مندر کو توڑ کر گیان واپی محلہ کی جامع مسجد تعمیر کرائی ہے ،اس میں صرف اتنا ہے کہ دین پرور بادشاہ کو اطلاع ملی کہ بنارس میں باطل کتب کی تعلیم برہمن مسلم طلبہ کو بھی دے رہے ہیں ، اور گمراہ کر رہے تو درس گاہ و معابد کو منہدم کر دیا گیا۔ (کتاب مذکورہ کا فارسی اڈیشن صفحہ 89) کتاب میں مندر کی جگہ مسجد بنانے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔
حکومت کے خلاف تخریبی سر گرمیوں کے مراکز بنے مندر ، یا بغیر اجازت کے نئے تعمیر کردہ مندر کو منہدم کرا دینا اور ان کو توڑ کر مسجد کی تعمیر دونوں الگ الگ معاملے ہیں ، بغیر اجازت یا سیاسی تخریبی سر گرمیوں کا آماجگاہ بنے شورش زدہ علاقوں کے کچھ مندروں کو توڑنا اپنے اندر کئی طرح کے سیاسی اور سماجی اسباب رکھتا ہے۔دو الگ الگ باتوں کو خلط ملط کر کے گمراہ کن نتیجہ نکالنا بد دیانتی پر مبنی ایک شرارت انگیز مکروہ عمل ہے ، مفاد عامہ کے نام پر عدالتوں میں رٹ داخل کرنے میں خاصے نام کما چکے بی جے پی لیڈر اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی کمار اپادھیائے اور بی جے پی کے ترجمان جیٹلی اور مندر فریق کے وکیل وشنو جین سے ایک ٹی وی بحث میں واضح حوالہ پوچھا گیا تو تینوں میں سے کوئی نہیں بتا سکے ، تینوں میں کوئی کتاب کا صحیح نام بھی نہیں لے پا رہے تھے ، ہمارے ساتھ’’ماثر عالمگیری‘‘ تھی ، ہم نے کہا کہ آپ حضرات کتاب کے ا نگریزی ، ہندی ترجمے میں ہی اپنے دعوے دکھائیں کہ اورنگ زیب نے کاشی وشو ناتھ مندر توڑ کر بنارس گیان واپی جامع مسجد کی تعمیر کی ہے ، مرمت و تزئین مسجد کی اصل تعمیر سے الگ عمل ہے ، وہ اصل سوال کا جواب دینے کے بجائے ادھر کی باتیں کر تے رہے ، ہمیں لگتا ہے کہ ہندوتو وادی عناصر ورانسی کی قدیم حالت اور ہندو مت کے تصورات سے بھی زیادہ واقف نہیں ہیں اور نہ بعد کی تاریخ کی کوئی بہتر جانکاری رکھتے ہیں ، ان کے پاس کوئی مستند و معتبر تاریخ نہیں ہے ، پرانک کہانیوں سے مذعومہ و تصوراتی تاریخ کی بالکل بھی تائید و تصدیق نہیں ہوتی ہے ۔
’’وکی پیڈیا‘‘ نے بھی بالکل یکطرفہ طور سے سنی سنائی مفروضہ باتوں کی لہر میں تاریخ کی سچائی اور سامنے کی زندہ حقیقت کو ڈبو دینے کی تباہ کن عمل کو آگے بڑھانے کا کام کیا ہے ، اسے معلوم نہیں ہے کہ ہندوتو وادی فرقہ وارانہ رجحانات کے مطابق ، گیان واپی جامع مسجد اور اس کی ملحقہ زمین کے متعلق انیسویں صدی عیسوی کی پہلی دہائی سے مندر کے حق میں ماحول بنانے اور جگہ کی پوزیشن کو بدلنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ، اس سے مسجد کی تاریخ اور حقیقت حال کو بدلنا سراسر غاصبانہ و جارحانہ عمل ہے،اس کی حوصلہ افزائی کسی بھی جمہوری آزاد ملک اور مہذب سماج میں قطعی ناقابل قبول اور متصادم رویہ ہے اس سوال پر غور و فکر بہت ضروری ہے کہ آخر شاندار ماضی اور ہندستانی سنسکرتی کے نام پر اسلامی معابد اور مسلم ماثر کی جگہ مندروں اور ہندو عمارتوں کے ہونے کے دعوے کے ساتھ ان کی واپسی کی تحریک برٹش سامراج کے دور میں ہی کیوں شروع ہوئی ؟پہلی بار مندر، مسجد کو لے کر انیسویں صدی عیسوی کی پہلی دہائی 1809ءمیں فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا ، برٹش دور کے غلبے سے پہلے اس طرح کے تنازعات کا کوئی قابل ذکر حوالہ نہیں ملتا ہے ۔ پروپگینڈا میں سچائی کو گم کرنے کی کوشش کا نتیجہ کبھی بھی اچھا نہیں نکل سکتا ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)