خراج عقیدت:حکیم نازش احتشام اعظمی*
ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ذات برادری کے رجحانات رنگ و نسل کے امتیازات مذہب و مسلک اور تہذیب و ثقافت کے اختلافات موجود ہوں ہر آن ٹکراؤ کا خدشہ بنا رہتا ہے ۔ ایسے کسی بھی ملک میں قومی یکجھتی تمام ضرورتوں سے زیادہ ترجیح کی حامل ہوتی ہے ۔اس صورت میں اس کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے جب ان آتش گیر عوامل کو ہوا دے کر مفاد روٹیاں سینکنے والے ذہن موجود ہوں۔ ایسے حالات میں قومی یکجھتی کے کسی علم بردار کا وجود مسیحا سے کم درجہ نہیں رکھتا ۔حکیم عبدالحمید (1908–1999) ایک ایسے ہی مسیحا نفس کا نام ہے جس کی زندگی کا ایک ایک عمل قومی یکجھتی سے عبارت رہا ہے ۔چنانچہ انہوں نے اپنے فکر و عمل اور ذاتی وسائل کو بروئے کار لاکر قومی یگانگت کےچراغ کو ایسی روشنی عطا کی جو نفرت کی تاریکیوں کو ہمیشہ اجالا بخشتی رہے گی ۔ حکیم عبد الحمید ایک مصلح طبیب کا نام ہے جس کی نبض شناس نظروں نے قوم یکجھتی ضرورت کا احساس اوائل عمر سے کر لیا تھا لہذا پوری زندگی یگانگت کے علمبردار رہے اور تنوع میں اتحاد اور اختلافات میں ہم آہنگی کے پیامبر بنے رہے ۔چننانچہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے تاریک بادلوں، سیاسی طوفانوں، اور سماجی ناانصافی کے گہرے گھاؤ کے درمیان، حکیم عبدالحمید نے اپنی بصیرت، علم اور عمل کے ذریعے امید کے چراغ جلاتے رہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اختلافات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ممکن ہے، تقسیم کے دریا کو اتحاد کے پل سے جوڑا جا سکتا ہے، اور بکھرے معاشرے کو محبت کے دھاگے سے ایک لڑی میں پرویا جا سکتا ہے۔
ان کا وجود اس زمین پر امن، محبت، اور ہم آہنگی کا ایک زندہ استعارہ تھا۔ ان کے اصول، ان کے خواب، اور ان کی میراث آج بھی اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ حقیقی قیادت وہی ہے جو دلوں کو فتح کرے، ذہنوں کو منور کرے، اور انسانیت کی خدمت کے ذریعے اپنی عظمت کو امر کر دے۔
یہ تمہید اس داستان کا آغاز ہے جس میں ایک شخصیت کی بصیرت، ہمت، اور قربانیوں کے نقوش ہیں، اور جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حقیقی اتحاد کی بنیاد محبت، علم، اور قربانی کے ستونوں پر رکھی جاتی ہے۔
حکیم عبدالحمید 1908 میں دہلی کے ایک تجارت پیشہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم حافظ عبدالمجید نے 1906 میں ہمدرد دواخانہ کی بنیاد رکھی، ابتدائی عمر میں ہی حکیم عبدالحمید نے اپنے والد سے خدمت خلق کے اصول سیکھ لیا تھا ۔انہوں نے برطانوی دور حکومت میں بھارت کی آزادی کی جدوجہد کو قریب سے دیکھا، اور ان واقعات نے ان کے ذہن میں اتحاد اور اجتماعی ترقی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایک متنوع اور ثقافتی طور پر مختلف ملک میں، اتحاد کی بنیاد تعلیم، سماجی انصاف اور باہمی احترام پر ہونی چاہیے ۔ حکیم عبدالحمید کے نزدیک قومی یکجہتی کا مطلب صرف تنازعات سے گریز نہیں تھا بلکہ یہ ایک مثبت عمل تھا جو مختلف کمیونٹیز کے درمیان تعاون، رواداری، اور اعتماد کو فروغ دیتا تھا
وہ بھارت کو مختلف ثقافتوں، مذاہب، اور زبانوں کا حسین امتزاج سمجھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ان اختلافات کو تقسیم کے بجائے طاقت کے طور پر منانا چاہیے ۔ ان کے نزدیک سب کو برابر مواقع فراہم کرنا اور ہر طبقے کو ترقی کے عمل میں شامل کرنا قومی اتحاد کے لیے ضروری تھا۔
حکیم عبدالحمید نے ہمیشہ انسانیت کو کسی بھی مذہبی، نسلی، یا سماجی تقسیم سے بالاتر رکھا۔ ان کا ماننا تھا کہ خدمت خلق اتحاد کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے ۔ 1989 میں جامعہ ہمدرد کی بنیاد حکیم عبدالحمید کے اس خواب کی تکمیل تھی، جو ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے جہاں روایتی اور جدید علوم کا امتزاج ہو۔
یہ یونیورسٹی ہر طبقے کے طلباء کے لیے کھلی تھی اور یہاں طلباء کو مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے احترام کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جامعہ ہمدرد نے ایسی نسل تیار کی جو نہ صرف تعلیمی اعتبار سے بلکہ اخلاقی اور سماجی طور پر بھی مضبوط ہو۔
معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو تعلیم کی رسائی فراہم کرنے کے لیے انہوں نے کئی اسکالرشپ پروگرام شروع کیے۔ یہ پروگرام ان کے اس وژن کی عکاسی کرتے ہیں کہ تعلیم کے ذریعے سماجی مساوات کو فروغ دیا جائے۔ تعلیمی نصاب کو صرف کتابی علم تک محدود نہ رکھنا ان کی پالیسی تھی۔ انہوں نے اخلاقیات، سماجی خدمت، اور قومی یکجہتی کو نصاب کا حصہ بنایا تاکہ طلباء بہتر شہری بن سکیں۔ حکیم عبدالحمید کے وژن کا عملی مظہر مجیدیہ ہسپتال تھا، جو ہر طبقے کے مریضوں کو معیاری اور سستی طبی سہولیات فراہم کرتا تھا۔ یہ ہسپتال طبی خدمت کے ساتھ ساتھ سماجی ہم آہنگی کا بھی مظہر تھا۔ہمدردنیشنل فاؤنڈیش ان کے سماجی فلاحی نظریات کا ایک اور اہم سنگ میل تھا۔ اس تنظیم نے صحت، تعلیم، اور سماجی بہبود کے کئی منصوبے شروع کیے۔ ان کا مقصد تمام کمیونٹیز کو ساتھ لے کر چلنا اور انسانیت کی خدمت کرنا تھا۔
یونانی طب کو معیاری بنانے اور جدید تحقیق کے ذریعے اسے بہتر بنانے کے لیے انہوں نے متعدد اقدامات کیے۔ ان کی کوششوں نے روایتی طب کو جدید طبی نظام کے ساتھ مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یونانی طب کو فروغ دینا ان کے قومی یکجہتی کے وژن کا حصہ تھا کیونکہ اس سے عوام کو مذہب یا ذات کی پروا کیے بغیر صحت کی خدمات حاصل کرنے میں مدد ملی۔
حکیم عبدالحمید نے ہمیشہ مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ کھلی بات چیت اور مشترکہ اقدار پر زور دینا تنازعات کو حل کرنے اور اعتماد سازی کا اہم ذریعہ ہے۔ ان کی فلاحی سرگرمیاں تمام مذاہب اور طبقات کے لیے تھیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ کسی ایک برادری تک محدود نہیں تھا بلکہ سب کو یکساں فائدہ پہنچانے کے لیے تھا۔
حکیم عبدالحمید نے تسلیم کیا کہ سماجی اور اقتصادی عدم مساوات قومی یکجہتی کے لیے اہم رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایسے پروگرام شروع کیے جو پسماندہ طبقات کی بہتری کے لیے تھے۔ قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی حکیم عبدالحمید کی کوششیں چیلنجز سے خالی نہیں تھیں۔ ان کے وقت کے بھارت کا سماجی اور سیاسی منظرنامہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور تقسیم سے بھرا ہوا تھا۔ ان رکاوٹوں کے باوجود، وہ اتحاد اور ہم آہنگی کے لیے اپنی وابستگی پر قائم رہے۔ تقسیم اور فرقہ وارانہ تشدد کے دور میں، حکیم عبدالحمید کے انضمام کے وژن کے لیے بے پناہ ہمت اور استقامت کی ضرورت تھی۔ انہوں نے ہمیشہ امن اور مصالحت کی وکالت کی، یہاں تک کہ مخالفت کے باوجود۔روایتی علم کے نظام کو جدید طریقوں کے ساتھ مربوط کرنا ایک پیچیدہ کام تھا۔ تاہم، حکیم عبدالحمید نے اس چیلنج کو بصیرت اور عملیت کے ساتھ عبور کیا، اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی پہلیں جدید اور جامع دونوں ہوں۔
حکیم عبدالحمید کا قومی یکجہتی کا وژن آج بھی انتہائی متعلقہ ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جو مذہب، نسل، اور نظریے کے لحاظ سے تیزی سے تقسیم ہو رہی ہے، ان کی زندگی اور کام اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے قیمتی سبق پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے جو ادارے قائم کیے، جیسے جامعہ ہم درد اور ہم درد نیشنل فاؤنڈیشن، ان کی شمولیت اور خدمت کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہیں۔ یہ تعلیم اور صحت عامہ کو قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنے کی زندہ مثالیں ہیں۔
حکیم عبدالحمید کی روایتی طب اور جامع صحت کی دیکھ بھال کی وکالت نے بھارت میں پالیسی سازی کو متاثر کیا ہے۔ یونانی طب کو آیوش کے فریم ورک میں شامل کرنا ان کے دیرپا اثرات کا ثبوت ہے۔
ان کا "تنوع میں اتحاد” کا فلسفہ قومی یکجہتی کے معاصر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک ماڈل فراہم کرتا ہے۔ تعلیم، صحت عامہ، اور سماجی خدمات پر توجہ مرکوز کرکے، ان کا طریقہ کار یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک متنوع معاشرے میں اجتماعی ترقی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔
حکیم عبدالحمید کا قومی یکجہتی کا وژن ان کے اتحاد، شمولیت، اور انسانیت کی خدمت کے غیر متزلزل یقین سے عبارت تھا۔ اپنے تعلیمی اداروں، صحت عامہ کی پہلوں، اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی وکالت کے ذریعے، انہوں نے ایک زیادہ متحد اور منصفانہ معاشرے کی بنیاد رکھی۔
ان کی زندگی کا کام ہمدردی، افہام و تفہیم، اور اجتماعی کوشش کی تبدیلی کی طاقت کی یاد دہانی کراتا ہے۔ جدید معاشرے کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے، حکیم عبدالحمید کی میراث ہمیں ایک ایسی دنیا کے لیے کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے جہاں تنوع کا جشن منایا جائے اور اتحاد غالب ہو۔ قومی یکجہتی کے لیے ان کی خدمات نہ صرف ان کے وژن کی گواہی ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک رہنما روشنی بھی ہیں، جو ایک ہم آہنگ اور ترقی پسند معاشرے کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔
*صدر اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن