تحریر:پروفیسر اپوروانند
ہندوستان میں جمہوریت دوبارہ پٹری پر آ گئی ہے۔ بی جے پی کی طرف سے دئے گئے ہزاروں زخموں سے لہولہان ملک نے ہاتھ اٹھا کر اعلان کر دیا کہ وہ ابھی تک زندہ ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ ہندوتوا گروہ کے ٹھگوں کی طرف سے جمہوریت کو ہائی جیک کرنے کی کوششیں فی الوقت ناکام ہو چکی ہیں۔ اب شک کی جگہ امید نے لے لی ہے۔
بی جے پی اگلی حکومت کی قیادت کر سکتی ہے لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ ہندوستان کو بادشاہی جمہوریت میں نہیں بدل سکتی۔ ہندوستان کے شہریوں کو ‘رعایا’ نہیں بنایا جائے گا۔ عوام نے نوآبادیاتی طاقت کے ساتھ ایک طویل جدوجہد کے بعد جمہوریت حاصل کی ہے اور وہ اپنی حاکمیت کسی ’دیسی شہنشاہ‘ کے حوالے نہیں کریں گے، حالانکہ آر ایس ایس یہی چاہتی تھی جب اس نے 1947 کے بعد برطانوی ہندوستان کے شہزادوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کی۔ نریندر مودی نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں اسپیکر کی نشست کے قریب سینگول لگا کر یہی اشارہ دیا تھا۔
آئین کی بالادستی بحال ہو چکی ہے۔ 4 جون کی شام کو اپنی پریس کانفرنس میں راہل گاندھی نے درست کہا کہ ہندوستان کے غریب، پسماندہ لوگوں، دلت اور محنت کش لوگوں نے آئینی حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے جو بی جے پی ان سے چھیننا چاہتی تھی۔ مودی کہتے رہتے ہیں کہ حقوق پر ’اصرار‘ نے ملک کی ترقی روک دی ہے۔ لیکن عوام نے اسے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ لوگوں نے سخت جدوجہد کے بعد ووٹ کا حق حاصل کیا ہے اور اسے کسی بھی اعلیٰ طاقت کی قربان گاہ پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔
انتخابی نتائج نے واضح کر دیا ہے کہ جمہوریت کسی سیاسی جماعت کے تکبر کو برداشت نہیں کر سکتی۔ نتائج کا پہلا پیغام یہ ہے کہ عوام پارلیمنٹ کو اپوزیشن فری بنانے کے خیال کو قبول نہیں کرتے۔ یہ نتائج مودی حکومت کے مسلم مخالف جذبات کی بنیاد پر مینڈیٹ کے مطالبے کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ مودی کی بی جے پی نے یہ الیکشن مسلم مخالف پلیٹ فارم پر لڑا اور لوگوں نے اسے حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا، جس کی وہ حقدار تھی۔
راہل گاندھی ایک طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن بہت غیر مساوی جنگ لڑ رہی ہے۔ حکومتی ادارے اس کے خلاف کھڑے ہیں، اس بار الیکشن کمیشن نے خود قیادت کی۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن، انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ، حتیٰ کہ عدلیہ نے اپوزیشن کو بے اثر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی – ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دئے گئے اور ان کے لیڈروں کو ہر قسم کے مقدمات میں جیل بھیج دیا گیا یا انہیں پارلیمنٹ سے معطل کر دیا گیا۔
اپوزیشن نے ان تمام رکاوٹوں کے باوجود بہادری سے مقابلہ کیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر عوام کے پاس جا کر ان کے جمہوری حقوق کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا۔
یہ صرف اپوزیشن جماعتوں کے وجود کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ عوام کی اپنی بالادستی کا معاملہ بھی تھا۔ لوگ بھی حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے حالات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہزاروں لوگوں نے اپنے آباؤ اجداد کے حاصل کردہ حقوق کے تحفظ کے لیے بغیر کسی توقع کے دن رات کام کیا۔
یہ کوئی واضح مینڈیٹ نہیں ہے لیکن یہ اس سے زیادہ واضح ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ گزشتہ 10 سالوں میں سماجی حساسیتوں کس قدر سفاکانہ بنا دیا گیا ہے، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کے لیے حقیقت کو محسوس کرنے اور دیکھنے کی صلاحیت کو دوبارہ حاصل کرنا کتنا مشکل تھا۔ فرضی خبروں اور نفرت انگیز پیغامات کی مسلسل بمباری نے حواس کو کمزور کر دیا ہے اور سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے میں لوگوں کے لیے اس نظریاتی دھند سے آگے کی حقیقت کو دیکھنا آسان نہیں تھا۔ ان حالات میں اس نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ قابل ذکر ہے۔
اس ملک کے مسلمانوں کو بھی سلام کرنا چاہیے۔ انہیں ہر روز، ہر گھڑی تشدد، ذلت، ظلم اور بیگانگی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے جمہوری اقدار کو کبھی ترک نہیں کیا۔ رواداری، تحمل اور وقار کے ساتھ اس نے اپنے جمہوری حق کا استعمال کیا، ہندوستان پر اپنا دعویٰ پیش کیا، یہ ظاہر کیا کہ وہ اس کی پرواہ کرتے ہیں اور ہندوتوا کے حملے سے پریشان اور متاثرہ ‘سیکولر پارٹیوں’ کو اپنا راستہ تلاش کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے جامعیت اور یکجہتی کا انتخاب کیا اور فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کر دیا۔
یہ مینڈیٹ ہندوستان کی فرقہ وارانہ تقسیم کے خلاف ہے، تاکہ ملک میں ایک دوسرے سے متصادم ‘ہندو انڈیا’ اور ‘مسلم انڈیا’ بنانے کی بی جے پی کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔
انتخابی نتائج نے ہندوؤں کو ان لوگوں سے خود کو دور کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جو انہیں بنیاد پرست بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ’ہندو زندگی‘ کو دوبارہ انسانی بنانے کا موقع ہے جسے ہندوتوا کے راستے پر گھسیٹا جا رہا تھا۔
اس مینڈیٹ ہندوستان کے جامع تصور کو بازیافت کیا ہے – ایک ایسا جامع خیال جس کی مناسب طریقہ سے تعریف نہیں کی گئی، جیسا کہ نہرو نے موہت سین کو بتایا تھا۔ نہرو نے ہندوستان یا اس کے راستے کی وضاحت میں درستگی کے لالچ کے خلاف خبردار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس میں ہر قسم کے چہروں کی عکاسی ہونی چاہیے، زندگی کے مختلف خیالات کو جگہ ملنی چاہیے۔
پچھلے تین ماہ کے دوران لوگوں نے خود کو آزاد محسوس کیا۔ انہوں نے بلا خوف و خطر خود کو ظاہر کیا۔ نتائج کا پیغام ہے کہ جمہوریت کی جنگ میں بلا خوف شامل ہو جائیں۔ یہ جنگ خوشی اور امید کے ساتھ لڑی گئی۔ یہ احساس زندہ رہنا چاہیے، چاہے پارلیمنٹ میں ہو یا سڑکوں پر۔
اس موقع پر لوگ سکون سے نہیں بیٹھ سکتے۔ مینڈیٹ اب بھی چوری ہو سکتا ہے۔ ہمیں چوکنا رہنا ہوگا تاکہ ہندوستان پر سو سال حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والے اس پر قبضہ نہ کر لیں۔ امید ہے کہ ہندوستان کی اشرافیہ، جن کے پاس آئین کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، اس مینڈیٹ سے ہمت سے کام لیں گے اور بی جے پی کو وہ نہیں چھیننے دیں گے جو اس کا نہیں ہے۔
آخر میں، ’آئی پی ٹی اے‘ کے نعرے کو یاد رکھیں – انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ‘ہیرو عوام ہیں’۔ اس غیر معمولی کارکردگی پر عوام کو سلام!
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر اور سیاسی اور ثقافتی امور کے مبصر ہیں)