کلیم الحفیظ۔نئی دہلی
اسلام دین حق بھی ہے اور مکمل دین بھی ہے،مکمل اس معنیٰ میں بھی کہ اس میں زندگی کے تمام پہلوئوں کے لیے ہدایات موجود ہیں اور اس معنیٰ میں بھی کہ ہر زمانے،ہر خطے اور ہر شخص کے لیے ہدایات ہیں۔اسلام کی یہی خوبی اسے دوسرے موجودہ ادیان و مذاہب سے جدا کرتی ہے۔اسی طرح حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ سارے ہی انسانوں کے لیے نمونہ ہے،قرآن نے اس مقدس زندگی کو اسوۂ حسنہ اور اسوۂ کاملہ سے تعبیر کیا ہے۔یہ میرا عقیدہ و ایمان صرف ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہی نہیں ہے بلکہ میں عقل و ہوش کے تمام اعضاء سے کام لے کر یہ بات کہہ رہا ہوں۔یہ صرف آستھا کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ بات محققین نے ثابت بھی کردی ہے۔میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان ہوں،کیاآئینہ زندگی ہے جس میں ہر فرد اپنی تصویر سنوار سکتا ہے۔
جس کا جی چاہے کسی رخ سے اٹھا کر دیکھ لے
کس قدر بے داغ ہے سیرت رسول اللہ کی
سیرت کے جلسوں میں حضور اکرم ؐ کی حیات مبارکہ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔آپؐ کے لباس ،بودو باش،خوردو نوش،طرز تکلم،اخلاق حسنہ وغیرہ ،وہ موضوعات ہیں جن پر واعظین ،ائمہ،مقررین اور شعرا ء نے نظم و نثر دونوں میں ہی اتنا کچھ لکھا ہے کہ اس کا شمار بھی ممکن نہیں ۔مگر آپ کی سیاسی زندگی اور بحیثیت ایک سیاست داں اور حکمراں کے گوشے شاید ابھی تشنہ ہیں۔حالانکہ اردو و عربی زبان میں بہت سے مقالات موجود ہیں ،لیکن عوام کی نظروں سے یہ پہلو اوجھل ہی ہے ۔بلکہ بعض لوگ آپ ؐ کو سیاسی کہنے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرتے ہیں،اس لیے کہ وہ سیاست کو دین سے متضاد کوئی مکروہ شئی سمجھتے ہیں۔اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ دین اسلام بھی ایک مذہب و مسلک بن کر رہ گیا ،اس کی عالمگیر اور ہمہ گیر حیثیت تقریباً ختم ہوگئی۔سنتوں کے نام پر بھی داڑھی ٹوپی،پاجامے کی پیمائش اور نماز و وضو کی سنتیں یاد رہیں اور آپ ؐ کی بعثت کا وہ مقصد عظیم کہیں گم ہوگیا جو ایک سیاسی انقلاب کی شکل میں آپ ؐ نے حاصل کیا۔
آپ ؐ نے محض 23سال کی مدت میں عرب میں ایک سیاسی انقلاب برپا کیا۔غیر منظم قبائل کو یکجا کرکے ایک حکومت تشکیل دی،ایک جھنڈے کے نیچے سب کو جمع کرکے ایک اخلاقی نظام کا پابند بنایا۔یہ وہ عظیم کارنامہ ہے جو انبیاء میں بھی صرف آپ ؐ کا امتیاز ہے۔حکومت و اقتدار دوسرے انبیاء نے بھی قائم و حاصل کیا لیکن حضرت محمد ؐ نے جن حالات میں اور جن لوگوں میں کیا ،وہ مختلف ہے۔حضرت سلیمان ؑ کو اللہ نے بادشاہ بنایا،بنی اسرائیل کے بیشتر انبیاء بادشاہ تھے،حضرت یوسف ؑ کو قائم شدہ حکومت میں اختیارات حاصل ہوئے،لیکن حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے عرب کے ان بدوئوں کو نظم و قانون کا پابند کیا جن کی فطرت ہی لڑنا اور جھگڑنا تھی ،جو ذرا ذرا سی بات پر تلواریں سونت لیتے تھے اور پھر ان کی شمشیروں کی پیاس کئی سال تک بھی سینکڑوں انسانوں کا خون پی کر بھی نہیں بجھتی تھی۔اللہ کے رسول ؐ نے وہ سسٹم ڈیولپ کیا جس کے نتیجے کے طور پر آج بھی جس خطے میں اس سسٹم کا جتنا بھی حصہ نافذ ہے لوگ اس کی برکتوں سے فیضیاب ہورہے ہیں،عرب میں مغربی سازشوں کو اگر درکنار کردیا جائے تو امن و خوشحالی آج بھی موجود ہے۔
مکہ میں تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کی تنصیب ایک خونریز حادثہ میں تبدیل ہونے والی تھی مگر نبی اکرم ؐ کی سیاسی بصیرت نے اسے پر امن طریقے سے حل کردیا ۔اعلان نبوت سے قبل معاھدہ ٔ حلف الفضول ایک سیاسی سوجھ بوجھ والا انسان ہی کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں مکہ میں جزوی امن قائم ہوا۔اہل ایمان پر آزمائشوں کے دور میں حبشہ کی جانب ہجرت کا حکم سیاسی دور اندیشی کا ہی نتیجہ تھی ،جس نے اہل ایمان کو ایک آسرا بھی عطا کیا اور عظیم انسانی سرمائے کی حفاظت بھی کی ،اگر ہجرت حبشہ نہ ہوتی تو کمزور وں پر مظالم کے نتیجے میں اہل ایمان بڑی آزمائش میں مبتلا ہوسکتے تھے۔ایک طرف آپؐ کا دل اپنے جاں نثاروں پر مظالم دیکھ کر تکلیف محسوس کرتا اور دوسری طرف سعید روحیں کسی مناسب ماحول کا انتظار کرتیں۔حضرت عمرؓ کے لیے قبول اسلام کی دعا سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سماج کے ٹیلینٹ پر آپ کی کتنی نظر تھی ،ہجرت مدینہ کے لیے رفیق سفر اور راستے کا انتخاب صرف ایک معجزہ ہی نہیں سیاسی چال بھی تھی۔شب ہجرت اپنے بستر استراحت پر حضرت علیؓ کو آرام کرنے کا حکم صرف امانتوں کی واپسی تک محدود نہ تھا بلکہ دشمنوں کو اس شبہ میں مشغول رکھنا تھا کہ بستر پر محمد ؐ موجود ہیں۔دوران قیام مکہ عکاظ کے میلوں میں جاکر قبیلوں سے ملاقاتیں،طائف کا غیر معمولی سفر،بیعت عقبہ کے مراحل کو سیاست کے صفحات میں ہی جگہ ملنا چاہئے۔مدینہ پہنچ کر وہاں کے غیر مسلموں سے میثاق مدینہ ہندوستان کے کثیر ثقافتی سماج میں آج کے سیاسی رہنمائوں کے لیے ایک بیش قیمت نمونہ ہے۔مواخاۃ کا نظام انسانی تاریخ کا انمول باب ہے جس نے چٹکیوں میں کئی مسائل حل کردیے۔مدینے میں اپنی قیام گاہ کا انتخاب اونٹنی پر چھوڑ دینا محض کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ اپنی غیر جانب داری کا اعلان تھا۔آپ کسی کا نام لے کر دوسرے ساتھیوں کی دل شکنی نہیں کرسکتے تھے ۔غزوہ بدر سے لے کر فتح مکہ تک تمام جنگی اسکیمیں آپ ؐ کی اعلیٰ سیاسی بصیرت کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔صلح حدیبیہ آپ ﷺ کی ایک ایسا سیاسی قدم ہے جس نے فتح مکہ کی راہ کو آسان کردیا ۔بدر کے قیدیوں کو آزاد کرنے سے دشمنوں میں بھی آپ ؐ کی اخلاقی ساکھ قائم ہوئی۔بادشاہوں کو خطوط آپ نے ایک مصلح اور واعظ کی حیثیت میں نہیں بلکہ ایک نبی اور نظام مملکت کے سربراہ کی حیثیت میں تحریر فرمائے تھے۔ایک واعظ کو کسی سے جنگ کرنے کی نوبت نہیں آتی ۔جنگ صرف اسی صورت میں پیش آتی ہے جب آپ کسی کے اقتدار کو چیلینج کرتے ہیں اور نظام حکومت کی تبدیلی کا ہدف آپ کے پیش نظر رہتا ہے،نظام حکومت کی تبدیلی کا ہدف، معیشت و معاشرت کا نہیں بلکہ سیا ست کا موضوع ہے۔
ماہ ربیع الاول کے اس مہینے میں میری گزارش ہے مقررین اور مساجد کے ائمہ سے کہ وہ خاص طور پر آپ ﷺ کی اس حیثیت کو اجاگر کریں۔تاکہ بھارت کے مسلمان یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ سیاست اور اقتدار کے حصول کے لیے کی جانے والی جد وجہد نہ صرف بھارت میں ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے بلکہ یہ سنت ہے اور جب یہ سنت ہے تو عبادت بھی ہے۔البتہ آپ ؐ نے سیاست کے بھی کچھ اصول و آداب بتائے ہیں۔آپ ؐ نے لیڈر کو قوم کے خادم سے تشبیہ دے کر اسے یہ پیغام دیا ہے کہ اسے یہ منصب انسانوں کی بھلائی کے لیے دیا گیا ہے ان پر رعب جمانے کے لیے نہیں۔آپ ؐ نے ہر قسم کی عصبیت کو بالائے طاق رکھ کر عالم انسانیت کی فلاح کا ویژن پیش کیا اور یہ تعلیم دی کہ ایک رہنما اور لیڈر کو ہر عصبیت سے پاک ہونا چاہئے۔قول و عمل میں یکسانیت کا نمونہ پیش کرکے آپ ؐنے سیاست کو تقدس عطا کیا۔بھارت کے مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ یہی ہے کہ انھوں نے رسول اکرم ؐ کو صرف ایک واعظ کی حیثیت میں دیکھا ایک سیاسی مدبر،ایک ماہر منتظم و حکمراں کی حیثیت سے نہیں دیکھا۔حالانکہ زبان سے دعویٰ یہی کیا کہ آپ ؐ کی سیرت اور اسلام کی تعلیمات تمام شعبہائے زندگی پر محیط ہیں۔