نئی دہلی : 17 فروری ،سپریم کورٹ نے آج ’’ عباد ت گاہ ایکٹ1991‘‘سے متعلق عرضیوں کی سماعت اپریل تک کے لیےمؤخر کر دی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بنچ اس معاملے کی سماعت کررہی تھی۔ آج عدالت کو مطلع کیا گیا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے اس اہم معاملے میں ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ ایک طرف اس ایکٹ” کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کر رہا ہے اور دوسری طرف صد ر جمعیۃ علماء ہندمولانا محمود اسعد مدنی و دیگر کی عرضیوں پر بھی غور کر رہا ہے جس میں اس ایکٹ کے سخت نفاذ کی درخواست کی گئی ہے۔ آج جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایڈوکیٹ آن ریکاڈر منصور علی خاں اور ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی پیش ہوئے ۔ جمعیۃ کے وکلا نے حکومت کی طرف سے ہنوز جواب داخل نہ کیے جانے اور خاموشی اختیار کرنے پر سوال اٹھایااور زوردیا کہ حکومت ہند کو ملک کی سالمیت، مسئلہ کی حساسیت اور قانون کی پاسداری کا لحاظ کرتے ہوئے اپنا جواب جلد ازجلد داخل کرنا چاہیے ۔
واضح ہو کہ اس ایکٹ کی دفعہ 4 کے مطابق 15 اگست 1947 کو موجود عبادت گاہوں کی مذہبی نوعیت ویسی ہی رہے گی جیسی وہ اس دن تھیں۔ اس قانون کے مدنظر 12 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ نے ایک اہم حکم جاری کیا تھا، جس میں عبادت گاہوں کے خلاف نئے مقدمات اور سروے کے احکام پر پابندی عائد کی تھی۔ اس حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ زیر التوا مقدمات میں کوئی مؤثر عبوری یا حتمی حکم نہ دیا جائے۔اس حکم کے بعد ملک میں مساجد اور درگاہوں کے خلاف فرقہ پرستوں کی طبع آزمائیوں پر روک لگی ہے ، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ الگ الگ بہانوں سے فرقہ پرست عناصر او ران کے ہم نوا مساجد و درگاہوں کو نشانہ بناتے ہیں ، اس لیے اس معاملے پر حتمی فیصلے کی سخت ضرورت ہے ، نیز حکومت سمیت سبھی بااثر لوگوں کو متحدہونے کی ضرورت ہے ۔(سورس:پریس ریلیز)
۔