تحریر:ڈاکٹر خوشبو پروین قریشی -دہلی یونیورسٹی
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دباؤ گے!
4 مئی 1799 میں ایک تاریخی جملہ کہا گیا تھا کہ’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘یہ جملہ شیر میسور ہندوستان کے اصلاح و حریت پسند حکمراں ٹیپو سلطان نے سرنگاپٹنم میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے کہا تھا ۔8 فروری 2022 میں میں بی بی مسکان خان جو مہاتماگاندھی کالج او ڈ پی کی حوصلہ مند طالبہ ہے ۔انہوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ اگر ہم حق پر ہوں تو ہمیں سینکڑوں کی تعداد بھی ڈرا نہیں سکتی۔
آج کی وائرل ہو رہی ویڈیو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک اکیلی لڑکی اسکوٹی پر سوار ہوکر کالج جاتی ہے اور اس کے پیچھے چالیس پچاس کی تعداد میں بھگوا رنگ کا پٹا ڈالے ہوئے نوجوان خونخوار بھیڑیے کی طرح جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے اس تنہا لڑکی کی طرف دوڑتا ہے اور میں قربان جاؤں اپنے اس بہادر بہن پر جو ان درندوں کے جے شری رام کا جواب نعرہ تکبیر اللہ اکبر سے دیتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ سلام ہے اس مسلم شہزادی کوجس نے اپنا حق ادا کر دیا ایک مسلمان ہونے کا حق، اپنے پردے کا حق اور آئین کے ساتھ ہو رہے اس ننگے پن کا حق اس ایک لڑکی کی دہاڑ نے سینکڑوں پالتو کتوں کو دھول چٹا دی ۔یہ ہے ہماری قوم کی بیٹیاں ہم نے کل بھی تاریخ رقم کی تھی ہم آج بھی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ہمارے قوم کا بچہ بچہ وقت آنے پر ٹیپو سلطان بن سکتا ہے ،ہماری قوم کو بزدل سمجھنے کی غلطی نہ کریں ہم سوتے ہوئے شیر ہیں جب تک سو رہے ہیں تب تک ہی آپ جشن منا سکتے ہیں جس دن ہم جاگ گئے وہ دن تاریخ رقم ہو جانے کے لیے کافی ہو گی، لیکن افسوس کہ اس تاریخ کو پڑھنے کے لئے آپ نہیں ہوں گے۔
کرناٹک کالج کے اساتذہ نے جو یہ شوشہ نکالا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے اگر کرناٹک کالج کے ایڈمنسٹریشن کو پردے سے پریشانی تھی تو اسے ان لڑکیوں کو داخلہ ہی نہیں دینا چاہیے تھا یا داخلے کے وقت ہی کوئی فارم ایسا پر کروانا چاہیے تھا جس میں صاف صاف لکھا ہوتا کہ آپ نقاب یا برقع کے ساتھ کالج نہیں آ سکتی ہیں۔ سمسٹر کے مڈ میں آ کر آپ اُن لڑکیوں کو پردہ ترک کرنے کے لئے مجبور کر رہے ہیں جن کا وہ شعار ہے ،آخر کیوں ایک طرف آپ کہتے ہیں’’ بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ ‘‘اور دوسری طرف اسی بیٹی کے پیچھے سینکڑوں بھیڑیے لگا دیتے ہیں ،اب وہ بیٹی خود پڑھائی کے لیے بھی لڑے اور اُن بھیڑیوں سے خود کی حفاظت کے لیے بھی۔
دھرم کے نام پر یہ گندی سیاست آخر کب تک ؟ آج ہندو دھرم کے لوگ جے شری رام کا نعرہ لگا کر ایک تنہا لڑکی کو ڈرانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جب کہ شری رام کو مریادہ پرشوتم کہا جاتا ہے اور انہیں مریاده پروشتم اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے پورے جیون كال میں کسی مریادہ کا النگھن نہیں کیا آج یہ چند نفرت کے ٹھیکہ دار لوگ اسی مریادہ پروشتم بھگوان کا نام لے کر ایک لڑکی کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں ارے شرم کرو اور اگر غیرت ختم ہوگئی ہے تو کہیں جا کر ڈوب مرو ،دھرم اور ذاتی کے نام پر کم از کم اپنے بھگوان کا نام تو مت بیچو ،ارے ہم لڑکیوں سے پوچھے کوئی کی کتنی مشکلوں سے سے لڑ کر بغاوت کر کر ہم اسکول کالج اور یونیورسٹیز تک پہنچتے ہیں۔ قدم قدم پر ہمیں نئے نئے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے، ایسے میں اگر ہم سے ہمارا حق چھینا جائے گا تو ہم بھی خاموش نہیں رہیں گے۔
اسکول کالج اور یونیورسٹیز میں ڈریس کوڈ بنائے جاتے ہیں ،اس لیے کہ طلبہ میں امیری اور غریبی کا فرق نہ ہو اور جہاں یہ کوڈ نہیں ہوتا وہاں ہر کسی کی اپنی مرضی ہوتی ہے وہ جو چاہے پہن کر آئے کوئی چھوٹے سے چھوٹا کپڑا بھی پہن کر آتا ہے تو ہم اس کے لیے یہ نہیں کہتے ہیں کہ ایسے چھوٹے کپڑے پہن کر کالج آنا منا ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ اُن کی اپنی مرضی ہے۔ اُنہیں آزادی ہے، وہ جو چاہے جیسے چاہے کپڑے پہنے اُسی کے برعکس اگر کوئی نقاب میں آئے حجاب میں آئے تو اس سے آپ کو تکلیف ہونے لگتی ہے، کیوں آخر کیوں صرف نقاب یہ برقع والیوں کو ہی نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے ؟ اُنہیں دیکھ کر یہ کیوں نہیں کہا جاتا ہے کہ برقع پہننا بھی ان کا حق ہے۔ اُنھیں اِس کی آزادی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی جینز پہن کر آئے تو وہ ٹھیک کیونکہ وہ اس کا خود کا تجویز کیا ہوا کپڑا ہے، پھر نقاب بھی تو ہم اپنی مرضی سے پہنتے ہیں کسی کی زبردستی سے نہیں تو پردے پر پابندی کیوں، پردہ ہم خود کو بری نگاہوں سے بچانے کے لیے کرتے ہیں ہم کسی کے ساتھ زبردستی تو نہیں کرتے کہ ہماری طرح تم بھی پرده كرو، اگر امیری غریبی کے اس اُس فرق کی بھی بات کریں تو ہمارے برقع پہننے سے کہاں دکھتا ہے امیری اور غریبی کا فرق، بلکہ اگر ہم برقع پہنتے ہیں تو ہمارا ڈریس نیا ہے پرانا یہ بھی کسی کو پتا نہیں چلتا ہے، پھر کیوں پردے کو نشانہ بنا کر گندی سیاست کی جا رہی ہے۔
کہیں ایسا اِس لیے تو نہیں کہ یوپی میں الیکشن کے دن قریب ہیں اور انھیں ووٹ بنانے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں مل رہا، آخر کب تک ہندوستان کی مٹی پر دھرم اور ذاتی کے نام پر یہ گندی سیاست کرتے رہو گے؟ آخر کب تک؟ پردے کا حکم پردے کی اہمیت یا قرآن میں پردے کے ذکر پر میں نے کوئی بات نہیں کی وہ اپنی جگہ ہے۔اگر ہم سنویدھان کی بات کریں جو ہر ہندوستانی کے لیے برابر ہے اگر ہم اس کے تناظر میں بھی اس معاملے کو دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کریں تو بھارت کے سنو یدھان کےانوچھید 14، 25 اور 29 کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ،سنویدھان کا انوچھید 29 کہتا ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی جگہ رہنے والا انسان چاہے وہ کسی بھی دھرم یا ذاتی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو اسے اپنی بولی، بھاشا، لیپی اور سنسکرتی کو بچائے رکھنے کا پُورا پورا حق ہے ،حجاب برقع یا پردہ اسلامی عورتوں کا شعار ہے ،اسلامی کلچر ہے اور اُن كا مولک ادھیکار بھی ہے آپ اُن کے اِس کلچر کی وجہ سے اُنہیں تعلیم حاصل کرنے سے روک نہیں سکتے ،آپ اُن کے مولک ادھیکاروں پر قدغن نہیں لگا سکتے ۔
آئین کا آرٹیکل 25 کہتا ہے ہر کسی کو چاہے وہ کسی بھی دھرم کا پالن کرنے والا ہو اُس کے لیے اُسے پوری آزادی ہے ایسے میں کالج کی طرف سے حجاب کو وجہ بنا کر لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا آرٹیکل 25 کی خلاف ورزیہے،آخر کیوں ایسا کیا جا رہا ہے کیوں آئین کو مذاق بنا کر رکھ دِیا گیا ہے؟ کیوں جیو اور جینے دو کی نیتی ختم ہوتی جا رہی ہے؟
2014 سے پہلے دیش کے حالات ایسے بالکل نہیں تھے ہندو مسلم میں اگر اتحاد نہیں تھا تو اتنی نفرت بھی نہیں تھی آپ اپنے اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر بس ایک مرتبہ سوچئے کہ مسکان خان کی جگہ اگر کوئی امریتا ہوتی اور ان بھگوا دھاری بھیڑیوں کی جگہ کوئی ٹوپی والا ہوتا تو کیا یہ حکومت خاموش رہتی ؟آج کے اس حادثے کو اگر ہم دوسرے پہلو سے دیکھیں تو سوچئے کیا ہوتا اگر اس جگہ کیمرہ نہ ہوتا تو وہ درندے صفت انسان مسکان کو مار بھی سکتے تھے ان کے ساتھ بدتمیزی بھی کر سکتے تھے ان کی عزت پر بھی ہاتھ ڈال سکتے تھے ،جس طرح ایک بھیڑ ایک تنہا لڑکی کے پیچھے دوڑی اگر وہ ڈر جاتی گھبراجاتی تو کیا ہوتا ؟یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پردے پر پابندی کالج کی طرف سے لگائی جا رہی تھی پھر یہ بھگوا دھاری کیوں میدان میں لڑکی کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں اس چیز میں کیوں دلچسپی ہو گئی، یہ معاملہ تو پوری طرح کالج ،حکومت اور مسلمان لڑکیوں کے بیچ کی تھی اِس میں اُن سنگھی لڑکوں کو بولنے یا کُچھ کرنے کا حق کس نے دیا؟
میں اپنی قوم سے مودبانہ گزارش کرتی ہوں کہ اب کوئی لب خاموش نہ رہے بولئے اب ہمارا بولنا لازمی ہوگیا ہے، اگر اب بھی ہم اور آپ خاموش رہیں تو ہماری آنے والی نسلیں گونگی اور بہری پیدا ہوں گی۔ہم اگر اب بھی خاموش رہیں تو شیر جیسا جگر رکھنے والا کوئی ٹیپوسلطان پیدا نہیں ہوگا، بلکہ ہم اپنی نسلوں کو غلامی کرنے کے لیے پیدا کریں گے ۔
بات صرف پردے کی نہیں ہے بات ہمارے حق کی ہے، ہمارے رائٹس کی ہے، آخر کیوں قدم قدم پر ہمیں خود کو ثابت کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے یہ مٹی جس کی خوشبو سے ہم جینے کا سلیقہ سیکھتے ہیں وہ ہمیں بھیک میں نہیں ملی بلکہ اِس کا انتخاب کیا ہم نے ہمارے آباؤ اجداد نے خون کی ہولیاں کھیلیں پھر ہم نے اسے پایا ہے ۔یہ مٹی جس کی خوشبو ہماری رگوں میں خون کی طرح شامل ہے اس مٹی پر ہمارا برابری کا حق ہے، ہم تو وہ ہیں جو مر کر بھی مٹی میں ہی جاتے ہیں ہم سے زیادہ کس نے مٹی کا حق ادا کیا۔
15 اگست 2021 کو ہم نے آزادی کا امرت مہو تسب منایا یعنی آزادی کا 75واں سال،لیکِن کیا واقعی ہم آزاد ہیں ؟یہاں ہمارے کھانے پر پابندی ہمارے پہننے پر پابندی یہاں تک کہ حق بولنے پر بھی پابندی کیا ہم اسے آزادی کہہ سکتے ہیں ؟کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ایسا ہمارے ہی ساتھ کیوں ہوتا ہے ایک پنجابی پگڑی باندھ کر اسکول کالج جا سکتا ہے ایک کریشچن گلے میں کراس پہن کر جا سکتا ہے ایک ہندو ٹیکہ لگا کر، کلائی میں دھاگہ باندھ کر ، بھگوا گمچھا لٹکا کر کالج جا سکتا ہے ،یہاں تک کہ اسکول اور کالج میں سرسوتی کی پوجا بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک مسلمان لڑکی پردہ کرکے اسکول نہیں جا سکتی جبکہ وہ پردہ اس کی تہذیب ہے ، آخر کیوں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سب سے بڑا سوال کہ ایسے مدے صرف الیکشن کے وقت ہی کیوں اٹھائے جاتے ہیں اور دوسرا بڑا سوال کہ ہمارے وزیراعظم ان باتوں پر خاموشی اختیار کیوں کر لیتے ہیں ، ان کی زبان گنگ کیوں ہو جاتی ہے جب انہیں بولنا چاہیے تو وہ خاموش رہ کر اس چیز کو بڑھاوا کیوں دیتے ہیں ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں چاہیے ،اگر جواب نہیں ملے گا اور ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا رہے گا تو ہمیں بھی سینہ سپر ہونا پڑے گا اپنے حق کے لیے، اپنے آئین کے لیے،ہزاروں کے لشکر کے سامنے 313 نے فتح کا جھنڈا لہرایا تھا اور آج سینکڑوں کے بیچ ایک تنہا لڑکی نے اپنا اور اپنے اسلام کا پرچم بلند کیا،ہمیں پھر سے وہ جذبہء ایمانی اور خون میں حرارت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اگر یہ ہو گیا تو پھر سے تاریخ رقم ہوگی ان شاء اللہ،تاریخ رقم کرنے کے لیے سینکڑوں کی تعداد ضروری نہیں ،تیر اور تلوار ضروری نہیں ہمیں بس حوصلہ ،ہمت،جرات اور جذبہء ایمانی کی ضرورت ہے مدد کرنے والی ذات اللہ کی ہے پھر ہمیں تعداد دیکھنے کی کیا ضرورت ،علامہ نے بھی کہا تھا:
’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘