رام پونیانی
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے حال ہی میں کہا تھاکہ ہندوستان میں اسلام خطرے میں نہیں ہے، اختلاف کرنے سے کام نہیں چلنے والا ہے اور ملک میں امن کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بات چیت کی ضرورت ہے ۔
انہوںنے یہ بھی کہا تھا کہ ’ جو شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک میں نہیں رہنا چاہئے وہ ہندو نہیں.. . جو لوگ لنچنگ میں شامل ہیں وہ ہندوتو کے خلاف ہے ‘ ۔اس بیان نے ان لوگوں میں امید پیدا کی تھی جو بین مذہبی ہم آہنگی پر مبنی معاشرے کے قیام کے حق میں ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس سے ملک اور معاشرے کی ترقی ہوگی۔
یہ دلچسپ ہے کہ بھاگوت نے یہ بھی کہا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی تنظیم کے لیڈر ہی مسلمانوں کوخوش کرنے کے لیے ان کی تنقید کریں۔
بعد میں ، اپنے اس بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئےبھاگوت نے سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) ، این آر سی (شہریت قومی رجسٹر) اور آسام اور اتر پردیش کی حکومتوں کی مجوزہ آبادی کنٹرول قوانین کی حمایت کی۔ اقوام متحدہ سمیت کئی اداروں اور تنظیموں نے سے اے اے کو امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔
بھاگوت کی بات میں دم ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ بین المذاہب ہم آہنگی صرف باہمی اعتماد اور احترام کی بنیاد پر ہی بن سکتی ہے۔ مہاتما گاندھی نے ہندوستان کو ایک ’ بنانے والے قوم ‘ کے طور پر پیش کیا ، جس سے اس وقت کے جامع ہندوستانی قوم پرستی کے تصور کو مزید تقویت ملی۔ گاندھی جی ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کو بھائی چارے کے بندھن میں باندھنے میں کامیاب رہے کیونکہ ان کی قوم پرستی مذہب پر مبنی نہیں تھی۔ انہوں نے لکھا ، ’’اس بھارت ، جس کی تعمیر کے لیے میں اپنی زندگی بھر کام کرتا رہا ہوں ،میں ہر شخص کو مساوی حیثیت حاصل ہوگی، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا کیوں نہ ہو، ریاست کو پوری سیکولر ہونا ہی ہوگا۔‘‘ اور مذہب قومیت کا معیار نہیں ہے، وہ تو انسان اور اس کے بھگوان کے درمیان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ مذہب کی سیاست یا قومی مسائل سے ملانہیں جانا چاہئے۔ (ہریجن 31 اگست 1947)
قرون وسطی کے دور میں ملک کی مشترکہ ثقافت ہندو مسلم ہم آہنگی کی عکاسی کرتی تھی۔ اس ثقافت کا اعلیٰ ترین مقام بھکتی صوفی روایات تھیں ، جو انسانیت کو مذاہب کے اخلاقی پہلو کا مترادف سمجھتی تھیں۔ مذہب کا اخلاقی پہلو ان روایات کی بنیاد تھا۔
فرقہ وارانہ تشدد ، جو کہ فرقہ وارانہ سیاست کا مظہر ہے ، ‘’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی برطانوی پالیسی سے شروع ہوئی۔ اس پالیسی کے تحت مذہب تاریخ میں مزاج رکھتا تھا اور حکمرانوں کو ان کے مذہب کے چشمے سے دیکھا جاتا تھا۔ تاریخ کا یہ فرقہ وارانہ ورژن مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا-آر ایس ایس جیسی فرقہ وارانہ تنظیموں نے استعمال کیا۔ تاریخ کے اس ورژن نے معاشرے میں دشمنی ، نفرت اور تشدد کے بیج بوئے۔
نوآبادیاتی دور کے دوران جو لوگ فرقہ وارانہ تنظیموں اور ان کے نظریے پر یقین رکھتے تھے ، نے تحریک آزادی اور سماجی اصلاح کے عمل سے جو اس کے متوازی طور پر چل رہا تھا ، ایک فاصلہ رکھا۔ اس نے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں میں تاریخ کے فرقہ وارانہ ورژن کازہر بھردیا۔ فرقہ وارانہ دھاروں کی جڑیں معاشرے کے ٹوٹنے میں تھیں ، لیکن کچھ حد تک طاقتور ، زمینداروں اور پجاری طبقے میں تھیں ، مجاہدین آزادی کے دوران ستی روایت کا خاتمہ اور دلتوں و خواتین کی تعلیم تک رسائی جیسے سماج سدھار کئے گئے۔ ان کا مقصد سماج میں موجودہ درجہ بندی کو چیلنج کرنا اور اسے ختم کرنا تھا۔
نوآبادیاتی دور میں ملک میں دو متوازی فرقہ وارانہ دھارائیں تھیں، لیکن آزادی کے بعد اس کا کردار بدل گیا۔ آر ایس ایس نے ملک بھر میں اپنی شاکھاؤں اور سرسوتی شیشو مندروں کا اپنا جال پھیلایا۔ وقت کے ساتھ سنگھ نے اپنا میڈیا ، سوشل میڈیا اور آئی ٹی سیل بھی قائم کیے۔ گاندھی ، نہرو ، پٹیل اور مولانا آزاد کی جامع قومی مذاکرات کے برعکس ، سنگھ اور اس سے وابستہ تنظیمیں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف زہر اگلتی رہیں۔
آزادی کے بعد آر ایس ایس کی قیادت میں ہندو فرقہ وارانہ نظریہ نے ملک پر مضبوط قبضہ کر لیا۔ سنگھ میں کئی ذیلی تنظیمیں ہیں ، ہزاروں پرچارک اور لاکھوں رضاکار۔ اس نے سماج میں جڑیں ڈال دی ہیں کہ ہندوستان قدیم زمانے سے ایک ہندو قوم ہے ، مسلمان غیر ملکی ہیں ، جنہوں نے ہمارے مندروں کو تباہ کیا اور ہندوؤں کو تلوار کی زور پر مسلمان بنا دیا ، ان کی کئی بیویاں ہوتی ہیں ، وہ بڑی تعداد میں بچے پیدا کرتے ہیں، گائے کا گوشت کھاتے ہیں ، پرتشدد ہیں وغیرہ وغیرہ۔
خواجہ افتخار احمد نے اپنی کتاب ’دی میٹنگ آف مائنڈز – اے- برجنگ انیشی ایٹیو‘ میں یہ بتایا ہے کہ بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد نے ہندوستان میں مسلمانوں کو تباہ کردیا ہے۔ بھاگوت نے اس کتاب کی رسم اجرا تقریب میں اپنی مشہور تقریر کی تھی۔
آج ہندوستان میں اسلام توخطرے میں نہیں ہے ، لیکن مسلم کمیونٹی اپنے کے خلاف چلائی جانے والی پروپیگنڈہ مہم اور تشدد و لنچنگ وغیرہ کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اب ہندو اور مسلمان فرقہ واریت ایک برابر نہیں ہے۔ مسلم کمیونٹی اپنے محلوں تک محدود ہوگئے ہیں۔ یہ ان عملوں کا نتیجہ ہے جو بھاگوت کی جاری کردہ کتاب میں بیان کیے گئے ہیں۔
بھاگوت دو طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان میٹھے انداز میں بات چیت کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ سی اے اے ، این آر سی اور آبادی کنٹرول جیسی باتیں بھی کہہ رہے ہیں۔ اس کا پہلا بیان امید کو جنم دیتا ہے جبکہ دوسرا بیان اس خوف کی تصدیق کرتا ہے جو اقلیتی برادری میں ایک عرصے سے غالب ہے۔
بات چیت کی پیشکش خوش آئند ہے اگر یہ نیک نیتی کے ساتھ کی جاتی ہے اور اگر اس کے ساتھ ساتھ شاخیں اور سنگھ اسکولوں کے تربیتی ماڈیول کو بھی تبدیل کیا جائے گا۔
اگر ملک کے لاکھوں لوگ معاشرے کے ہر طبقے میں اپنے خلل ڈالنے والے ایجنڈے کا پرچار کرتے رہیں گے تو پھر ہم یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ مختلف برادریوں میں ہم آہنگی اور اتحاد قائم ہو گا؟
سنگھ ملک کی سب سے بڑی تنظیموں میں سے ایک ہے۔ کیا وہ اس بات پر غور کرے گا کہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ان کے شاخوں اور تربیتی سیشنوں میں کیا بھرا جا رہا ہے؟ اس کے برعکس اب تیاریاں کی جا رہی ہیں کہ عام اسکولوں میں وہی تاریخ پڑھی جائے جو اب تک کالی ٹوپی اور خاکی ہاف پینٹ کو سکھائی جاتی ہے۔
نرمی کی بات کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے لیکن ساتھ ہی ہمیں ایک بیانیہ تیار کرنا ہوگا جو ملک کے اتحاد کو مضبوط کرے۔ مثال کے طور پر گاندھی جی کا ‘’ہند سوراج‘ اور نہرو کا ’ڈسکوری آف انڈیا‘۔
آج تاریخ کے نام پر جو پڑھایا جا رہا ہے اس کے بجائے ہمیں ایک ایسی تاریخ پڑھنی ہوگی جو ہمارے ملک کے تنوع کو منائے، کسی کو دوسروں کے ساتھ ‘’دوسرا‘ ماننا بند کرنا ہوگا۔
یقینی طور پر ، اگر بھاگوت اپنی تنظیم کے تعلیمی اداروں اور شاخوں میں بچوں اور نوجوانوں کو دی جانے والی ‘’علم‘ کو تبدیل کر سکتے ہیں تو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بین مذہبی بات چیت کے لیے ان کی تجویز قابل قدر ہوگی۔
(مصنف نے آئی آئی ٹی ممبئی میں پڑھاتے تھے اور 2007 کے نیشنل کمیونل ہارمونی ایوارڈ سے اعزاز یافتہہیں)