نئی دہلی:(ایجنسی)
نیویارک یونیورسٹی (این وائی یو) کے اسٹرن سینٹر فار بزنس اینڈ ہیومن رائٹس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا نے ہندوستان میں مذہبی عدم برداشت کو شدید کر دیا ہے۔خبرکے مطابق، اس میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور دیگر دائیں بازو کے ہندو قوم پرست گروپوں کے حامیوں کی طرف سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور اسے ملک میں یوٹیوب کا سب سے پریشان کن استعمال بتایا گیا ہے۔
دی وائر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ’اے پلیٹ فارم‘ویپنائزڈ: ’ہاؤ یوٹیوب اسپریڈس ہارم فل کنٹینٹ اینڈ وہاٹ کین بی ڈن اباؤٹ اٹ‘ کے عنوان والی رپورٹ سیاسی پروپیگنڈہ، صحت عامہ سے متعلق افواہ اور تشدد کو فروغ دینے میں یوٹیوب کے رول کی نشاندہی کرتی ہے۔
حالانکہ یہ زیادہ تر امریکی پیش رفت پر مرکوز ہے، لیکن اس میں ہندوستان، برازیل اور میانمار کے بارے میں بھی کچھ باتیں کہی گئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی کوریا میں منظم طور پرخواتین مخالف ، برازیل میں دائیں بازو کے مفکر، مسلم مخالف ہندو قوم پرست، اور میانمار کی جابرانہ فوجی حکومت کے حامیوں نے نقصان دہ پیغامات پھیلانے اور ہم خیال صارفین کو متحد کرنے کے لیے یو ٹیوب کی غیر معمولی رسائی کا فائدہ اٹھایا ہے۔این وائی یو سینٹر فار بزنس اینڈ ہیومن رائٹس، جمہوریت پر سوشل میڈیا کے اثرات کے بارے میں رپورٹس شائع کرتا رہا ہے۔ اس کی شروعات اس نے 2016 کی امریکی صدارتی مہم میں روس کی جانب سے فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب کے ذریعے مبینہ مداخلت کی کوشش کے بعد کی تھی۔
انڈیا سیکشن کی رپورٹ میں ان’کانسپریسی تھیوریز‘ کونشان زد کیا گیا ہے جو کوروناکی شروعات میں پھیلائی گئی تھیں کہ مسلمانوں نے جان بوجھ کر اس وائرس کو’ جہاد‘ کے طور پر پھیلایا ہے۔ مسلمان دکانداروں کو نشانہ بنایا گیا اور کئی چینل اسلام فوبک مواد کی وجہ سےپروان چڑھے جس نے مسلمانوں کی تذلیل کی اور ان کے خلاف تشدد کو ہوا دی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،مذہبی عدم رواداری ہندوستان میں یوٹیوب کی آمد سے بہت پہلے موجود تھی، لیکن سوشل میڈیا کے وسیع پیمانے پر استعمال نے نفرت کو شدید کر دیا ہے۔
یوٹیوب کے لیے ہندوستان سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ‘ خواتین کو دھمکیاں دینےوالے آن لائن حملوں کو اکثر ہندوستان میں مسلم مخالف موضوعات کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ قوم پرست ہندوستانی یوٹیوب پر بااثر لوگوں کے ذریعے خواتین کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کو اس پلیٹ فارم پر مقبول بنا دیا گیا ہے۔ اس میں یوٹیوب کی ان مشہور شخصیات کے بارے میں بات کی گئی ہے جنہوں نے خواتین کو دھمکیاں دی تھیں۔
سلی ڈیل اور بلی بائی ایپس کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے، جب یوٹیوب نے خواتین سے نفرت کرنے والے کچھ یو ٹیوب اکاؤنٹس کو حذف کیا تو انہوں نے نئے اکاؤنٹ بنالیے۔ عوامی ذرائع سے جمع کی گئی مسلم خواتین کی تصاویر کوسیل کے لیے پیش کیا گیا، کبھی توہین آمیز تبصرے کیے گئے اور کبھی ریپ کی بات کی گئی۔ٹیکسلا انسٹی ٹیوشن کے ایک محقق پرتیک واگھرے نے رپورٹ کے مصنّفین کو بتایا کہ یوٹیوب کوا ن اکاؤنٹس کی نگرانی اور ان پر کارروائی کرنے میں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جوایسے مہلک پیغامات پھیلاتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مرکزی حکومت کے نئے آئی ٹی ضوابط، جو اسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے مواد ہٹانے کا اختیار دیتے ہیں، ان چیلنجز کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ فیس بک یا ٹوئٹر کے مقابلے یوٹیوب کے بارے میں کم معلومات ہیں، زیادہ تر اس وجہ سے کہ فیس بک یا ٹوئٹر پوسٹ کے ٹیکسٹ ڈیٹا میں الفاظ یا فقرے تلاش کرنے کے مقابلے میں ویڈیوز کا تجزیہ کرنا مشکل اور مہنگا ہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کمپنی خود ہی اسے تقریباًجانچ نہ کیے جانے لائق بناتی ہے۔