تحریر: ڈاکٹر مبارک علی
ذات پات کا یہ رواج آریہ اپنے ساتھ لے کر آئے، جو وقت کے ساتھ مختلف شکلوں میں تشکیل پاتا رہا۔ذات پات کی بنیاد ورن پر ہے جس کا مطلب رنگ ہے۔ اس میں چار ذاتیں ہیں: برہمن، کشتری، ویش اور شودر۔ یہ چاروں ذاتیں آگے چل کر ذیلی ذاتوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔ ان ذیلی ذاتوں کی بنیاد پیشوں پر ہوتی ہے۔
جو جس ذات میں پیدا ہو جائے وہ اسی پیشے کو اختیار کرتا ہے۔ ذات کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ہر فرد کو اپنی ذات کے دھرم پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
ان چار ذاتوں سے باہر اچھوت یا دلت ذات ہے، لیکن اسے یہ چار ذاتیں ناپاک قرار دے کر ان سے دور رہتی ہیں اور یہ لوگ شہروں سے باہر اپنی آبادیوں میں رہنے پر مجبور تھے۔
بھارت کے دانشوروں اور سیاست دانوں میں یہ بحث رہی ہے کہ کیا ذات پات نے ملک کو فائدہ پہنچایا یا نقصان۔
ان میں سے ایک جماعت کا یہ نقطہ نظر ہے کہ ذات پات کی تقسیم کی وجہ سے بھارت میں کوئی طبقاتی تضاد پیدا نہیں ہوا۔ چونکہ ہر فرد اپنی ذات میں محدود رہا اس لیے ملک میں امن و امان قائم رہا اور ذات پات میں باہمی فسادات اور جھگڑے نہیں ہوئے۔
جرمن فلسفی ہیگل نے جہاں ایک طرف یہ کہا کہ انڈیا کی کوئی تاریخ نہیں ہے، وہیں اس نے ذات پات کی وجہ سے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی حکمران مطلق العنان نہیں بن سکے۔ کیوں کہ برہمن اونچی ذات ہونے کی وجہ سے ان کے اختیارات میں رکاوٹ تھے۔
لیکن دوسری جماعت کی یہ دلیل ہے کہ ذات پات نے انڈیا کی سوسائٹی کو تقسیم کیے رکھا اور چوں کہ جنگ کرنا کشتریوں کا پیشہ تھا، اس لیے یہاں حملہ آور کامیاب ہوتے رہے۔ ذات پات کی وجہ سے ملک میں قوم پرستی کے جذبات بھی نہیں آئے اور ہر ذات اپنے ہی دائرے میں محدود رہی۔
برہمنوں کے اثر و رسوخ اور رسومات کی بہتات کی وجہ سے نچلی ذاتوں پر مالی اور سماجی بوجھ بڑھتا رہا۔ ویدوں کا علم صرف برہمن ذات تک تھا۔
دوسری ذاتوں کو ویدوں کے علم کے حصول کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے اس نظام کے خلاف بدھ مت نے آواز اٹھائی مگر گپت دور حکومت میں ذاتوں کا نظام دوبارہ سے مستحکم ہو گیا اور منوسمرتی لکھے جانے کے بعد ذات پات کے قوانین اور بھی زیادہ مضبوط ہو گئے۔
ہندوستان میں جب مغربی اقوام نے آنا شروع کیا تو یہاں آکر ذات پات کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ موریا خاندان کے دور حکومت میں یونانی مورخ میگھستنیز نے یہاں سات ذاتوں کا ذکر کیا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
پرتگیزیوں نے سب سے پہلے ذات پات کے لیے ‘کاسٹ‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ بعد میں آنے والے ڈچ، فرانسی اور انگریز تھے، جنہوں نے ذات پات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔
اس موضوع پر نکولاس ڈیرکس کی کتاب ‘کاسٹس آف مائنڈ‘ ایک اہم تحقیق ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ انگریزی حکومت سے پہلے ذات پات کی شناخت چھپی ہوئی تھی اور لوگ اس سلسلے میں حساس نہیں تھے۔ لیکن انگریز حکومت کے لیے یہ ضروری تھا کہ انتظامی وجوہات کی خاطر ذات پات کے نظام کو سمجھے۔ چنانچہ حکومت نے تاریخ علم بشریات، نسلیات کی بنیاد پر اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیے۔
ایک کوشش تو یہ کی گئی کہ مختلف ذاتوں کے افراد کی پینٹنگز تیار کرائی جائیں، جو ان کے لباس اور ان کی پوری جسمانی حالت میں تھی۔ ان میں سے بعض پینٹنگز کے پس منظر میں کھنڈرات بھی دکھائے گئے، تاکہ اس کے ذریعے ماضی کو محفوظ کیا جا سکے۔
اس کے بعد ہر علاقے کے گزٹیئرز لکھوائے گئے جن میں ذاتوں اور قبائل کی تاریخ اور رسم و رواج کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی عہدیداروں نے مختلف رپورٹوں میں ذاتوں اور قبائل کے بارے میں اہم معلومات اکٹھی کیں۔
ذات پات کی شناخت اور اس کا مسئلہ اس وقت ابھر کر آیا جب سن 1771 میں پہلی مردم شماری ہوئی۔ اس میں ذات کا خانہ بھی موجود تھا اور ہر دس سال بعد ہونے والی مردم شماری میں ذات کا یہ اندراج ہوتا رہا۔ اس نے ذات پات کی شناخت کو ابھارا اور ہر فرد اپنی ذات کے بارے میں حساس ہو گیا۔
تب تک انگریزی حکومت کی جانب سے بھارت میں مسیحی مشنریز کو تبلیغ کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم سن 1813 میں ایونجلیکل فرقے نے برطانوی پارلیمنٹ کو مجبور کیا کہ وہ مسیحی مشنریز کو ہندوستان جانے کی اجازت دیں۔
چنانچہ یہ مشنریز یہاں آئیں اور مسیحیت کی تبلیغ شروع کی تو ہندوستان کے لوگوں کو یہ ڈر ہوا کہ حکومت ان کا مذہب بدلنا چاہتی ہے۔ جب سن 1857 میں کارتوسوں کا واقعہ پیش آیا، جن کے بارے میں یہ تھا کہ ان میں گائے اور سور کی چربی استعمال ہوئی ہے، تو اس کے نتیجے میں بغاوت ہوئی۔ 1857ء کے بعد بھی مشنریوں کی تبلیغ کی وجہ سے لوگوں میں اپنی مذہبی شناخت کا جذبہ مضبوط ہوتا گیا۔
جب مناظروں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس نے مزید مذہبی شناختوں کو ابھارا۔ لہٰذا ڈیرک کی دلیل ہے کہ انگریزی دور حکومت میں ذات پات کو ایک نئی زندگی ملی اور ہندو سوسائٹی میں ذات پات کی شناخت اور تقسیم بڑھتی رہی۔ انگریزی حکومت کو اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اس کی وجہ سے ان کے خلاف قوم پرستی کی تحریک نہیں اٹھی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ذاتوں کا اتحاد ہوا۔
ذات پات کے اس شعور نے شمالی اور جنوبی ہندوستان کے درمیان تضادات کو پیدا کیا۔ جنوبی ہندوستان نے برہمنوں اور آریا نسلوں کے خلاف تحریکیں اٹھیں اور ان میں دراوڑی نسل پر فخر کیا گیا اور برہمنوں پر سخت تنقید کی گئی کہ انہوں نے نچلی ذاتوں کو عزت اور وقار سے محروم کرکے غیر انسانی بنا دیا ہے۔ انہیں نہ تو ان کے مندروں میں جانے کی اجازت ہے نہ ہی وہ ان کے ساتھ وہ میل جول رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہوتے ہیں۔
انہوں نے مہابھارت اور رمائن کو آریائی تہذیب کا تسلط قرار دیا۔ اس لیے جنوب میں رام کے بجائے ان کا ہیرو راون ہے۔ لہٰذا دراوڑی تحریک نے برہمن ازم کی تاریخ کو الٹ کر رکھ دیا اور اپنی نئی شناخت کو ابھار کر توانائی حاصل کی۔ ذات پات کی وجہ سے ایک اہم تبدیلی ہندوستان کی سیاست میں یہ آئی۔
دلت ذات کے رہنما ڈاکٹر امبیڈکر نے اس تحریک کا آغاز کیا کہ دلت ذات کے لوگوں کو بنیادی حقوق دیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی طرح دلت ذات کو بھی جداگانہ انتخابات کا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنے نمائندے منتخب کر سکیں۔
گاندھی جی نے اس پر سخت احتجاج کیا، کیونکہ وہ ہندو مت میں ذات پات کے نظام کے قائل تھے اور جو جس ذات میں ہے اس کے اسی میں رہنے پر یقین رکھتے تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے اس مطالبے کی مخالفت میں انہوں نے مرن برت رکھ لیا۔
اس پر ڈاکٹر امبیڈکر پر دباؤ بڑھا کہ وہ اپنے مطالبے سے دست بردار ہو جائیں۔ اس پر انہوں نے ایک بار یہ بھی کہا کہ اگر گاندھی جی ایک بار میرے ساتھ کھانا کھالیں تو میں یہ مطالبہ چھوڑ دوں گا۔
مگر بالآخر ڈاکٹر امبیڈکر کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ گاندھی جی سے مل کر کوئی راستہ نکالیں۔ چنانچہ پونا معاہدے کے تحت سن 1932 میں یہ قرار پایا کہ دلت ذات کے لوگوں کے لیے ریزرویشن میں زیادہ نشستیں کر دی جائیں گی۔
آخر میں ڈاکٹر امبیڈکر اس پر مایوس ہو کر گئے کہ ہندومت میں رہتے ہوئے دلت ذات کے لوگوں کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے۔ اس لیے انہوں نے اپنے تین سو ساتھیوں سمیت بدھ مت کو اختیار کر لیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ہندو دیوتاؤں کو گھر سے باہر پھینک دیں۔
ڈاکٹر امبیڈکر بھارت کا دستور لکھنے والوں میں سے ہیں۔ جس میں انہوں نے کوشش کی ہے کہ تمام لوگوں کو برابر کے حقوق دیئے جائیں، لیکن عملی طورپر اب بھی بھارت میں دلت ذات کے ساتھ تعصب کر برتاؤ ہوتا ہے۔ خاص طور سے گاؤں اور دیہاتوں میں ان کے کنوئیں علیحدہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ سیاست کی وجہ سے کچھ تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن اب بھی ذات پات کا یہ تاثر جاری ہے۔
جب 2001ء کی مردم شماری میں ذات کا خانہ رکھا گیا تو اس پر سخت احتجاج کیا گیا کہ یہ انگریزی دور کا ورثہ ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ دلت ذات میں سیاسی شعور پیدا ہو گیا ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔ ان کا دانشور طبقہ اپنی تحریروں کے ذریعے ایک نئے شعور کو پیدا کر رہا ہے۔ لیکن ذات پات کی یہ روایات اور تعصبات جو ہزاروں برس سے واضح ہیں، ان کو ختم کرنے میں بھی کافی وقت درکار ہو گا۔
حال ہی میں ارون دتی رائے نے ڈاکٹر امبیڈکر کی کتاب ‘انائیلیشن آف دی کاسٹس‘ یا ‘ذات پات کے نظام کا خاتمہ‘ ایک طویل تعارف کے ساتھ دوبارہ شائع کی ہے۔ امبیڈکر نے یہ کتاب اپنے خرچے سے شائع کرائی تھی اور پھر اس کا دوسرا ایڈیشن نہیں چھپا تھا۔
ارون دتی رائے نے تعارف کا عنوان رکھا ہے ‘ڈاکٹر اینڈ دی سینٹ‘یعنی ڈاکٹر امبیڈکر اور گاندھی جی۔ اس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ امبیڈکر کی شخصیت سے زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا بھارت میں ذات پات کی یہ جنگ ابھی جاری ہے۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)