تحریر: ڈاکٹر مبارک علی
روبینہ سہگل نے اپنی کتاب ‘قومیت، تعلیم اور شناخت‘ میں نشاندہی کی ہے کہ نصابی کتب ریاست کے نظریات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر ریاست مذہبی، آمرانہ یا اشتراکی ہو تو ان تمام حالات میں ریاست کے نظریے کا دفاع کیا جاتا ہے۔ قوم پرستی کے نام پر تاریخ کے وہ حوالے، جن سے ریاست کے جرائم کی عکاسی ہوتی ہے، انہیں یا تو حذف کر دیا جاتا ہے یا مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ نصابی کتابوں کی اہمیت یہ ہے کہ نوجوان نسل کو اچھا شہری بنایا جائے اور اس کے اخلاقی کردار کی تشکیل کی جائے۔
یہاں ہم لورا ای اور مارک سیلڈن کی کتاب ‘سینسرنگ ہسٹری پریسپیکٹیوز آن نیشنلزم اینڈ وار ان دا ٹوینٹیتھ سینچری‘ کا ذکر کریں گے۔ اس کتاب میں جائزہ لیا گیا ہے کہ بیسوی صدی میں ہونے والی جنگوں کو قوم پرستی کے نام پر کس طرح سینسر کیا گیا۔ اس میں دو ممالک خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ جاپان اور امریکہ، ان دونوں ملکوں نے، جو مختلف جنگوں میں ملوث رہے، اپنی نصابی کتب میں اپنے جنگی جرائم کا یا تو ذکر ہی نہیں کیا یا اُن کو جائز ثابت کر کے خود کو جرائم سے آزاد کر لیا۔
جب جاپان نے 1936 میں چین پر حملہ کیا تو اُس نے شہروں پر قبضے کے بعد نہ صرف لوٹ مار کی بلکہ شہریوں کا قتل عام کیا۔ عورتوں کی آبرو ریزی کی اور خاص طور سے عام شہریوں کو درندگی کے ساتھ قتل کیا۔ اُن کی لاشیں فٹ پاتھوں پر پڑیں رہیں۔ قتل عام کی یہ تصاویر ایک روسی سفارت کار نے کھینچ کر محفوظ کر لیں۔ یہی ظالمانہ رویہ فلپائن اور جنوبی کوریا میں اختیار کیا گیا۔ جنوبی کوریا میں خاص طور سے فوجی علاقوں کو جاپانی فوجیوں نے جنسی خواہشات پورا کرنے کے لیے استعمال کیا اور ان عورتوں کو ‘کمفرٹ وویمن‘ کہا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد، جب جاپان میں نئی نصابی کتابیں لکھی گئیں تو اُن میں جنگی جرائم کا ذکر نہیں تھا بلکہ جاپانی حکومت نے یہ موقف اختیار کیا کہ انہوں نے یہ جنگیں اس لیے لڑیں تھیں تاکہ جنوب مشرق کے ملکوں کو آزاد کرایا جائے۔ جب جنوبی کوریا اور چین کی جانب سے ان نصابی کتابوں پر احتجاج ہوا تو جاپانی حکومت نے کئی دلیلیں دے کر جرائم سے انکار کیا مثلاً ’کمفرٹ ویمن‘ کو طوائفیں قرار دیا گیا۔ لیکن جب یہ طوائفیں باہر نکل آئیں اور جاپان کے خلاف مظاہرے کیے گئے تو اوّل جاپان نے یہ اعلان کیا کہ وہ ان کو معاوضہ ادا کرے گا۔ لیکن جب معاوضے کی رقم زیادہ ہوئی تو اس سے انکار کر دیا گیا۔
اسی طرح سے جاپانی حکومت نے عام شہریوں کے قتل عام اور چینی عورتوں کی آبرو ریزی سے بھی انکار کیا۔ لیکن جب بین الاقوامی طور پر جاپان پر دباؤ ڈالا گیا تو اس نے بہت احتیاط کے ساتھ چند سطروں میں ان جرائم کو قبول کیا۔ جاپان میں نصابی کتابوں کو وزرات تعلیم اور کلچر ایک ایک سطر پڑھ کر ان کو شائع کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس لیے خاص طور پر کوریا کے مورخ جاپان کی نصابی کتابوں سے مطمئن نہیں تھے اور اُن کا اسرار تھا کہ جاپان نے کوریا میں، جو جنگی جرائم کئے ہیں، اُن کا ذکر نصابی کتابوں میں آنا چاہیے۔
دوسرا اہم ملک امریکہ ہے، جو ویتنام کی جنگ میں ملوث رہا اور اس جنگ میں اس نے تمام مہلک ہتھیار اور زہریلی گیسوں کا استعمال کیا۔ اس کی ایک مثال ویتنامی لڑکی کی وہ برہنہ تصویر ہے، جو گیس میں جھلسنے کے بعد سٹرک پر بھاگی تھی۔ یہ تصویر دنیا بھر میں مشہور ہوئی اور امریکہ کے ‘جنگی جرائم‘ کو سامنے لائی۔
لیکن امریکہ ان ‘جنگی جرائم‘ کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ جنگ اُس نے امن کی خاطر لڑی تھی تاکہ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کو کمیونزم س بچایا جائے۔ امریکہ کی نصابی کتابیں قومی جذبات سے بھری ہوئیں ہیں۔ ان میں امریکہ کی شان و شوکت اُس کی برتری اور قوم پرستی کے ذریعے نوجوان نسل کے ذہنوں کو تشکیل کیا جاتا ہے۔ ان نصابی کتابوں میں ویتنام کی جنگ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
لہٰذا امریکی نوجوان طلبہ ان تمام جرائم سے نہ واقف رہتے ہیں، جو امریکہ نے ویتنام میں کیے تھے۔ اگر نصابی کتابوں میں تاریخی حقائق سے گریز کیا جائے اور قومیں اپنی غلطیوں اور جرائم کو چھپائیں تو اس صورت میں معاشرہ گمراہی کا شکار رہتا ہے۔ نصابی کتابوں کے بارے میں یہ صورت حال ان دو ملکوں ہی کی نہیں بلکہ اس میں اور کئی ممالک بھی شریک ہیں، جو تاریخ کو مسخ کر کے نوجوان نسل کے ذہنوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی نصابی کتب اسی صورتحال سے دو چار ہیں اور اس وجہ سے نوجوان نسل میں کوئی تاریخی شعور نہیں ہے۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)