تحریر: مبارک کاپڑی
کورونا وائرس کی ابتلاء ایک جسمانی وباء ہے۔وہ ہمارے ذہنوں پر کیونکر اثر انداز ہوسکتی ہے؟ ہم اپنی منزل سے کیسے بھٹک سکتے ہیں؟ اب اس ضمن میں ہمیں اعلیٰ درجے کی بصیرت سے کام لینا ہے۔
’اے اسکول تیرے بغیر……‘
خوردبینی جرثومہ کووِڈ-19 نے عالمی سطح پر ناقابلِ تصور حد تک تباہی مچادی۔ سارے نظام تہہ و بالا ہوچکے۔ لاکھوں افراد لقمہ اجل ہوگئے، اب سب کے اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں البتہ اس وبا کی بناء پر ڈر، خوف، بے یقینی سمیت جو اَن گنت ذہنی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں اُن کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہورہا ہے۔ کووِڈ کے حالات اور لاک ڈاؤن کے کربناک ڈیڑھ سال میں کچھ بڑے ہی ہولناک نتائج کے حامل خیالات و مفروضات جنم لے چکے ہیں، اِن میں سے چندکا جائزہ لے رہے ہیں:۔
ہمیں سب سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ کسی بھی مفروضے کے تخلیق کار والدین ہوتے ہیں، والدین چاہتے بھی ہیں کہ اُن کے بچے اُن مفروضات کے وارث بن جائیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ لگ بھگ دو سال کے وائرس و لاک ڈاؤن کے دَور میں (۱) تعلیمی ادارے مکمل بند رہے (۲) درس و تدریس کے متبادل نظام یعنی آن لائن کلاسوں میں کہیں بھی طلبہ کی حاضری پچاس فیصد سے زائد نہیں رہی (۳) والدین کی اکثریت نے آن لائن تعلیم کے حصول کے لیے ضروری اسمارٹ فون، وائی فائی وغیرہ کی ضرورت پر سنجیدگی نہیں برتی(۴)والدین کی ایک بڑی اکثریت اس پر مطمئن بلکہ خوش بھی ہوئی کہ اب اسکول کی فیس دینے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ (۵) والدین کی اس اکثریت نے یہ نہیں سوچا کہ تعلیمی اداروں کے بند ہونے سے اُن کے بچّوں کی تعلیم کا کتنا نقصان ہوا۔ وہ محض اِ س بات پر خوش ہوگئے کہ اُن کی فیس کی رقم بچے گی (۶) اس پر تحقیق تو یقینا ہونی چاہئے کہ اپنے بچّوں کا کریئر تباہ ہونے پر افسوس کرنے کے بجائے اسکولوں کی فیس ادا نہ کرنے پر خوش ہونے کی یہ ذہنیت ہمارے یہاں آخر کیسے پیدا ہوگئی؟
کورونا وائرس کی وبا لگ بھگ رُخصت پذیر ہے البتّہ ہمارے معاشرے کے والدین (اور اُنہی کے انداز میں سوچنے والے طلبہ) کے ذہن پر ایک نیاوائرس قبضہ کر چکا ہے اور وہ یہ خیال ہے کہ ڈیڑھ سال سے ہمارے بچے اسکول ؍کالج نہیں گئے، اس لیے اُن کا یا ہمارا کیا بگڑا؟ آئندہ بھی اگر وہ تعلیم سے ناطہ توڑے رہیں گے تو کیا بگڑے گا؟ جی ہاں کورونا کے بعد یہ ہوا کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر کسی نوکری، ملازمت اور کاروبار سے جُڑ جانے کا خواب دیکھا جانے لگاہے؟ارے بھئی کیسے ممکن ہے یہ؟ علم و تعلیم بیزاری کی بناء پر پوری قوم اُس کا خمیازہ عالمی سطح پر بھگت رہی ہے۔ پتہ نہیں کیوں اور کیسے یہ ذہنیت ہمارے یہاں پنپتے نظر آرہی ہے کہ ایس ایس سی کے بعد چار چھ سال والے کسی مضبوط کریئر پر توجّہ دینے کے بجائے ہی سوچا جارہا ہے کہ ہر روز دِن کے آخر میں پانچ سو یا ہزار روپئے آجائیں اور چولہا جلتا رہے۔ اب ہمارے نوجوانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ گھر کے چولہے کا ایندھن بننے سے انکار کردیں۔ اُنھیں یاد یہ رکھنا ہے کہ زندگی میں آسان راستے بڑے جاذب لگتے ہیں اور دلفریب بھی مگر وہ زندگی ہی کیا جس میں جدّوجہد نہ ہو۔ کورونا نے ذہن پر یہ اثر بھی ڈالا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ’فریب‘ سے نکل کر جھٹ پٹ کاروبار کئے جائیں۔ اسی ذہنیت کے تحت ہمارے یہاں اب تک گیرج، کباڑی کی دکانیں، پاورلوم اور فٹ پاتھ کے بزنس وجود میں آتے گئے۔ اور ہماری قوم کارپوریٹ و جدید کاروبار سے محروم ہوتے گئے۔ روزانہ کی کمائی اور 9بجے سے5بجے والے جاب کی ذہنیت پروان چڑھتی گئی۔ اس طرح ہماری قوم کی برسوں بلکہ صدیوں پُرانی ریسرچ و تحقیق کی روایت کہیں بالکل کھوگئی مگر نوجوانو! اب نہیں، اب ہرگز آپ کو ”اے اسکول تیرے بغیر“ کا تباہ کن تجربہ نہیں کرنا ہے۔ کورونا وائرس یا کوئی بھی وبا اس قدر طاقتور کیسے بن سکتی ہے کہ ایک قوم کا ایجنڈا ہی تبدیل کردے؟ اُس کی منزل گرداب یا بھنورمیں پھنس جائے؟ نوجوانو! آپ کے والدین کچھ زیادہ ہی عجلت میں ہیں مگر اب آپ کو بے پناہ صبر اور اعلیٰ درجے کی بصیرت کا مظاہر کرنا ہے۔ جسمانی قوتِ مدافعت کی بحالی کے لیے ویکسین وجود میں آئے بھی ہیں البتہ بے حوصلگی،پست ہمتی، احساسِ کمتری اور غیر دُور اندیشی کی ذہنی بیماریوں کے لیے کوئی بھی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔
’ہمیں کسی کا احسان نہیں چاہئے‘
لفظ ’خودی‘ کی تشریح میں لُغت بھی انصاف نہیں کرپاتی۔ نہ جانے کس بناء پر وہ اُسے انانیت، غرور، تکبّر اور خود غرضی سے تعبیر کرتی ہے۔ دراصل خودی کی اصل تشریح صرف اقبال کے کلام میں ملتی ہے۔ اسرار خودی کے دیباچہ میں وہ رقم طراز ہیں کہ خودی کا مطلب ہے عرفانِ نفس اور خودشناسی۔ اس کا ادراک ہمارے معاشرے میں نہ ہونے کی بناء پر لوگ خودی کے نام پر اکثر حماقتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم مثال دینا چاہیں گے اعلیٰ تعلیم دلانے کے عمل میں ہمارے رویّے کی۔ ہماری قوم میں اس کے لیے چونکہ بجٹ اور بچت کا کوئی تصوّر نہیں اس لیے اگر کسی بچّے کے اعلیٰ کورس کے لیے بالغرض ایک لاکھ روپے کی ضرورت آن پڑی اب اتنی بڑی رقم کی اُمّید کسی ٹرسٹ، کسی ادارہ یا کسی فرد سے بھی نہیں رکھی جاسکتی۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ دس عزیز واقارب یا رشتہ داروں کی فہرست تیار کی جائے جن سے دس دس ہزار روپے کی قرضِ حسنہ کی مدد مل سکے۔ اب یہاں بنیادی طور پر یہ مفروضات آڑے آتے ہیں:
(۱)ہم کیوں کسی سے مانگیں؟ (بچّوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جو سنہرہ موقع فراہم ہوا ہے، اُس سے استفادہ کرنے کے لیے کسی سے مدد مانگنے میں کیاقباحت ہے؟)
(۲)ہم کیوں کسی کا احسان لیں؟ (جسے احسان کہا جاتا ہے، دراصل وہ ایک سماجی ضرورت ہے۔ آخر سماج بناہی اس لیے ہے)
(۳) لوگ اپنا احسان جتائیں گے (اس میں کیا قباحت ہے۔ آخر آپ چھپانا کیوں چاہتے ہیں کہ کسی نے آپ کی مدد کی ہے
(۴) مگر احسان؟ (سماج میں ہمیشہ کسی نہ کسی کا احسان لینا ہی پڑتا ہے۔”ہمیں کسی کا احسان نہیں چاہئیے“ یہ بات بڑے طمطراق سے کہنے والے افراد بھی اپنی زندگی کا آخری سفر چار افراد کے کندھوں پر طے کرتے ہیں اور اُن کندھوں کا احسان و ہ کبھی ادا نہیں کرپاتے)
(۵)کسی کے مدد کے احسان آخر پھر اداکیسے ہوں گے؟ (ہر وقت یہ یاد رکھیں کہ ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہے، یہ نیت رکھنے سے وہ احسان ادا ہوجائیں گے)
اپنا علم، اپنی نعمتیں آپس میں بانٹنے اور بانٹتے رہنا سماجیات و عِمرانیات کا حصّہ ہے۔ خودی، خودداری کی غلط تشریح کرنے والے اس کو سمجھیں، خصوصاً ہمارے معاشرے میں علم کے پھیلاؤ کے لیے!
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)