پریم کمار
طالبان کی تعریف کرنا غداری ہے ، دہشت گردی یا بنیاد پرستی کی حمایت کرنا ہے ؟ کیا ایسا کرنے والوں کو ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں ہے؟ اس کے برعکس سوال ہے کہ طالبان کی مخالفت کئے بغیر کیا کوئی دیش بھکت نہیں ہوسکتا یا پھر دہشت گردی یا بنیاد پرستی کی مخالفت نہیں ہو سکتی یا پھر جمہوریت اور ترقی پسند نہیں ہوسکتا؟ دونوں سوالات کو ملا کر دیکھیں تو طالبان پر ہماری سمجھ ہی کیا ہمیں لائق یا نالائق بنائے گی۔
اقوام متحدہ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ طالبان پر پابندی جاری رہے گی، لیکن اسے دہشت گرد تنظیم کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ یہ ایک ملک کے سیاسی نظام میں ایک سرگرم شریک ہے ۔
آسٹریلیا نے اقوام متحدہ کی اس نظریے کی کھل کر حمایت کی ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ ہندوستان اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا عارضی صدر ہے۔
سلامتی کونسل کے مستقل اراکین ، یعنی ویٹو پاور رکھنے والے ممالک طالبان کو لے کر بنٹے ہوئے ہیں ۔ روس اور چین افغانستان میں اپنے قونصل خانہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور دونوں نے طالبان کی حکمرانی کو تسلیم کرنے میں یورپی یونین اور امریکہ کا پورا تعاون ہے ۔
طالبان سے لگاتار بات چیت کے بعد ہی امریکی فوج نے افغانستان چھوڑا ہے۔ خود بھارتیہ حکومت تو رسمی مذاکرات کا حصہ نہیں رہی لیکن وزیر خارجہ ایس جے شنکر طالبان کے رابطہ میں رہے ہیں۔
طالبان سے رابطے میں نہیں ہیں تو وہ کسی بھی ملک کے عام لوگ ہیں۔ پھر بھی طالبان کے نام پر دنیا میں یہی لوگ تقسیم ہیں اور آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ طالبان کی حمایت یا مخالفت کی بحث بھارت میں ایک بڑا سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس بحث کے دوران ٹیلی ویژن چینلز پر دیش بھکتی اور غدار کی تعریفیں کی جارہی ہیں۔
افغانستان کی صورت حال یہ سوچنے کو بھی مجبور کرتی ہے کہ مذہب کے نام پر جب جب سیاست آگے بڑھتی ہے تو اس کا خمیازہ عام لوگ کو ہی بھگتنا پڑتا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات پر غوری کریں کہ ہمارے ملک کی سیاست کو بھی مذہب کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ انتخابی منشور میں رام مندر کی جگہ بنے یا اقلیتوں کو لبھایاجائے یا پھر مذہب کی بنیاد پر سی اےاے قانون بنایا جائے۔ سیاستمیں مذہب کی دخل اندازی کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہوسکتے ۔
عراق پر امریکی حملے ہوئے۔ عراق کے صدر کو مقدمہ چلاکر پھانسی دے دی گئی۔ ان پر کیمیائی ہتھیار رکھنے کے الزام لگائے گئے۔ مگر بعد میں معلوم چلا کہ ایسا کوئی ذخیرہ عراق نے جمع نہیں کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ صدام حسین کو دی گئی پھانسی کی بنیاد ہی غلط ثابت ہوگئی۔
طالبان افغانستان پر قبضہ کرتا ہے تو یہ خانہ جنگی کی مثال ہے، لیکن اگر امریکہ افغانستان کو تباہ کر طالبان حکومت کی جگہ اپنی ہٹ دھرم سرکار قائم کرتاہے تو یہ خانہ جنگی نہیں،ایک خود مختار ملک میں غیر ملکی مداخلت ہے ۔ کیا یہ مداخلت کسی دہشت گردی سے کم ہے؟
طالبان غلط ہے، خواتین مخالف ہے یا قدامت پسند ہے تو اس کی مخالفت مقامی لوگ کو کرنے دیاجانا چاہئے۔ طالبان کے خلاف عوام کی جد وجہد کی حمایت بھی کی جاسکتی ہے۔ طالبان کو غلط بھی ٹھہرایا جاسکتاہے۔
اگر ایسی سوچ کسی دوسرے ملک میں دیش بھکتی اور قوم پرستی کا تعین کیسے طے ہوسکتا ہے ؟ ہندوستان کے لوگوں کو طالبان اور افغانستان کے تناظر میں سنجیدگی میں اس موضوع پر سوچناہوگا۔