تحریر:زینب سکندر
اپنے من کی بات کہہ ڈالنے کو کیا بھارت میںکوئی اہمیت دی جاتی ہے؟ اس سوال پر ذرا گہرائی سے سوچئے ۔ آپ اپنا نظریہ کھول کر ایسے کیسےظاہر کریں کہ آپ کے خلاف ایف آئی آر نہ درج ہو یا آپ گرفتار نہ کرلئے جائیں یاسرکاری عملہ آپ کے گھر پر بلڈوزر نہ چلا دے ؟
مسلم اسٹینڈ اپ کامیڈین نے ان سب سے بچنے کے لیے ایک مختلف طریقہ تلاش کیا ہے- – خود اپنے پر طنز کسنا۔ بڑھتے ہوئے تعصبات کا جواب دینے اور دقیانوسی تصورات کو توڑنے کے لیے وہ خود کو ہی قصوں وکہانی کا سہارلے کر اپنی تذلیل کر رہے ہیں۔ جس انداز میں وہ خود اپنے المیے کو مزاحیہ انداز میں بیان کرتے ہیں اس سے سامعین میں ان کے لیے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
فارمولا کیا ہے
اس حوالے سے بہترین مثال منور فاروقی ہیں۔ انہیں اندور میں ان لطیفوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا جو وہ اپنے شو میں پیش کرنے والے تھے۔ ان کے اپنے آپ پر طنز کرنے والے لطیفوں کی ویڈیوز، خاص طور پر مسلمان ہونے کی وجہ سے، اس قدر مقبول ہوئیں کہ انہیں ایک ایسا رئیلٹی شو کرنے کی ذمہ داری ملی جو بہت سیاسی طور پر مبنی تھا۔
’لاک اپ‘ کے عنوان سے ان کے اس شو میں، بائیں اور دائیںمقابلہ کرنے والے ایک جیلر کی جیل میں قیدی ہیں جس کی جیلر کنگنا رناوت ہے، جو دائیں بازو کی جماعت کی پسندیدہ ہے۔ درحقیقت، رناوت پورے شو میں منور کی تعریف کرتے نظر آتی ہیں کیونکہ وہ مستند اور مسابقتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ منور اپنا مذاق اڑاتے ہیں اور سامعین کے ایک بہت بڑے گروپ کا دل جیت لیتے ہیں، جو شاید اس سے ناراض تھے۔
زیادہ تر مسلم کامیڈین ایک ہی فارمولہ استعمال کر رہے ہیں: اپنا مذاق اڑا کر اپنی برادری کے خلاف تعصبات کو سامنے لاؤ۔ عروج اشفاق، رحمان خان، محمد انس، حسیب خان، عباس مومن، محمد حسین، اور بہت سارے فنکار اس ’اسلامو فوبیا‘کا جواب دیتے ہیں جس کا سامنا مسلمانوں کو اکثر براہ راست نفرت اور جھوٹ کے ذریعے کرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ اپنی زندگی کے ایک واقعے کے ذریعے خود پر ہنس کر ایسا کرتے ہیں۔ یہ کہانی کے انداز میں ہے لیکن یہ تعصب کے انتہائی قریبی حالات کے بارے میں ہے جن کا انہوں نے سامنا کرچکے ہیں۔
کوئی بھی موضوع اچھوتا نہیں چھوڑا جاتا۔ یہ مزاح نگار جن دقیانوسی تصورات کا جواب دے رہے ہیں ان میں وہ دقیانوسی تصورات ہیں جو سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے تخلیق کیے گئے ہیں کہ مدارس میں پڑھنے والے نوجوان دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو رہے ہیں۔ کہ مسلمان صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ کہ وہ اپنی بہن سے بھی شادی کر لیتےہیں۔ کہ وہ قوم پرست یا محب وطن نہیں ہیں۔ کہ وہ ویکسین کی مخالفت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
درست لطیفے
رحمان خان کا ایک لطیفہ شاید ہر ہندوستانی کو سمجھ میں آئے گا، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں اسے دیکھا یا سنا ہوگا۔ وہ ایک گلی کی دکان پر دوستوں کے ساتھ پاک بھارت کرکٹ میچ دیکھنے کی کہانی بیان کرتا ہے۔ جب بھی کوئی پاکستانی بلے باز ظہیر خان یا یوسف پٹھان کی گیند پر باؤنڈری مارتا ہے تو دکاندار چیختا ہے- ’ابے کٹو…‘(ایک گالی جو ختنہ کرا چکےمسلمان کے لئے استعمال کی جاتی ہے ) رحمان کہتے ہیں کہ ہر بار انہیں کتنابرا لگتاہے ۔ ساتھ بیٹھا شائقین ان سے کہتا ہے ، تم اتنے پریشان کیوں ہو رہے ہو، دیکھو میں بھی ’ کٹ….‘ ہوں۔
عروج اشفاق نے بھی ایسے ہی ایک تجربے کا ذکر کیا کہ اوبر ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے انہوں نے اس کے ڈرائیور سے پوچھا کہ اس سے پہلے تین اوبر ڈرائیوروں نے ان کی بکنگ کیوں رد کر دی تھی۔؟ ڈرائیور نے جو انہیں ان کے گھر ڈراپ کرنے جا رہا تھا، جواب دیا کہ وہ سب ضرور مسلمان رہے ہوں گے، سارے مسلمان چور ہوتے ہیں۔
کافی مقبول انشول سکسینہ نے ، جو سیاسی واقعات پر باریک نظر رکھتے ہیں ،بتایا کہ مشہور اسٹینڈ اپ آرٹسٹ کنال کمار نے کس طرح اپنے پرانے ٹوئٹس کو ڈیلٹ کر دیا کیونکہ پیغمبر محمد ؐ کے بارے میں ٹی وی پر نوپورشرما کے قابل اعتراض بیان کے بعد اقلیتی جماعت ان سے ناراض ہو سکتی ہے ۔
جہاں ممتاز مسلم شخصیات خاموش ہیں، صرف مسلم اسٹینڈ اپ فنکاروں کو اس دور کے گمنام ہیروز میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
کسی اور کا نہیں بلکہ اپنا مذاق اڑاتے یہ فنکار ہی سامعین کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے مسائل بیان کر رہے ہیں۔ یہ فنکار ’سسٹم‘ کو بے نقاب کرنے کے لیے خود کو احمق کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ ان کے خیالات اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ وہ انہیں دوسرے مواقع پر غیر متوقع مشکلات میں ڈال سکتے ہیں۔
اس لحاظ سے وہ شیکسپیئر کے ڈراموں کے بے وقوف کرداروں کی طرح ہیں، حالانکہ طنز انتقامی کارروائی سے ڈھال نہیں ہو سکتا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے ’کنگ لیئر‘ میں بادشاہ کی مخالفت کرنے والا احمق کردار کہتا ہے، ‘’وہ مجھے سچ بولنے پر کوڑے ماریں گے، آپ مجھے جھوٹ بولنے کی سزا دیں گے، اور بعض اوقات مجھے خاموش رہنے پر کوڑے بھی مارے جاتے ہیں۔‘
(بشکریہ: دی پرنٹ :یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)