تحریر:خان سمیع اللہ
اب مہاراشٹر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے بی جے پی نے راج ٹھاکرے کو میدان میں اتارا ہے، عین رمضان کی شروعات ہوتے ہی راج ٹھاکرے نے مساجد اور مدارس کے خلاف جس طرح کا فسادی بیان جاری کرکے ہندوؤں کو ان اسلامی مراکز پر حملے کے لیے اکسایا ہے وہ بدترین مجرمانہ حرکت ہے۔ راج ٹھاکرے نے مہاراشٹر کی مساجد کے سامنے ہنومان چالیسا کی اپیل کی ہے اور ممبئی کے مدارس کو بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے ان پر چھاپے مارنے کا مطالبہ کیا ہے، ان لوگوں کو اب مہاراشٹر میں مسلمانوں کےخلاف یوپی اور کرناٹک جیسی نفرت پھیلانی ہے، مہاراشٹر کا پرسکون ماحول انہیں پسند نہیں ہے۔
راج ٹھاکرے مہاراشٹر کے سب سے ناکام سیاستدان ہیں، البتہ تقریر اور زبان پر قدرت ہونے کی وجہ سے مراٹھی عوام میں زیادہ سنے جانے والے اشتعال انگیز مقررین میں سے ایک ہیں، ایسے ناکام اور اشتعال انگیز لوگ جب نفرت پھیلاتے ہیں تو ردعمل کے نتیجے میں عام انسان شکار ہوجاتےہیں مہاراشٹر کی ذمہ دار مسلم شخصیات کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے، اور راج ٹھاکرے کی بڑھتی ہوئی نفرت انگیز سیاست کو روکنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
بی جے پی کو مہاراشٹر میں سب کچھ کرنے کےباوجود زندگی نہیں مل پارہی تو بالآخر وہ اپنی اوقات پر آگئی ہے اور کرائے دار سیاستدان راج ٹھاکرے کو نفرت کا علمبردار بنایاہے البتہ ابھی اگر اعلیٰ سطحی وفود کے ذریعے مہاراشٹر سرکار کے وزراء سے ملاقاتیں کی جائیں، ممبئی میں مراٹھا۔مسلم مشترکہ شخصیات کےذریعے میڈیا کانفرنس کےذریعے جواب دیاجائے، پولیس اسٹیشنوں میں مقدمات کرکے دباؤ بنایا جائے، اور ہر ضلع میں مسلمان، دیگر طبقات کے مراٹھیوں کو ساتھ لے کر کلکٹر وغیرہ سے راج ٹھاکرے کےخلاف ملاقات کریں تو اس سے زندگی اور بیداری کا ثبوت ملے گا، اور یقیناً راج ٹھاکرے کو بھی اندازہ ہوگا کہ بی جے پی کی بی-ٹیم بن کر نفرت پھیلانا مہاراشٹر میں کامیاب نہیں ہوگا اور دیگر نفرت کے پجاریوں کو بھی ایک ٹھوس پیغام جائےگا، لیکن اگر اتنی خطرناک اشتعال انگیزی کرنے والوں کو بھی یونہی آوارہ سانڈوں کی طرح چھوڑ دیاگیا تو لازمی طورپر نفرت پھیلے گی بھی، مؤثر بھی ہوگی اور نقصاندہ بھی ہوسکتی ہے۔
مہاراشٹر میں نفرت پھیلانا اتنا آسان نہیں ہے، مہاراشٹر کے لوگ جلدی ہندو-مسلم اور مندر بنام مسجد کی فسادی سیاست کی طرف مائل نہیں ہوتے ہیں بلکہ اکثر ایسی نفرتی کوششیں اہلِ مہاراشٹر کی جانب سے ہی ریجیکٹ ہوجاتی ہیں، لیکن یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب آپ گھروں میں بیٹھے رہنے کی بجائے اپنا مقدمہ لےکر مضبوطی سے اس نفرت کےخلاف سماج میں سرگرم نظر آئیں، راج ٹھاکرے اپنی بدتمیزی کے لیے پہلے سے ہی بدنام اور ناکام ہیں لیکن اب وہ اپنے سیاسی کیرئیر کا خاتمہ بھی لکھ رہے ہیں کتنے شرم کی بات ہے کہ آج راج ٹھاکرے کو یوگی آدتیہ ناتھ کی تقلید کرنی پڑرہی ہے اور اترپردیش ماڈل کو فالو کرنا پڑرہا ہے جبکہ کل تک انہی اترپردیش والوں کےخلاف وہ ممبئی میں دنگے کراتے تھے، یہ اپنے آپ میں راج ٹھاکرے کا عبرتناک انجام ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)