تحریر:راکسی گگڈیکر چھرا
بارہویں جماعت میں پولیٹکل سائنس پڑھنے والے طلباء کو اب NCERT کی کتابوں میں 2002 کے گجرات فسادات کے بارے میں کچھ نہیں ملے گا۔
27 فروری 2002 کو ایودھیا سے لوٹ رہی سابرمتی ایکسپریس کے کوچ ایس 6میں گودھرا اسٹیشن پر آگ لگانے کا واقعہ ہوا تھا۔ جس میں 59 کارسیوکوں کی موت ہو گئی تھی، جس کے بعد گجرات میں فسادات فسادات پھوٹ پڑے۔
ان کا تذکرہ NCERT کلاس بارہویں پولیٹکل سائنس کی کتاب کے نویں باب میں کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گجرات فسادات کے علاوہ این سی ای آر ٹی کتاب سے ہندوستان میں ایمرجنسی سے متعلق باب کو بھی ہٹا رہی ہے۔
بی بی سی نے این سی ای آر ٹی سے کتاب میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس معاملے میں این سی ای آر ٹی کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ سمیت کئی میڈیا پبلیکیشنز نے حال ہی میں ان تبدیلیوں پر رپورٹیں شائع کی ہیں۔
بی بی سی گجراتی نے نصاب میں تبدیلی اور گجرات فسادات سے متعلق حصے کو ہٹانے کے معاملے پر ماہرین تعلیم، مورخین اور 2002 کے فسادات کے متاثرین سے بات کی۔
لیکن سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ اب تک NCERT پولیٹکل سائنس کی کتاب میں گجرات فسادات کے بارے میں کیا پڑھایا جا رہا تھا؟
باب میں کیا تھا اور کیا تبدیلی ہوئی؟
این سی ای آر ٹی کلاس بارہویں پولیٹکل سائنس کی کتاب کا باب 9، ہندوستانی سیاست میں حالیہ پیش رفت پر مبنی تھا۔ اس میں 1990 اور اس کے بعد کے سالوں میں ہندوستانی سیاست پر معلومات دی گئی تھیں۔
اس سبق میں طلباء کو بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی کی سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا، منڈل کمیشن جیسے مسائل سے آگاہ کیا گیا تھا۔
متن میں اس دور کی اتحادی سیاست کی باتیں تفصیل سے شامل کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ گجرات فسادات کی باتیں بھی اس میں بتائی گئی تھیں۔
اس باب میں فرقہ پرستی، سیکولرازم اور جمہوریت پر بحث شامل تھی، ملک میں ہندوتوا کی سیاست کا آغاز، ایودھیا کیس، بابری مسجد کا انہدام اور اس کے بعد گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے S-6 کوچ کو جلانا اور اس کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات وغیرہ شامل تھے۔
طلباء کے درمیان مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے، اس باب میں اس وقت کے انگریزی پرنٹ میڈیا کی سرخیوں کی پیپر کٹنگ بھی شامل کی گئی تھی، جس میں ’گجرات برننگ: این آئی فار این آئی بلائنڈ گاندھی نگر‘، ’گجرات کانڈ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘، ’گجرات کانڈ‘ ، این بلاٹ – پی ایم ‘ جیسی سرخیوں کی کٹنگ کا استعمال کیا گیا تھا ۔
اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے بارے میں جو کچھ کہا وہ بھی اس باب میں شامل کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے وزیر اعلیٰ سے ’راج شاہی پر عمل ‘ کے بارے میں بات کی تھی۔
اب ان تمام تفصیلات کو اس سال سے ہٹا دیا گیا ہے۔
گودھرا کا واقعہ 27 فروری 2002 کو نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دورحکومت میں پیش آیا تھا۔ اس وقت ایودھیا سے احمد آباد واپس آنے والی سابرمتی ایکسپریس کی بوگی S-6 کو گودھرا میں آگ لگا دی گئی تھی، جس میں 59 کار سیوک مارے گئے تھے، جس کے بعد گجرات میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا تھا۔
اس معاملے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی پر بھی کافی تنقید ہوئی تھی۔
حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ میں دی گئی معلومات کے مطابق گجرات میں 2002 کے تشدد میں 790 مسلمان اور 254 ہندو مارے گئے تھے۔ 223 افراد لاپتہ اور 2500 زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا۔
گجرات فسادات کی ہولناکیوں اور لوگوں کی حالت زار کی ایک واضح تصویر آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں چھپی ہوئی ہے، جس میں ایک شخص رو رہا ہے اور ہاتھ جوڑ کر مدد مانگ رہا ہے۔ یہ تصویر احمد آباد میں رہنے والے قطب الدین انصاری کی تھی اور اس تصویر نے ملک اور دنیا کی توجہ گجرات میں ہونے والے تشدد کی طرف مبذول کرائی تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قطب الدین انصاری نے کہا کہ ’اگر ان چیزوں کو کتاب سے ہٹا دیا جائے تو کیا ہوگا؟ ہر برادری کے لوگ 2002 کے فسادات کو آنے والے کئی سالوں تک یاد رکھیں گے، کیونکہ ہم جیسے بہت سے لوگوں نے بہت نقصان اٹھایا۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کو اس فساد اور اس کے درد کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے وہ معلوم ہوگا کہ انہیں ان کتابوں کی ضرورت نہیں ہے۔
انصاری فی الحال احمد آباد میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں اور گجرات فسادات کے ایک اور چہرے اور ایک ہندو دوست اشوک موچی کے ساتھ مل کر فرقہ وارانہ اتحاد کے لیے کام کرتے ہیں۔
انصاری کے مطابق گجرات فسادات کی معلومات ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتی رہیں گی اور کتابوں میں تبدیلی کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
2002 کے گجرات فسادات میں احمد آباد کے نرودا پاٹیہ علاقے میں ایک بڑا قتل عام ہوا تھا۔ سلیم شیخ سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ نرودا پاٹیہ کیس کی جانچ کرنے والی ایس آئی ٹی کے سامنے اہم گواہ ہیں۔ فسادات میں سلیم شیخ کے خاندان کے کئی افراد مارے گئے تھے۔
بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے خلاف ہم نے نرودا پاٹیہ کیس میں مقدمہ درج کیا ہے وہ اب اقتدار میں ہیں۔
’’اس معاملے میں اس پارٹی کے ایم ایل اے اور لیڈران کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ اب جب کہ ان لوگوں کے پاس پوری طاقت ہے، وہ تاریخ بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نرودا پاٹیہ کا تو کیا، وہ تاج محل کی تاریخ کو بھی بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
سرکاری طور پر نرودا پاٹیہ فسادات میں 97 لوگ مارے گئے تھے لیکن سلیم شیخ کے دعوے کے مطابق حقیقت میں زیادہ لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔
کیا حکومت ایسی تاریخی بحث سے خوفزدہ ہے؟
بی بی سی گجراتی نے چیپٹرز کو ہٹانے کے لیے این سی ای آر ٹی کی رائے مانگی۔ اس سلسلے میں این سی ای آر ٹی کو ایک ای میل بھی بھیجا گیا تھا، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
لیکن این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا،’یہ سارا عمل میرے چارج سنبھالنے سے پہلے ہوا اور اس لیے میں تفصیلات سے واقف نہیں ہوں۔‘ سکلانی کی تقرری فروری 2022 میں ہوئی تھی۔
سریدھر سریواستو، جو سکلانی سے پہلے این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر تھے، نے بھی انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا تھا کہ ‘یہ این سی ای آر ٹی کا فیصلہ ہے اور اب عام ہو چکا ہے۔ میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں۔
گجرات یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سربراہ ارون واگھیلا نے بی بی سی کو بتایا،’میرا ماننا ہے کہ تاریخ کو اس وقت تک نہیں پڑھایا جانا چاہیے جب تک اس کی معلومات آرکائیوز میں نہ ہوں اور اس واقعے کے بعد 30 سال بھی مکمل ہو جائیں۔‘
’کسی بھی واقعہ کے 30 سال بعد، اس کی تمام معلومات سرکاری کتابوں سے نکل کر اوپن سورس میں آتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ گجرات فسادات پر فی الحال علمی طور پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس کی معلومات اوپن سورس دستیاب نہیں ہیں۔‘
سماجیات کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر گورانگ جانی اس سے قبل اپنے طلباء کو گجرات میں تشدد سمیت کئی سماجی مسائل پر پڑھا چکے ہیں۔ جانی اس بارے میں بات کرتے ہوئے اساتذہ کی وفاداری کا ذکر کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،’یہ استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلباء سے 2002 کے فسادات کے بارے میں بات کرے، چاہے وہ کسی بھی کتاب میں نہ ہو۔‘
جانی کہتے ہیں،’موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی پر فسادات میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا اور NCERT کا یہ باب موجودہ حالات میں سیکولر امیج کی راہ میں رکاوٹ تھا، اس لیے اسے ہٹانا پڑا۔‘
گورانگ جانی کہتے ہیں، ’یہ NCERT کا معاملہ ہے، لیکن گجرات کی نصابی کتابوں میں اس کے بارے میں کبھی کوئی معلومات نہیں تھی۔ اب تو اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم وغیرہ کی تحقیقات میں بھی سب کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ ایسے میں اس وقت جو کچھ ہوا اس کے بارے میں طلبہ کو آگاہ کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
گورانگ جانی کا کہنا ہے کہ اب سےگجرات فسادات کی طرح 1975کی ایمرجنسی بھی نہیں پڑھایا جائے گا اور اس لئے اس معاملے پر بحث نہیں ہو رہی ہے، کوئی اس کی مخالفت نہیں کررہاہے ۔
(بشکریہ : بی بی سی ہندی)