تحریر:عدیل اختر
خوشی کی بات ہے کہ اعظم خاں صاحب کے فرزند جیل سے آگئے ہیں، اللہ کرے کہ خود اعظم صاحب کو بھی جلد رہائی ملے۔ لوگ عام طور سے یا تو ان کے حمایتی اور شیدائی ہیں یا مخالف اور دشمن ہیں، لیکن کسی بھی آدمی کے تعلق سے یہ دونوں رویے اصولی اور اخلاقی لحاظ سے غلط ہیں۔ صحیح بات حق کو حق کہنا اور ناحق کو ناحق کہنا ہے۔مگر یہ چیز آج کل گویا مفقود ہو گئی ہے حالانکہ اللہ اور رسول کی تعلیم یہی ہے اور ایمان واسلام کا تقاضا یہی ہے۔
اعظم خاں صاحب کی سیاسی زندگی کا تجزیہ تو آئندہ کے تاریخ نگار کریں گے اوراپنے تجزیوں کے لحاظ سے انہیں تاریخ میں جگہ دیں گے، لیکن اتنا تو ہے کہ آزادی کے بعد کے مسلم سیاسی قائدین میں انہیں یقیناً شمار کیا جائے گا۔ البتہ ابھی ان کی تاریخ مکمل نہیں ہوئی ہے، ماشاءاللہ سے باحیات ہیں اور ان شاءاللہ ابھی فعال بھی رہیں گے۔ اس لئے ان کے سامنے یہ بات رکھی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کے کسی قائد کے اندر جن اوصاف کی توقع کی جاتی ہے، انھوں نے اپنی شخصیت میں ان اوصاف کے وافر امکانات کو نظر انداز کرکے اور خود کو ’خالص ایک سیاسی آدمی‘ تک محدود کرکے کچھ اچھا نہیں کیا بلکہ اپنا اور ملت کا بڑا نقصان کیا ہے۔ ’خالص ایک سیاسی آدمی‘ کے الفاظ خود ان کے اپنے ہیں جو انھوں نے اپنے بارے میں متعدد موقعوں پر کہے ہیں۔
اب یہ خالص سیاسی آدمی کیا ہوتا ہے اسے موجودہ زمانے کے سیاسی لوگوں کے طور طریقوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس میں سب سے پہلی چیز ہے ذاتی سیاسی طاقت اور اقتدار کے حصول کی ہوس جس کے لئے ہر وہ بات اور کام کرنا جس سے یہ مقصد پورا ہوتا ہو۔ مد مقابل کو نیچا دکھانے کے لئے جس حد تک اسے ذلیل کیا جاسکتا ہو ذلیل کرنا، جتنا جھوٹ بولا جاسکتا ہو بولنا، جتنا بس میں ہو تگڑم لڑانا اور سیاسی طاقت مل جائے تو تکبر و رعونت میں کسی کو خاطر میں نہ لانا اور جو جی چاہے بغیر روک ٹوک کرنا اور کسی اور کو اپنے سامنے ابھرنے کا موقع نہ دینا۔وغیرہ وغیرہ
اعظم صاحب کی قائدانہ ملی سرگرمیوں کا سفر علی گڑھ تحریک سے شروع ہوا، مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی تحریک سے ہوتا ہوا بابری مسجد بچاؤ تحریک میں عروج پر پہنچا اور پھر تھم گیا تاہم ایک بے باک اور غیرت مسلم لیڈر کی شناخت انہیں حاصل رہی۔ لیکن موصوف چوں کہ بقول خود ’ایک خالص سیاسی آدمی‘ تھے اس لئے رائج الوقت سیاست میں محض اپنی پارٹی کا ایک ’مسلم چہرہ‘ بن کر رہ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعظم صاحب کو اس حیثیت میں رکھ کر ان کی پارٹی نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ ملائم سنگھ یادو اور ان کا خاندان آج جس حیثیت میں ہے اس تک اسے لے جانے میں اعظم صاحب کا کافی کچھ رول ہے، اور اس میں بھی شک نہیں کہ اعظم صاحب نے بدلے میں کافی کچھ حاصل بھی کیا ہے البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اعظم صاحب کی وجہ سے ملائم سنگھ کو ووٹ تو ملا مسلم ملت کا لیکن بدلے میں ملائم اینڈ پارٹی نے جو کچھ دیا وہ زیادہ تر ذاتی طور سے اعظم صاحب کو ہی دیا جب کہ اعظم صاحب کی قوم کو جو دیا تواتنا سا کہ دیا نہ دیا برابر۔ لیکن چوں کہ موصوف نے خالص ایک سیاسی آدمی بنے رہنے کو پسند کیا تھا اس لیے یہ ان کے لئے کافی تھا اور اس پر وہ مطمئن بھی رہے۔
خالص ایک سیاسی آدمی کے طور پر اعظم صاحب کا سیاسی ویژن رام پور کی فصیلوں کے اندر ہی محدود رہا ہے۔ سیاست کے ابتدائی دور میں انھوں نے اپنی سیاست کا جو نصب العین بنایا تھا وہ یہ تھا کہ ’نوابوں کے محلوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا‘، چنانچہ سب نے دیکھا کہ سیاست کی بلندیوں پر پہنچ کر جب انہیں اقتدار کی طاقت ملی تو نئی تعمیرات کے لئے تخریبی کاماس انداز سے کئے گئے کہ انتقام کی بو فضا میں صاف محسوس ہو رہی تھی اور نوابوں کا نام و نشان مٹا ڈالنے کا جذبہ ظاہر ہو رہا تھا۔ ایک سراسیمگی کا عالم تھا جس میں کوئی کچھ بولنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ پیار و محبت سے ووٹ دینے والے عوام اپنے محبوب لیڈر سے جھڑک دئے جانے، بھگادئے جانے اور تھپڑ کھانے کے اندیشے سے سہمے رہتے تھے۔ اختلاف اور حزب اختلاف کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں بچی تھی۔ وہی پرشاسن اور پولیس جو آج کی حکومت کے اشارے پر اعظم صاحب کو گھٹنوں پر لانے کے لئے سب کچھ کر گزرا، کل اعظم صاحب کے اشارہ ابرو پر مخالفوں پر لٹھ بجانے اور ہتھ کڑی لگانے کا منتظر رہتاتھا۔ مخالفت کے قصورواروں کے علاوہ بہت سے بے قصور بھی تھانے یا جیل ہو آئے۔ لیکن اقتدار کی مشغولیت ایسی ہوتی ہے کہ اپنے آس پاس رہنے والے خوشامدیوں اور موقع پرستوں کی دنیا ہی پوری دنیا بن جاتی ہے اور صاحب اقتدار کو یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ سب کے دلوں پر اس کا راج قائم ہے، اور ’جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔‘
اپنی سیاست کے ابتدائی دور میں اعظم صاحب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ سیاست کی دلہن کو نواب کے محل سے نکال کر شہر کی گلیوں میں گھماؤں گا۔ یعنی سیاست کسی کی خاندانی میراث نہیں ہو گی۔ لیکن خالص ایک سیاسی آدمی کی طرح موصوف نے بھی سیاست و اقتدار کو خاندانی وراثت میں بدل دیا، اس لئے کہنے والے بے جا نہیں کہتے ہیں کہ نواب چلے گئے نوابیت نہیں گئی، بس نوابیت کے انداز بدل گئے ہیں اور نئے نواب آگئے ہیں۔
لیکن یہ تمام باتیں ایک طرف، اصل بات جو اعظم خاں صاحب کے بارے میں یہاں کہنے کی ہے وہ یہ ہے کہ موصوف اور ان کے پورے خاندان کو ہندوتوادی حکومت نے جو رسوا کیا ہے اور توڑنے و کمزور کرنے کی کوشش کی ہے وہ اس لئے نہیں کی کہ وہ ایسے ہیں اور ویسے ہیں انھوں نے یہ کیا اور وہ کیا۔بلکہ اس کی وجہ واضح اور یقینی طور سے ہندوتوادیوں کی مسلم دشمنی ہے۔ مسلمانوں کو ڈرانے، جھکانے اور ذلیل بناکر رکھنے کی ذہنیت والوں کو ایک دھمک دار اور بلند بانگ مسلم لیڈر کی دھمک کو ختم کرنا تھا اس کے لئے انتظامی کارندوں نے اعظم خاں کی قوم میں سے ہی ان کے ذاتی مخالفوں یا ستائے گئے لوگوں کو استعمال کیا۔ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی اعظم خاں سے ذاتی رنجشوں اور مخالفت کا خمیازہ ایک قد آور مسلم قائد کو بھگتنا پڑا۔ یہ بات ملی احساس اور درد رکھنے والے سبھی لوگوں کے لئے دکھ اورافسوس کی وجہ بنی اور ایسے سبھی لوگوں نے اعظم خاں سے ہمدردی محسوس کی۔
کہتے ہیں کہ زندگی ایک سبق ہے۔ اعظم خاں صاحب کے ساتھ گزشتہ عرصے میں جو کچھ بھی ہوا وہ یقینی طور سے بہت برا ہوا اور ان پر بہت سخت وقت گزرا ہے۔ اس دوران جو سب سے زیادہ عبرت کی بات دیکھی گئی وہ یہ تھی کہ اعظم خاں زندہ باد کے نعرے لگائے والے اور ان پر جان چھڑکنے کا ڈھونگ رچانے والے سارے چھوٹے بڑے حمایتی ایسے ہو گئے تھے جیسے کبھی اعظم خاں کے ساتھ تھے ہی نہیں۔ کوئی نہیں تھا جو ان کے لئے جلوس نکالتا، آواز اٹھاتا اور ان کے لئے اپنے آپ کو داؤ پر لگا تا. منتری جی کی مہربانی سے جائز اور ناجائز پیسہ کمانے والے، دھونس جمانے والے اور سینہ تان کر چلنے والے سبھی شیر چوہوں کی طرح بلوں میں گھس گئے تھے۔ اب نہ کوئی مخدوم تھا نہ اس کے خادم تھے، نہ محبوب تھا نہ اس کے چاہنے والے تھے۔ یہ ٹھیک ویسا ہی ایک نمونہ تھا جس کا اصل نقشہ آخرت کے حوالے سے قرآن میں اللہ نے بیان کیا ہے:
’’…. کیفیت یہ ہو گی کہ لیڈر اور رہبر ان لوگوں سے بیزار ہوں گے جو ان کے پیچھے چلتے تھے، اور دیکھیں گے اللہ کی سزا، اور ان کے سارے سہارے ٹوٹ جائیں گے۔ اور جو ان کے پیچھے چلتے تھے وہ کہیں گے کہ کاش ہمیں دوبارہ موقع ملے تو ہم بھی ان سے اسی طرح بیزاری ظاہر کریں جس طرح یہ ہم سے بیزار ہو رہےہیں…‘‘(البقرہ 166-167)۔
’’اور حاضر ہوں گے سب کے سب اللہ کے آگے ، پھر جو لوگ دنیا میں بڑے بنے ہوئے تھے ان کے پیچھے چلنے والے کمزور لوگ ان سے کہیں گے کہ ہم تو آپ کے تابع تھے تو کیا اب آپ اللہ کے عذاب کو ہم سے دور رکھنے کے لئے کچھ کریں گے؟ وہ کہیں گے کہ اگر اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی تو ہم بھی تمہیں راستہ دکھاتے، اب تو ہم چاہے گھبرائیں یا صبر کریں برابر ہے، ہمارے لئے چھوٹنے کی کوئی صورت نہیں‘‘ (ابراہیم:21)۔
آخرت پر ہم گنہگاروں کا ایمان چاہیے کتنا ہی کمزور پڑجائے لیکن آخرت اتنی ہی یقینی ہے جتنی موت۔ موت کے بعد آخرت ہی تو ہے، آخرت کی زندگی ہی تو اصل لامتناہی زندگی ہے۔ دنیا کی یہ زندگی کیا ہے؟ ایک دھوکا، ایک بلبلا اور سانس کا ایک دم۔ اس دھوکے اور فریب کی زندگی میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آخرت میں ہمارے معاملات کی جواب دہی ہونی ہے۔ اس جواب دہی کے وقت ہر فرد اکیلا ہو گا اور جواب دہی صرف اس بات کی نہیں ہوگی کہ تم ایمان کیوں نہیں لائے تھے یا نماز کیوں نہیں پڑھتے تھے، بلکہ قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود اہل ایمان سے بھی اصل جواب دہی اس بات کی ہوگی کہ زندگی کے معاملات کو انجام دینے کے لئے جو ہدایات تمہیں دی گئی تھیں تم نے ان کی تعمیل کیوں نہیں کی۔ تم اگر ایمان والے تھے اور تمہیں عقل، علم اور شعور دے کر اللہ کی ہدایت کے مطابق نظام زندگی کو سنوارنے اور بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی تو تم نے اسے انجام کیوں نہ دیا؟
اعظم خاں صاحب عقل و فہم، علم و شعور، قوت و صلاحیت کے لحاظ سے بہت دھنی انسان ہیں۔ ان کا سر رشتہ گزشتہ زمانے کی ان عظیم شخصیات سے ملتا ہے جو واقعتاً ملت اسلامیہ ہند کے قائدین رہے ہیں۔ جن کے افکار و اخلاق سے افراد ملت کی تربیت ہوتی تھی، جو ملت کے مسائل، ضروریات اور مقاصد و مفادات کے لئے جیتے تھے اور کوشاں رہتے تھے۔ ان جیسے قائدانہ صلاحیت و قوت والے لوگ آج بھارت کے مسلمانوں میں بہت کم ہیں جب کہ آج ملت کو ایسے افراد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس لئے آج یہ آرزو کیوں نہ کی جائے کہ جیل سے آنے کے بعد ہم اک نئے اعظم خاں کو دیکھیں۔ ایسے اعظم خاں کو جن کے افکار اور مقاصد قرآن کے پیغام میں ڈھل چکے ہوں، جن کے برتاؤ اور رکھ رکھاؤ میں وہ تبدیلیاں آ چکی ہوں جو کسی شخصیت کو اقبال کے الفاظ میں ایک مرد مومن اور مرد مجاہد بناتی ہیں اور جو کسی قأئد ملت کے لازمی اوصاف سمجھے گئے ہیں۔
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
اعظم خاں صاحب کے لئے یہ انشاء پردازی محض قلم کاری کے شغل میں نہیں کی گئی ہے بلکہ اس احساس ذمہ داری کے دباؤ میں ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلم ملت کے افراد کو باہم ایک دوسرے کو حق پر چلنے کی تلقین کرتے رہنے کا فریضہ سونپا ہے۔ اور زمانے کو گواہ بناکر یہ تنبیہ کی ہے کہ ایمان اور اس کے ساتھ صحیح طرز عمل نیز حق پر چلنے و صبر پر قائم رہنے کی باہمی تلقین نہ کرنے والے سارے انسان خسارے میں رہیں گے (سورہ العصر). اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کامیاب اور بامراد ہونے کے لئے نفس کا تزکیہ ضروری ہے: ’’کامیاب ہو گیا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہو گیا وہ جس نے نفس کو تزکیہ سے روک دیا‘‘ (الشمس: 9-10)۔
ان سطور کا راقم ان سطور کے قارئین اور مخاطبین کے سامنے خود اپنی عاجزی اور گنہ گاری کا اعتراف کرتا ہے اور قرآن کے الفاظ میں اپنی معزرت پیش کرتا ہےکہ ’’میں اپنے نفس کی برائت ظاہر نہیں کررہا ہوں، نفس تو برائی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرا رب رحم کرے، بے شک میرا رب غفور الرحیم ہے۔‘‘(یوسف:54 )
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)