تحریر: ـ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
عموماً ہمارے معاشرے میں یہ تصور عام ہوگیا ہے کہ جو قرآن پڑھے اور پڑھائے وہ کوئی بے بس و بے چارہ ہی ہوگا، جو مسجد میں امامت کے باوقار منصب پر فائز ہو وہ کوئی مصیبت کا مارا ہی ہوگا، یہی وجہ ہے کہ مساجد کی کمیٹیوں اور متولیان مساجد کا رویہ حضرات ائمہ کے ساتھ انتہائی آمرانہ، حاکمانہ اور بڑی حد تک متعصبانہ ؛بلکہ بعض مرتبہ تو دیکھا گیا کہ انتہائی بد بختانہ ہوتا ہے۔
ائمہ مساجد کے تعلق سے بالخصوص اور عام طور پر تمام مولویوں کے متعلق یہ طے کر لیا گیا ہے کہ نہ ان کی واجبی ضروریات زندگی ہیں اور نہ ان کے پاس دل ہے، جب دل ہی نہیں تو خواہشات کا سوال کہاں؟ نہ انہیں دوا علاج کی ضرورت پڑتی ہے، نہ وہ کھانا کھاتے ہیں، نہ ان کے والدین ہوتے ہیں اور نہ بیوی بچے، نہ ان کو چھٹیوں کا تقاضا ہوتا ہے نہ ان کے لیے سردی و گرمی کوئی معنی رکھتی ہے، نہ ان کے اور ان کے بیوی بچوں کو لباس کی ضرورت ہے اورنہ ان کے بچے اچھی تعلیم کے حقدار، بلکہ امام ایک ایسا بندھوا مزدور ہے جس کے ساتھ کھیلنے کا متولیان مساجد کو بھر پور حق ہے، جو چاہے اسے دروازہ بند کرنے کا حکم دے، جس کی مرضی ہو اس سے صفائی کے متعلق سوال کرے، کمیٹی کا جو ممبر چاہے اس بے چارے کو دبالے، جس کا کہیں بس نہ چلے وہ مسجد کے امام پر زور آزمالے، اور یہ بے چارہ امام دو روٹی کے لئے سب کی سنتا ہے، سب کی سہتا ہے اور ہر وقت یہی خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اب نکالا گیا اور تب نکالا گیا، مسجد میں وضو کے پانی کا انتطام، صفائی کا نظام اور سارے صاحبان کی آمد سے قبل روشنی کا نظم اور سب کے چلے جانے پر ایک ایک بلب کے بجھانے کی ذمہ داری سب اسی غلام کو اٹھانی پڑتی ہے۔
مجھے واقعات لکھنے اور بڑھا چڑھا کر بات کرنے کی عادت نہیں ورنہ ایسے دلدوز واقعات میرے علم میں ہیں جنہیں سن کر سوائے کف افسوس ملنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا، ہم نے خود بعض ائمہ کو دیکھا ہے کہ کس طرح وہ نفس کشی کرتے ہیں اور کس طرح اپنے بچوں کا دل مارتے ہیں، ہم نے دیکھا ہے اس قوم کی بے حسی اور بے غیرتی کا حال کہ کس طرح ”امام مسجد“ ہاں امام مسجد لوگوں کے گھروں پر کھانے کے لئے کھڑا رہتا ہے، جی! ہم نے دیکھا ہے ایسے اماموں کو جن پر ہر وقت متولی کا خوف سوار رہتا ہے، ہم نے دیکھا ہے ایسے ائمہ کو جن سے متولی خدمت بھی لیتا ہے اور انہیں دوسرے کے خلاف استعمال بھی کرتا ہے، ان سے جھوٹ بھی بولنے کو کہتا ہے، ہم نے دیکھا ہے ایسے ائمہ اور مدارس کے مدرسین کو جو آج بھی ایک خوراک کھانے میں میاں بیوی کھاکر شکم سیر ہوجاتے ہیں، ہم نے دیکھا ہے ایسے ائمہ اور مدرسین کو جن کے بچے دودھ اور دوا کو ترستے ہیں، جنہیں کبھی اچھی غذا میسر نہیں آتی ہے، ایسے علما کی آج بھی ایک بڑی تعداد ہے جن کی عفت و عظمت اور خودداری و غیرت مندی انہیں دست سوال دراز کرنے سے روکتی ہے لیکن وہ اندر اندر گھٹ گھٹ کر مرتے اور کڑھتے ہیں، ذرا سوچیے اگر اس غریب یا متوسط انسان نے اپنے اس لخت جگر کو کسی کام میں لگایا ہوتا، کوئی ہنر سکھایا ہوتا اور سب والدین ایسا ہی سوچنے لگتے تو کیا ہوتا آپ کا، کہاں ملتے آپ کو امام و مؤذن، کہاں ملتے آپ کے بچوں کو قرآن مقدس پڑھانے والے، لیکن کم از کم یہ تو ہوتا کہ یہ لڑکا جو آج تمام مصلیوں کی خدمت کر رہا ہے، اپنے والدین کے بڑھاپے کا سہارا بنتا، بہت زیادہ مال سے نہیں تو جسمانی طور پر اپنے ماں باپ کی خدمت تو ضرور کر لیتا، مدارس کا مذاق اڑانے والے اور علماکو اپنی زکوة و خیرات کا دھونس دینے والے سوچیں کہ ان میں سے کتنے لوگ ہیں جن کی اپنی نماز درست ہے چہ جائیکہ دوسروں کی امامت کریں، کتنے ایسے ہیں جن کو اذان کے الفاظ بھی یاد ہیں یا صحیح تلفظ سے نکلتے ہیں، کتنے ایسے ہیں جو اپنے گھر کی میت کو مسنون طریقہ سے غسل دے سکتے ہیں، کتنے ایسے ہیں جو ہر موسم اور ہر وقت مسجد جاکر اسے آباد کر سکتے ہیں، بعض مساجد تو ایسی ہیں جن کے مصلی موسم کی نزاکت دیکھ کر ہی مسجد آتے ہیں، دینداری کا بہت سے ڈھونگ رچانے والے بھی اپنا محاسبہ کریں کہ ایک حافظ قرآن اور حامل علوم قرآن کی ان کی نظر میں کیا حیثیت ہے، اس کی زندگی کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں، جس قوم کی نظر میں اس کے مذہبی پیشواؤں کی حیثیت نوکر و غلام کی ہوجائے وہ قوم غلامی کی زندگی میں نام تو پیدا کر سکتی ہے لیکن امامت و سیادت اس کا مقدر کبھی نہیں بن سکتی۔
اکثر و بیشتر مساجد کا حال یہ ہے کہ وہاں ائمہ کی تنخواہیں 5000سے زائد نہیں ہوتی ہیں، ممکن ہے کچھ مساجد اس سے مستثنیٰ ہوں، جن مساجد کے کم و بیش سب مقتدی ومصلی پچاس ہزار سے زائد آمدنی والے ہوں ان مساجد کے ائمہ و مؤذنین بھی اپنا دل دبائے بیٹھے رہتے ہیں، بلکہ ان مساجد میں طعن و تشنیع او رکمیٹی کے ممبران ومتولی کی نظریاتی غلامی کا بوجھ مزید اٹھانا پڑتا ہے، جس قوم کی صورت حال یہ ہو کہ وہ اپنے ائمہ ومؤذنین کا خون چوسے اور ان کو بنیادی سہولیات زندگی تک سے محروم کر دے اس قوم پر رحمت خداوندی کا نزول بظاہر ممکن نظر نہیں آتا، نہ جانے کتنے ائمہ ایسے ملیں گے جن کی زندگیاں مسجد کے حجرے میں ختم ہوگئیں یا کرایہ کے خستہ حال مکانوں میں اپنی زندگیاں ختم کر ڈالیں مگر مسجد کے مصلیوں کو یہ توفیق نہ مل سکی کہ ان بے چاروں کے گھر کا بھی انتظام ہو جاتا تاکہ ان کے بعد ان کے بچوں کو بھی ایک چھت میسر آجاتی۔
بہت سی مساجد میں فنڈ موجود ہوتا ہے لیکن اسے ائمہ ومؤذنین کی تنخواہوں میں استعمال نہیں کیا جاتا، مسجد کی تعمیر اور رنگ و روغن پر تو کروڑوں اور لاکھوں خرچ کیے جا سکتے ہیں لیکن امام و مؤذنین کو تنخواہیں دینے میں بخالت کی انتہا ہوجاتی ہے، کچھ رعونت پسند تو یوں ستم بالائے ستم ڈھاتے ہیں کہ اپنی محرومی پر نظر نہیں جاتی اور امام ومؤذن کا تعارف یوں کراتے ہیں ”بے چارے یہی ہمارے امام ہیں“ ، ”بے چارے امامت کرکے اپنی گزر بسر کرتے ہیں“، شاید ان رعونت پسند اور بے توفیق لوگوں سے جب روز قیامت اللہ تعالیٰ حساب لیں گے توجواب دیتے نہ بن پڑے، وہاں اسی امام و مؤذن اور حافظ قرآن کی عزت و تکریم دیکھ کر شاید حسرت سے یہ لوگ سوچیں کاش اپنے بچے کو بھی اسی کام میں لگایا ہوتا، کاش ہم خود کسی حامل قرآن کی خدمت میں رہے ہوتے، کاش ہم نے کسی امام کے جوتے سیدھے کیے ہوتے، کاش ہم بھی کسی کے حفظ قرآن کا سب بن گئے ہوتے۔
حیرت کی انتہا تو تب ہوتی ہے جب بعض ایسی مساجد پر نظر پڑتی ہے جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے امام ومؤذن کے پاس تو گھر بھی ہوگا اور تنخواہ بھی ضروریات زندگی کو پوری کرنے کے لئے کافی ہوگی، لیکن اف رے ظلم یہاں بھی وہی پانچ اور چھ ہزار بس۔ اس پر دھونس اور پابندی گویا جہنم کے سارے داروغہ یہیں اتر آئے ہوں۔ چند منٹ نماز پڑھنے کو آتے ہیں لیکن مسجد کا ڈکوریشن ماشاءاللہ، ایئر کنڈیشن بھی اب اکثر مساجد میں ہوتا جا رہا ہے، آئے دن استنجاخانوں کی بھی مرمت ہوتی رہتی ہے، سہولیات کی کوئی کمی نہیں رہنے پاتی، لیکن جس بے چارے کی پوری زندگی مسجد سے وابستہ ہے اور جس کے بغیر یہ سب محتاج ہوجاتے ہیں اس کے لئے سہولت ہے نہ اس کی کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کو چھٹی ہے، وہ بے چارہ اگر کوئی اور روز گار کرنا چاہے تو سب درپہ آزار ہوجاتے ہیں، اگر آمدنی کا کوئی اور راستہ بھی ساتھ میں اختیار کرنا چاہے تو فورا اس کے نکالنے کی تدبیروں میں لگ جاتے ہیں، اور مفت کا کوئی دوسرا بندھوا غلام تلاش کرنے لگتے ہیں، کبھی اس طرف نظر نہیں جاتی کہ یہ بھی ایک انسان ہے، اس کے بھی جذبات ہیں، اس کے بھی اہل وعیال ہیں، اب مسلمانوں کی حکمرانی نہیں رہی جو اس کو حکومت سے وظیفہ ملے، اب تو یہ ذمہ داری عوام اور متعلقین مساجد کی ہے، اکثرمساجد ایسی ہیں اور بالخصوص ہر شہر کی اکثر مساجد کا یہی حال ہے کہ اس کے مصلیوں میں ایک ایسی تعداد ہوتی ہے جس کو اگر اپنی ذمہ داری کا صحیح احساس ہوجائے تو کوئی امام ومؤذن بنیادی سہولیات اور ضروریات زندگی سے محروم نہ رہ جائے، ہر مسجد میں ایسے دس پندرہ لوگ موجود ہوتے ہیں جن کو اگر دین کا صحیح تصور ہو اور وہ امام ومؤذن کے حقیقی مقام و مرتبہ سے واقف ہوں اور اپنے پاس موجود دولت پر شکر کی توفیق انہیں حاصل ہو تو یہی دس پندرہ لوگ امام ومؤذن کی اچھی تنخواہ کا اس طرح انتظام کر سکتے ہیں کہ کسی ایک کی جیب پر بار نہ ہو، لیکن قارونیت اور قارونی جذبہ کا کیا رونا رویا جائے، دیکھا گیا ہے کہ جس گھر کی ماہانہ آمدنی ڈیڑھ سے دولاکھ اور اس سے بھی زائد ہوتی ہے اس گھر سے مسجد کے لئے 100روپیہ ماہانہ بھی بڑی مشکل سے نکلتے ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ اس قوم کی صورت حال بدلنا ممکن ہے جس قوم نے قرآن کے طالب علموں اور اس کے حاملین کو بے کس ونادار سمجھ رکھا ہو، انہیں معاشرے کا کمزور و پسماندہ طبقہ بنا کر رکھ چھوڑا ہو، ان کی حالت یہ کر دی گئی ہو کہ انہیں قابل ترس اور لائق رحم سمجھا جانے لگے، وہ متولیوں اور مساجد کی کمیٹیوں کے رحم پر جینے پر مجبور ہوجائیں، اس کے جہاں اور بہت سے اسباب ہیں وہیں بڑا سبب یہ ہے کہ ذمہ داران مساجد ائمہ ومؤذنین کے مقام سے واقف ہی نہیں، ان کی ضروریات کا انہیں احساس ہی نہیں، یاد رکھا جائے کہ دنیا میں کوئی معزز ترین شخص اہل دنیا کے نردیک تو محترم ومعزز ہو سکتا ہے لیکن اللہ کے یہاں ایک حافظ قرآن کا جو مقام و مرتبہ ہے (جس کے بیان کا یہ موقع نہیں) اسے دیکھ کر یہ اہل ثروت اور دنیا پرست روز قیامت ہاتھ ملیں گے اور سوچیں گے کاش ان کے گھر میں بھی کوئی حافظ ہوتا، کاش انہوں نے کسی حامل قرآن کی قدر کی ہوتی، کاش کسی خادم قرآن کے پیر کی جوتی بن گئے ہوتے، کسی کی ضرورت اور کسی کا لباس بن گئے ہوتے۔
مجھے ائمہ اور مؤذنین سے بھی دست بستہ گزارش کرنی ہے کہ وہ اپنے مقام ومرتبہ کو سمجھیں، اپنے آپ کو پہچانیں، اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ وہ علم سے کورے ہوتے ہیں، بے صلاحیت ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی وہ مساجد کمیٹیوں کے انتشار کا سبب بھی بن جاتے ہیں، ایسی چھوٹی چھوٹی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں کہ علم وعلما کا وقار مجروح ہوتا ہے، انہیں اپنے سامنے حضرت صدیق اکبر کی امامت کا اسوہ رکھنا چاہیے اور حضرت بلال کی موذنی کا جلوہ دیکھنا چاہیے، انہیں ایسے رزق کی عادت نہیں ڈالنی چاہیے جس سے ان کی پرواز میں کوتاہی آئے، انہیں اپنے آپ کو دو رکعت کی امامت میں مقید اور محدود نہیں کرنا چاہیے، انہیں کم از کم اپنی اپنی مساجد کے متعلقین کا فکری، علمی اور سماجی قائد ہونا چاہیے چہ جائیکہ وہ فکری غلام او ربندھوا مزدور بن کر رہ جائیں، انہیں لوگوں میں مسجد کی پاکی وصفائی کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے، لوگوں کو سکھانا چاہیے کہ پیغمبروں کو اس کی صفائی کا حکم دیا گیا ہے، ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے وطھر بیتی للطائفین والقائمین والرکع السجود۔ (ترجمہ: اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں، اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھنا) (حج۔۶۲)جب پیغمبروں کو اس کا حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ خانہ¿ خدا کی صفائی ستھرائی کا انتظام کریں تو عام لوگوں کے لئے تو یہ بڑے فخر اور شرف کی بات ہے، لیکن افسوس ہے کہ خود حضرات ائمہ اپنی حیثیت بھول گئے، انہوں نے اس مقدس منصب کو بے چارگی، بے بسی اور متولیوں کی اجارہ داری اور نظریاتی و فکری غلامی کا منصب بنا ڈالا، وہ بھول گئے کہ اسی منبر پر کھڑے ہوکر ائمہ اسلام دینِ حق کا اعلان ِعام کیا کرتے تھے، لوگوں کو لگام دیا کرتے تھے، بے دینوں اور بد فکروں کو للکارا کرتے تھے، حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان پر نقد کیا کرتے تھے، اپنے عمل اور اپنی شخصیت کا سارا وزن ڈال دیا کرتے تھے، ائمہ اور مؤذنین کو بھی سنجیدہ ہونے اور اپنے منصب کو پہچاننے کی ضرورت ہے، لیکن اس سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ عوام اور ذمہ داران مساجد ومدارس اپنا محاسبہ کریں، مولویوں کو اسی دور اور اسی معاشرے میں جینے والا ایک ایسا انسان سمجھیں جس کو ضروری غذا اور ضروری دوا علاج کی اور واجبی ضروریات زندگی کی ہمہ وقت ضرورت ہے، کوئی کسی قدر متقی ہوجائے، زہد وورع کی انتہا کو پہنچ جائے مگر اس کے اور اس کے اہل خانہ کی ضروریات اور واجبی تقاضے تو بہر حال باقی رہتے ہیں، تعمیر و تزئین سے بہتر ہے کہ ان بندگان خدا کی ضرورتیں پوری ہوجائیں جو بہر حال ان کروڑوں انسانوں سے بہتر ہیں جن کی زندگی بارگاہ خدا میں سجدہ کرنے سے محروم اور اغیار کے در پر سجدہ ریز رہتی ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)