کلیم الحفیظ
نئی دہلی
زمانہ قدیم سے دنیا میں بھارت کی ایک اہمیت رہی ہے۔مسلمانوں کی آمد کے بعد بھارت سونے کی چڑیا بن گیا۔یہاں کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ یہاں کی تہذیب نے بھی دنیا کو متاثر کیا۔انصاف پسند بادشاہوں نے عدل و انصاف کی لازوال مثالیں قائم کیں۔رفتہ رفتہ حکمراں ناانصاف ہوئے اور عوام اپنے حکمرانوں کی ناانصافیوں پر خاموش رہی اور طویل حکمرانی ختم ہوگئی۔انگریزی سامراج کی بنیادیں ظلم اور ناانصافی پر ہی رکھی ہوئی تھیں اس لیے زیادہ دیر تک ٹک نہ سکیں ۔اگر میں یہ کہوں کہ انگریزی سامراج سے مقابلے میں بھارت کی اخلاقی قوت کا اہم کردار ہے تو بے جا نہ ہوگا۔بھارتی عوام کی آپسی محبت،مذہبی رواداری،وفاداری اور عہدو پیمان کے پاس و لحاظ کے ہزاروں واقعات جنگ آزادی کی تاریخ میں محفوظ ہیں۔لیکن آج جب ہم اپنے اوپر نظر ڈالتے ہیں،اپنے حکمرانوں کا طرز عمل دیکھتے ہیں،اپنی عوام کے اخلاق کا جائزہ لیتے ہیں تو پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
کورونا مہاماری کی پہلی لہر میں تو صرف حکمرانوں کی پول کھلی تھی لیکن اس دوسری لہر نے تو ملک کے اخلاقی نظام کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ کورونا کی قیامت خیزی کے دوران جب کہ ملک کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہو اس وقت حکمرانوں سے لے کر عوام تک کی اخلاقی پستی کی ایسی تصویریں سامنے آئی ہیں کہ روح کانپ اٹھی ہے۔حکمرانوں کی سب سے بڑی اخلاقی کمزوری اقتدار کے بھوک ہوتی ہے۔حکومت اور اقتدار کی ہوس انھیں پاگل بنا دیتی ہے۔ماضی میں بادشاہ اس ہوس میں ملک تباہ کردیتے تھے مگر آج ہمارے ملک کے جمہوری حکمرانوں نے بھی سفاکی کی مثالیں قائم کی ہیں۔کورونا کے بارے میں اس کے ماہرین نے بھارت میں دوسری خطرناک لہر سے ملک کے حکمرانوں کو آگاہ کردیا تھا اس کے باوجود ملک میں انتخابات کرائے گئے۔مہاماری پھیلتی رہی اور ہمارے مرکزی حکمراں ریلیاں کرتے رہے ۔مدراس ہائی کورٹ تک نے کہہ دیا کہ لوگوں کی موت کا ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے اور اس پر مقدمات قائم ہونے چاہیے لیکن کورٹ کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کمیشن کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش کے پنچایت انتخابات پر روک لگانے سے صاف انکار کردیا۔ان انتخابات میں ڈیوٹی کے دوران لگ بھگ دوہزارسرکاری ملازمین نے جان دے دی۔انھیں انتخابات کے باعث کورونا تیزی سے بڑھتا گیا جس میں لاکھوں جانیںضائع ہوگئیں۔عوام کی زندگی سے لاپرواہی اور اقتدار کی ہوس بھارت کے موجودہ حکمرانوں کی اخلاقی پستی کی انتہا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کے اہل کاروں کی جانب سے آکسیجن اور ادویات کی ذخیرہ اندوزی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔اپنے سیاسی مخالفین کے علاج میں لاپرواہی بھی اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے۔آکسیجن اور ادویات کی کمی کے دوران پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر اور حکومتوں کا اشتہارات کے نام پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کرنا بھی غیر اخلاقی حرکت ہے۔ویکسین کے تعلق سے بھی کئی قسم کی بدعنوانیاں ہیں، ملک کی اہل دوا ساز کمپنیوں سے ویکسین نہ بنوا کر امپورٹ کرنا دھاندلی ہی ہے،پیٹنٹ کے نام پر ہاتھ باندھے رکھنا بے حسی ہے۔گائوں کے سرکاری اسپتالوں کا کوئی پرسان حال نہیں اور ان میں گاوں کے لوگ جانور باندھ رہے ہیں یہ لاپرواہی عوام کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ ہے ۔لاک ڈاون کی مار جھیل رہی عوام کو تحفے کے طور پر مہنگائی دینا اور قیمتیں بڑھانا ظلم ہے۔مدد کرنے والوں پر مقدمات قائم کرنابے شرمی کی انتہا ہے۔شکایت کرنے والوں پر این ایس اے لگانا اورسوال کرنے پر جیل رسید کرنافرعونیت ہے۔جھوٹ بولنا اورحقائق چھپانا بددیانتی ہے۔ایک یوگی نے تو یہ فرمان جاری کردیا کہ جو اسپتال یہ کہے گا کہ آکسیجن کی کمی ہے اسے جیل کی ہوا کھانا ہوگی اور اس کا لائسنس رد کردیا جائے گا۔بھارتی پولس کی بداخلاقی کا مظاہرہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے جس کا شکار یہاں کی غریب اور کمزور عوام ہوتی رہی ہے۔گودی میڈیاکو جھوٹ بولنے کا لائسنس ملا ہوا ہے۔چاپلوسی اور چمچہ گری ہی اس کی صحافت ہے۔ اس کی ایک آنکھ شاید پتھر کی ہے کیوں کہ اسے مرکز نظام الدین تو نظر آتا ہے مگر کمبھ نہیں۔
جس ملک کے حکمران،عدلیہ،میڈیا اورانتظامیہ کے اخلاق کاحال یہ ہو تو عوام کے اخلاق کی بات بے معنیٰ ہے اس لیے کہ لوگ اپنے بادشاہ کے طرز عمل کی نقل کرتے ہیں۔کورونا مریضوں سے لاتعلق ہو جا نا،ان کی خبر گیری نہ کرنا،ان کو تنہا چھوڑ دینا،کورونا سے مرنے والوں کی لاشوں کو ہاتھ نہ لگانا،ان کو کچرے کی گاڑی میں لے جانا،ان کو دریا میں بہا دینا،آکسیجن سلنڈر کو منہ مانگی قیمت پر بیچنا اور اس پر بھی گیس پوری نہ دینا،آکسیجن کا ذخیرہ کرنا،کفن چوری کرنا ، نقلی انجیکشن بنانا،پیسے لے کر رپورٹوں میں ہیرا پھیری کرنا ،فرضی ڈاکٹر بن کر مریضوں سے پیسہ ٹھگنا عوامی اخلاق کی بدترین مثالیں ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ انسانی سماج میں برے لوگ نہیں ہوتے لیکن ملک جب تباہی کی طرف ہو،ہر طرف موت کا ننگا ناچ ہو،یمراج دروازے کھٹکھٹارہے ہوں،انسان تڑپ رہے ہوں، نفسا نفسی کا عالم ہو، اس وقت اس طرح کے غیر انسانی واقعات کسی سماج کی کریہہ اوربدنما تصویر پیش کرتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس درمیان بہت سے ہاتھ مدد کے لیے بھی اٹھے ہیں،مفت آکسیجن بھی فراہم کرنے والے سامنے آئے ہیں،دوائیں تقسیم کرنے والے اور اسپتال بنانے والے بھی آگے آئے ہیں،لوگوں کو غلہ اور راشن تقسیم کرنے والے بھی دکھائی دیے ہیں۔لوگوں کی خدمت کے لیے اپنا سب کچھ بیچنے والے بھی واقعات ہیں,ہندو ارتھیوں کو مسلمان کاندھے بھی میسر آئے ہیں۔ہاں یہ سب بھی ہوا ہے لیکن اول تو یہ واقعات اتنے کم ہیں کہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں دوسرے یہ کہ جسم کا اگر ایک عضو بھی سڑجائے تو پورا جسم لاچار ہوجاتا ہے اس لحاظ سے اگر آپ جائزہ لیں تو بھارتی تہذیب کا بیشتر حصہ فالج زدہ ہے۔ منتری،سنتری سے لے کر ڈاکٹر اور ایمبولینس کے ڈرائیور تک نے اپنے اخلاق اور ضمیر کو بیچ دیا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے حالات میں سارے ہاتھ مدد کے لیے بڑھتے یا کم سے کم انسانیت کے دشمن خاموش تماشا ہی دیکھتے رہتے تو بھارت کی منفی تصویر سامنے نہ آتی۔مہاماری کے دوران غیرانسانی واقعات نے بھارت کو دنیا کے سامنے ذلیل کردیا ہے ۔دنیا کے تمام انسانی اور اخلاقی انڈیکس میں بھارت تیزی سے نیچے کی طرف جارہا ہے ۔وہی بھارت جس نے 2004میں یہ طے کیا تھا کہ وہ کسی طرح کی بیرونی امداد نہیں لے گا آج کٹورا لے کر بھیک مانگ رہا ہے۔کیا یہی آتم نربھر بھارت ہے؟
ہمیں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ سب سے بڑی دولت بھی اخلاق ہے اور سب سے کارگر ہتھیار بھی اخلاق ہی ہے۔یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ دولت اور ہتھیاروں سے جنگیں جیتی جاتی ہیں لیکن اس سے زیادہ یہ بات درست ہے کہ مادی وسائل صرف گردنیں جھکاتے ہیں اور اخلاق کی روحانی قوت دلوں کو مطیع بناتی ہے۔ جس ملک کی عوام اور حکمراں بدعنوانی میں ممتاز اور مشہور ہوں اس ملک کو وشو گرو بننے کے سپنے نہیں دیکھنے چاہیے۔بھارت کو اگر وشو گرو بننا ہے تو اس کے حکمرانوں اور اس کی عوام کو اخلاقی صفات اپنے اندر پختہ کرنا ہوں گی۔