مولانا عبد الحمید نعمانی
ہندوتو کے نام پر اکثریت سے تعلق رکھنے والے نفر ت پسند فسادی عناصر جو کچھ اقلیتوں اور محنت کش طبقے کے افراد کے ساتھ وحشیانہ حرکتیں کر رہے ہیں ، وہ کوئی بہادری نہیں بلکہ بزدلی اور شرمناک عمل ہے ، ایک دو آدمی کو سو پچاس فسادی جمع ہو کر جس ہجومی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اس نے ہندو تو کے وشو گرو بننے کے دعوے کو بدبو دار گٹر میں ڈال دیا ہے ، عورتوں کی عصمت و عزت کا حوالہ اور اقلیتوں کا خوف اکثریت میں پیدا کر کے جس طرح بھیڑ کو اپنے ساتھ لے کر اپنے سیاسی و سماجی تفوق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نے ہندوتو وادی سماج کے آدرش کو مزید تاریک جنگل میں گم کر دیا ہے ، تشدد و نفرت کے وحشیانہ اظہار ، برہمن وادیوں کو نظریاتی بحران سے نہیں نکال سکتا ہے ۔
وہ دہشت گردی کی راہ پر چل کر دہشت گردی پر تنقید و مقابلے کی لڑائی کی طاقت بچا نہیں سکتے ہیں ، گاندھی جی نے بڑی بصیرت و سمجھداری اور اخلاقی جرا ت سے کام لیتے ہوئے ، اکثریتی سماج کے شدت پسند عناصر کی مخالفت و مذمت کرنے کے ساتھ عدم تشدد کے حوالے دے کر بچانے کی کوشش کی تھی ، لیکن یہ صاف طور سے نظر آرہا ہے کہ گاندھی اور گاندھی واد اور جواہر لعل نہرو کا مسلک انسانیت انتہائی حد تک مغلوب و مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اسے گاندھی جی کے نظریے و تبصرے کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں گاندھی جی کے دو تین حوالے قابل توجہ ہیں ، کچھ تو آزادی سے پہلے ، قتل و غارت گری کے ماحول میں بنگال ، بہار کے ہندو مسلم قتل عام کا ہے ۔ اور کچھ آزادی کے بعد خصو صاً دہلی کے مسلم اقلیت کو قتل کا نشاہ بنانے کے پس منظر کا ہے ۔ اس سے جہاں قاتل عناصر کا چہرہ سامنے آجاتا ہے وہیں گاندھی جی کی اخلاقی جرا ت اور انصاف پسندی کے جذبے کی تصویر بھی نظر آجاتی ہے ۔
انھوں نے نوا کھالی کے فساد زدہ علاقوں کے تکلیف دہ ماحول میں کہاتھا "خواہ تم میری بات کا یقین کرو یا نہ کرو میں تمہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں تو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا خاد م ہوں ، میں اپنے مسلمان بھائیوں سے جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ ہندو بھائیوں کے دوست بن کر رہیں ۔ میں نے ان اشیاء(بکری کا دودھ ، پھل ، اناج وغیرہ )کو ترک کر دیا ہے اور اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک ہندو اپنے اس کیے پر نادم نہ ہوں جو انھوں نے بہار میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے ۔ ایک ہزار ہندو ؤں کا سو مسلمانوں کو گھیر لینا یا ہزار مسلمانوں کا سو ہندوؤں کو گھیر لینا اور ان پر ظلم کرنا بہادر ی نہیں ،بزدلی ہے ۔ برابر کی لڑائی تو وہ ہے کہ تعداد برابر ہو ، پہلے سے اطلاع دے کر لڑا جائے ،مگر اس کے یہ معنی نہیں ہے کہ میں اس لڑائی کو پسند کرتا ہوں ، کہا جا تا ہے کہ ہندو ، مسلمان دوستوں کی طرح ایک جگہ نہیں رہ سکتے ۔ نہ وہ آپس میں تعاون کر سکتے ہیں ، مجھے تو کوئی شخص بھی اس بات کا یقین نہیں دلا سکتا ہے لیکن اگر تمہیں اس بات کا یقین ہے تو ایسا کہہ دو اس صورت میں میں ہندوؤں سے نہیں کہوں گا کہ وہ اپنے گھروں کو واپس آئیں ۔ لیکن یہ واقعہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے موجب شرم ہوگا اگر بر خلاف اس کے تم چاہتے ہو کہ ہندو تمہارے ساتھ رہیں تو تمہیں ان سے کہہ دینا چاہیے کہ وہ فوج کی حفاظت پر بھروسہ نہ کریں ۔ بلکہ اس کے بجائے مسلمان بھائیوں پر بھروسہ کریں ۔ ان کی بیٹیاں ، بہنیں اور مائیں ،تمہاری بیٹیاں ، بہنیں اور مائیں ہیں اور تمہیں ان کی حفاظت اپنی جان کے برابر کرنا چاہیے ۔ (اخبار ہریجن یکم دسمبر 1946)
میں مسلمانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے گھروں میں جمے رہو، باوجود کہ ہندو پڑوسی تمہیں دق کریں یا مارڈالیں ۔ اگر تمہیں عقل نہیں ہے تو تم موت سے بچنے کے لیے بھاگ جاؤ لیکن اگر تم میرے مشورے پر چلو گے تو تم اسلام اور ہندستان دونوں کی سیوا کر سکو گے۔ وہ ہندو اور سکھ جو تمہیں ستائیں گے اپنے مذہب کو بدنام کریں گے اور ہندستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچائیں گے یہ سمجھنا محض دیوانگی ہے کہ ساڑھے چار کروڑ کو مٹایا جا سکتا ہے یا یہاں سے نکال کر پاکستان بھیجا جا سکتا ہے ۔ میں نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ مسلم شرنارتھیوں کو پولیس اور فوج کے ذریعے ان کے مکانوں میں از سر نو آباد کرایا جائے۔ مگر میں یہ ضرور مانتا ہوں کہ جب ہندو ؤں اور سکھوں کا غصہ دھیما ہوگا تو وہ خود ان تارکین وطن کو عزت کے ساتھ واپس لائیں ۔ البتہ میں حکومت سے یہ توقع ضرور کرتاہوں کہ وہ تارکین وطن کے مکانوں کواچھی حالت میں ان کے لیے محفوظ رکھے گی (ہریجن 10اکتوبر 1948)
گاندھی جی نے ہندوؤں اور سکھوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا
’’مسلمانوں سے دشمنی ایسی ہے جیسے ہندستان سے دشمنی ، میں کم ازکم جس بات کی توقع تم سے کرتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ تم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر وحشیانہ افعال کا ارتکاب نہ کرو گے ، ایسا ہوگا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ سماج ختم ہوجا ئے تم اور تمہارے اخبار کھلے الفاظ میں ان امریکیوں کو وحشی قرارد یتے ہیں جو حبشیوں کو lynchکرتے ہیں اگر تم بھی ایسے کام کرو تو کیا وہ کچھ کم وحشیانہ ہوں گے ۔‘‘ (دلی ڈائری 20جنوری 1948)
ماضی سے حال کو سمجھنے اور صحیح طور سے دیکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے ۔ فسادیوں ،قاتلوں کی موجودہ نسلیں کچھ برسوں سے پھر سر گرم عمل ہو گئی ہیں ۔ بار بار مسلمانوں کو پاکستان ،افغانستان بھیجنے کی باتیں اور زبردستی اپنی مذہبی علامتوں اور نعروں کو اپنانے اور ماننے کے لیے مجبور کر ری ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ گاندھی جی کے بہ قول وحشیانہ اور بزدلانہ عمل ہے ۔ مسلم حکومتوں کے کسی بھی دور میں غیر مسلموں سے زبردستی نعرہ تکبیر لگوانے کا کوئی حوالہ نہیں ملتا ہے ۔ یہ کمینگی اور بزدلی کی حد ہے کہ ایک فقیر، سبزی ،چوڑی بیچنے والے اور کسی چلتے پھرتے کسی تن تنہا آدمی سے یا سینکڑوں کی بھیڑ چند آدمیوں کو گھیر گھار کرزبردستی ،زدو کوب کرتے ہوئے جے شری رام اور زندہ باد، مردہ باد کا نعرہ لگوانے کی وحشیانہ حرکتوں میں ملوث ہوجاتی ہے ۔ یہ علامت وشو گرو بننے کی تو نہیں ۔ کسی کام کے لیے زور زبردستی اور تشدد کا سہارا لینے کا مطلب صاف ہے کہ نظریہ و عمل میں کوئی تاب و توانائی نہیں ہے کہ اسے کوئی بھی شریف و سمجھ دار آدی اختیار کرے ۔ ہندو تو میں اگر کوئی دم اور کشش ہے تو اس کو فرو غ دینے کے لیے فریب اور زبردستی کے فرمان کی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔ رام چندر کے تاریخی و تصوراتی ہونے کی بحث الگ ہے لیکن ان کے کردار میں زور زبردستی اور طاقت کے بل پر کسی بات کو منوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ وہ صبر و تحمل ، علم و شرافت اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے کے طور پر سماج کے سامنے آتے ہیں ، ان کے نام پر شیطانی اور وحشیانہ سیاہ حرکتوں کا ارتکاب کا صاف مطلب ہے کہ رام نام کے پردے میں راکشسوں کے کام کو انجام دینے کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔ پرانے پاپیوں نے آزادبھارت میں نیا لباس زیب تن کر لیا ہے ، اگر اکثریتی سماج نے اصلاح و انسداد پر توجہ نہیں دی تو اس کا مطلب بہ قول گاندھی جی یہ ہوگا کہ سماج ختم ہوجائے ، یہ افسوس ناک بات ہے کہ مہذب انسانی سماج کو مذموم جنگل راج میں بدل جانے کی راہ ،اقتدار کے زیر سایہ ہموار ہو رہی ہے۔
یہ مشترکہ آبادی والے ملک بھارت کی ترقی، استحکام اور نیک نامی کے لیے تباہ کن ہے ۔ ملک کو بے عزت اور بربادی سے بچانے کے لے ، فرقہ وارانہ اتحاد اور یک جہتی اور یکسو ہوکر بھارت کی ترقی کے لیے متحدہ جدو جہد کی جائے۔ پبلک سروکار والے مسائل پر توجہ دے کر حل کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ نفرت، علیحدگی اور سماج کو مذہب و فرقہ کے نام پر تقسیم کرنے کی کوئی بھی کوشش ، کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کو تو تھوڑی بہت کامیابی تو دلا سکتی ہے ۔ لیکن ملک و قوم کے مجموعی مفاد میں قطعی نہیں ہے ۔ ہندوتو برانڈ کو جس طرح ایک کاروبا کی شکل دی جارہی ہے ۔ اس کے اثرات و نتائج مستقبل میں بڑے دور رس اور مضر مرتب و برآمد ہوں گے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)