تحریر : مسعود جاوید
ان دنوں افغانستان کے تعلق سے ہمارے یہاں دینی جذبے سے سرشار بہت سے لوگ حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر عقلی غیر منطقی بلکہ غیر شرعی باتیں کر رہے ہیں۔
عراق کے گورنر کی تقرری کی بات سامنے آئی تو ارکان شوری سے مشورہ طلب کیا گیا شوری کی اکثریت نے ایک شخصیت کی سفارش کی، خلیفہ مسلمین نے پوچھا کہ آپ سب کا اس نام پر اتفاق کی وجہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا بلا ناغہ وہ تہجد گزار ہیں، وقت سے پہلے مسجد پہنچ کر جماعت سے نماز ادا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ…. خلیفہ مسلمین نے کہا کہ یہ اس عبادت گزار اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے۔ کسی کو پرکھنے کا معیار اس کی عبادات نہیں معاملات ہیں۔ کیا آپ میں سے کسی نے ان کے ساتھ تجارت کی ہے ؟ کیا آپ میں سے کسی نے ان کے ساتھ شراکت کی ہے؟ کیا آپ میں سے کسی نے ان کے ساتھ لین دین قرض لیا یا دیا ہے ؟ کیا آپ میں سے کسی نے ان کے ساتھ سفر کیا ہے؟ یہ وہ مواقع ہیں جس میں انسان کی پرکھ ہوتی ہے کہ معاملات میں وہ کھرا ہے یا نہیں! ملازم کے ساتھ اس کا سلوک کیسا ہے۔ اسے بنی نوع آدم اور آزاد مکرم انسان سمجھتا ہے یا مجبور و لاچار غلام سمجھ کر استحصال کرتا ہے۔
یہ دنیا دارالاسباب ہے ، کسی کام کے ہونے کے لئے اسباب کی ضرورت ہوتی ہے۔ مرض کا علاج کے لئے دوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ غلہ اگانے کے لئے زرخیز زمین، مناسب آب و ہوا موسم اور آبیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیاس بجھانے کے لیے پانی یا دیگر مشروب اور بھوک مٹانے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اندھیرے کو دور کرنے کے لئے چراغ، قندیل یا روشنی کرنے والے دیگر ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے تاہم ان ذرائع کو واضع نے جن مقاصد کے لئے وضع کیا ہے موجد نے جس غرض کو پورا کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے انہی اغراض کے لیے مفید اور کارآمد ہوں گے۔ پانی یا مشروب سے بھوک نہیں مٹے گی، سماجی علوم کی مدد سے سائنسی ایجادات نہیں کئے جا سکتے…. خالص دینی علوم سے سیاسی، اقتصادی ، عمرانی، عسکری، سفارتی اور عصری علوم کے تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے۔ دنیاوی نظام کے لئے دنیاوی علوم میں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اگر دنیاوی امور کی تعلیم اور تربیت دینی علوم کے ساتھ ہو تو نور علی نور…
افغانستان کے تعلق سے کچھ باتیں معقول کی جا رہی ہیں تو کچھ نامعقول…. مثال کے طور پر اس پر فخر کرنا کہ اب وہاں کی حکومت ’ ملاؤں‘ کے ہاتھوں میں ہے! کابینہ میں ایک بھی وزیر بغیر داڑھی کے نہیں ہے! اب طلباء دنیا کو سیاست سکھائیں گے ! یہ غیر منطقی باتیں ہیں۔
ٹریفک پولیس نے گاڑی یا بائیک والے سے لائیسنس مانگا ڈرائیور دعا : ‘ سبحان الذي سخر لنا هذا و ما كنا له مقرنين و انا إلى ربنا لمنقلبون ‘ پڑھ کر سنا دے اور پولیس والے اس کا چالان نہ کرے…. وزیر تعلیم عصری تعلیم کی ڈگریوں کی وقعت حیثیت اور اہمیت سے انکار کرے ….. یہ نامعقول بات ہے…. اسلامی امارت ملٹی اسپیشیلٹی ہاسپیٹل کی جگہ روحانی علاج ، رقیہ اور طب نبوی کے مراکز ، سائنس و ٹیکنالوجی کے مراکز کی جگہ مراقبہ، حال طاری ہونا، فنا فی اللہ اور کشوف و کرامات کو فروغ دینے لگے تو یقین مانیں ایسی حکومتیں بنیادی کام کرنے سے دامن چرانے کے لئے عوام کو مذہبی افیون کی گولی کھلاتے ہیں۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ اسی کو مذہب اور ریاست کا بنیادی کام سمجھنے لگتا ہے۔ اس طبقہ کی نظر میں اسلام کی بالا دستی ان ہی امور کی بحالی میں پوشیدہ ہے اسلام کی گم گشتہ شوکت لوٹانے کے یہی ذرائع ہیں۔
مثالی روش تو یہ ہے کہ وزیر تعلیم اعلی تعلیم یافتہ ہو، وزیر صحت ڈاکٹر یا اپنے میدان میں اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والا ہو، انفارمیشن ٹیکنالوجی وزارت کا قلمدان کسی آئی ٹی ڈگری ہولڈر کو ملے …..
لیکن ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ حکومت سیاسی سربراہان کم اور بیوروکریٹ زیادہ چلاتے ہیں ۔ ہر ملک میں ایڈمنسٹریٹو سروسز ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے وزراء کا مثالی تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے اور ممکن بھی نہیں ہے اس لئے کہ زیادہ تر ملکوں میں انتخاب لڑنے کے لئے کم از کم تعلیمی لیاقت طے نہیں ہے اور ظاہر ہے منتخب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی کو ہی قلمدان وزارت سونپے جاتے ہیں۔ لیکن جہالت، کم علم اور علم دشمن میں فرق ہوتا ہے۔ جاہل وزیر خاص طور پر جو وزارت کے زعم میں سرشار ہو وہ علم اور اہل علم کی اہانت کرنا اپنا فریضہ منصبی سمجھے گا ، کم علم وزیر غلط فیصلے کرے گا اور علم دشمن وزیر تعلیمی اداروں کے بجٹ میں کٹوتی کرے گا اور دانشگاہیں اسے بغاوت کے اڈے نظر آئیں گی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)