تحریر : مسعود جاوید
دینی ماحول میں عصری تعلیم دینے کے لئے اسکول و کالج بالخصوص گرلس اسکول، گرلس انٹرمیڈیٹ کالج اور ویمین کالج قائم کرنا بہترین دینی و ملی خدمت ہوگی تاہم جنوبی ہند کے بعض تعلیمی اداروں میں حجاب کے تعلق سے ہنگامہ کے پیش نظر مسلم لڑکیوں کے لئے الگ اسکول و کالج قائم کرنے کا بیانیہ نقصان دہ ہے۔ تعلیم اور صحت فراہم کرنا رفاہی ریاست ؍ ویلفیئر اسٹیٹ کا فریضہ منصبی ہے ہمیں کسی بھی نام پر علیحدہ اسکول ہسپتال اور کالونی کا مطالبہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایسی علحدگی ہی ہمارا سوشل بائیکاٹ کا خشت اول ہوگا۔ کیا کیا اور کہاں کہاں آپ اسکول بنائیں گے آج اسکول و کالج کا مسئلہ ہے کل ہسپتال کا ہوگا پھر کمیونٹی سنٹر کا ہوگا میرج ہال کا ہوگا۔
ہندوستان ایک متعدد ادیان اور متنوع تہذیب و ثقافت والا ملک ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بولیاں بدل جاتی ہیں ہر خطے کے لوگوں کی الگ زبان ہے ایک دوسرے سے مختلف کھانے پینے کی عادات، لباس رسم و رواج ہیں لیکن ان تمام اختلاف اور تنوع کے باوجود بحیثیت قوم ہم سب ہندوستانی ہیں۔ اور ایک دوسرے کے مذاہب، رسوم و عقائد اور عادات کا احترام کرتے ہیں ۔ اسی لئے ہندوستان کا طرۂ امتیاز رواداری ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں مسجد کی عمارت کے سامنے یا بازو میں مندر گرودوارہ یا چرچ ہے کہیں سے اذان کی آواز آتی ہے تو کہیں بھجن اور کہیں گرو گرنتھ صاحب کی وانی۔۔۔ کسی کو نہ جے شری رام سے دقت ہوتی ہے نہ اللہ اکبر سے اور نہ ہی واہے گرو سے اس لئے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جس کے تحت ہم سب اپنے اپنے مذہبی عقائد، مسلمات ، شعائر اور رسوم ورواج پر عمل کرنے کے لئے آزاد ہیں اور دوسرے مذاہب والوں کے عقائد مسلمات اور رسوم ورواج و شعائر کا احترام کرنے کے پابند ہیں۔
اسکول یونیفارم میں جانا لازمی ہے۔ بعض کالجوں میں بھی یونیفارم میں جانا لازمی ہوتا ہے۔ تاہم اگر تعلیمی اداروں کے ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے دینی شعائر کی بھی پابندی کی جائے تو عموماً تعلیمی اداروں کے انتظامیہ کو اعتراض نہیں ہوتا ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے الا یہ کہ وہ مذہبی شعائر امن عامہ، اخلاقیات اور صحت کے تحفظ کے منافی ہو۔ اگر مذکورہ بالا تینوں شرائط کسی شعائر کی اتباع میں نہ پائی جائے تو پھر پابندی لگانا مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہوگا۔
کرناٹک میں جو ناٹک ہو رہا ہے بادی النظر میں وہ شرپسندوں کی شرارت سے کہیں زیادہ سیاسی مضمرات کا حامل ہے۔ اس لئے کہ کسی بھی عام باشعور اور غیر فرقہ پرست انسان کو کسی مذہب کے ماننے والوں کے کھانے پینے پہننے کی اشیاء ، طور طریقوں اور رسم ورواج سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر عقل سے پرے بعض غیر موضوع کو موضوع بحث بنا کر مذہبی بنیاد پر صف بندی کرنا چاہتے ہیں۔ کسی کو دیوالی کے موقع پر اشتہارات میں ’جشن ‘لکھنے اور’ رواج‘ لکھنے پر اسلامی کرن نظر آتا ہے تو کسی کو ہرے رنگ میں اسلام نظر آتا ہے۔ بعض اوقات نے لکھاری اور جوشیلے مسلمان بھی ہر واقعہ کو ہندو مسلم کی عینک سے دیکھتے ہیں! کھانے پینے کی اشیاء اور لباس علاقے کی سردی گرمی اور موسم طے کرتے ہیں۔ اسلام کا دخل اس میں حلال حرام کی حد تک ہے۔ اس کے علاوہ اڈلی ، سانبھر ،ڈوسا ،رسم ، اپما ہندوانہ کھانے ہیں نہ مسیحیوں کے اور نہ مسلمانوں کے بلکہ یہ جنوبی ہند کے لوگوں کے، بلا تفریق مذہب، کھانے ہیں۔ لنگی تہبند، ساڑی ہاف ساڑی شرٹ اور بلوز پر کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے توسط سے ہندوستان کا ہر علاقہ ہی نہیں پوری دنیا ایک گاؤں میں سمٹ گئی ہر ایک علاقہ کے رہنے سہنے کھانے پینے اور پہننے کے لباس اور طور طریقوں سے دوسرے علاقوں کے لوگ پل پل واقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ جنوبی ہند کی لڑکیوں نے اسکرٹ بلاؤز کے مقابل پنجابی یعنی شلوار قمیض یا چوڑی دار جمپر کو پسند کر کے اپنایا۔
یہ خطرناک روش سامنے آ رہی ہے کہ دینی شعائر پر انتظامیہ سے کہیں زیادہ بعض گروہ کو اعتراض ہو رہا ہے۔ سکھ قوم کے طلباء پوری دنیا میں پگڑی اور کڑے پہن کر تعلیمی اور دیگر اداروں میں جاتے ہیں کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا اور بعض یورپین ممالک میں ہوا بھی تو سکھ کمیونٹی نے عدالت سے رجوع کر کے پابندی ہٹوائی۔
عدالت عظمیٰ ہند نے 1986 کے اپنے تاریخی فیصلے میں تین طلباء بمقابلہ ریاست کیرالہ کے دوران قومی ترانہ نہ گانے پر ان کے اسکول کی ہیڈ مسٹریس کے ذریعہ مسیحیوں کے ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے تین بچوں کے اخراج کو غلط ٹہرایا تھا۔
بچوں نے اسکول کی کارروائی کو آرٹیکل 19(1)(a) (آزادی اظہار اور اظہار رائے کا حق) اور آرٹیکل 25 (مذہب کی آزادی) کے تحت ان کے حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر چیلنج کیا تھا۔ فیصلہ بچوں کے حق میں آیا۔
سپریم کورٹ نے بچوں کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ قومی ترانہ گانے سے انکار کرنے پر ’ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے‘ نکالنا ان کے مذہب اور ضمیر کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ اس فیصلے کے لئے پیمانہ وہی شرائط ہیں کہ مذہبی شعائر 1- امن عامہ،2- اخلاقیات اور 3- صحت کے تحفظ کے منافی نہ ہو۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)