تحریر:ابو فہدندوی
اٹھایا ہوا پیر پہلے زمین پر رکھ لیں پھر دوسرا پیر اٹھائیں۔نہیں تو وہی ہوگا جس کی آپ کوتوقع بھی نہیں ہوگی۔ یعنی زمین کو چھوڑیں گے تو منہ کے بل زمین پر ہی آگریں گے۔یہ میں اس پس منظر میں لکھ رہا ہوں کہ موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی مسلم قیادت سے بیزار اور بے نیاز ہورہے ہیں۔ عوام اور قیادت کے درمیان دوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔قیادت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی، لائق بھی اور نالائق بھی اور کئی بار حالات آدمی کو یا قیادت کو ایسا بنادیتے ہیں، یعنی لائق ونالائق۔تاہم قیادت کے بغیر کوئی قوم نہ آج تک رہی ہے اور کل قیامت تک رہے گی۔ قیادت معاشرتی زندگی کے بالکل بنیادی عناصر میں سے ایک ہے۔
میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ موجودہ صورت حال میں مسلم قیادت اپنی ذمہ داریاں اداکرنے میں کوتاہ ہے، ساتھ ہی اس بات کو بھی مانتا ہوں کہ آج حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ ان سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ اور میں یہ بھی مانتاہوں کہ قیادت کا ہاتھ چھوڑدینے میں کچھ غلط نہیں ہے۔ اوریہ کہ قیادت کے فیصلے اور رڑنیتیاں ہمیشہ ہی بہتر نہیں ہوتیں۔
مگر بات دراصل یہ ہے کہ زمین ہموار کیے بغیر قیادت کو تبدیل کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ جی ہاں! اور ایسا پہلے بھی کرچکے ہیں۔ملک کی ایک بڑی پارٹی کو ہمارے بیشتر لیڈران نے چھوڑ دیا ، اورپھر چھوڑنے سے پہلے اپنے لیے کوئی بیس نہیں بنائی تھی۔ آج نتیجہ سامنے ہے کہ مسلمان بے قیادت ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اگلا قدم زمین پر رکھنے سے پہلے پچھلا قدم بھی اٹھالے اور پھر چشم زدن میں دھول چاٹتاہوا نظر آئے۔ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا ساتھ چھوڑنے سے پہلے اپنے لیے راستے بھی تو بنانے تھےجو ہم نے نہیں بنائے او رآج بے راہ رو کی طرح بھٹک رہے ہیں۔
ہم اجتماعی معاملات میں ایسا کرتے ہیں جبکہ نجی معاملات میں ایسا نہیں کرتے،بیشتر آدمی پرانا کاروبار یا جاب تبھی چھوڑتے ہیں جب وہ نئی جاب او ر نیا کاروبار تلاش کرلیتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمان ماضی میں ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے ساتھ جو کچھ کرچکے ہیں وہی سب کچھ موجودہ مسلم قیادت کےساتھ بھی کرنے جارہیں ہے۔ آج ہر دوسرا پڑھا لکھا اور غیر پڑھا لکھا شخص قیادت سے دامن چھڑانے کی بات کررہا ہے اور باوجود اس کے کہ پرانی اور موجودہ قیادت کی جگہ نئی قیادت کا ڈھانچہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔
مثالوں سے چونکہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے اس لیے میں نے تمثیلی پیرائے میں اپنی بات رکھی ہے ۔ورنہ میرا مطلب یہی ہے کہ قیادت جیسی بھی ہے ابھی اس کے ساتھ ہی رہیں، اسے بدلنے کی فکر بے شک کریں مگر اس سے برگشتہ ہوکر نہ بھاگیں۔
بھاگنا بھی کچھ غلط نہیں مگر پہلے بھاگنے کے لیے راہیں تو تعمیر کرلیں۔ اور اس نکتے پر بھی پہلے غورکرلیں کہ مخالفین تو یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان بے قیادت بھیڑ کی طرح ہی رہیں ۔تاکہ ان کے لیے مسلمانوں کا شکار کرنا مزید آسان رہے ۔ سازشوں کے جا بجا پھیلے ہوئے جال بھی دیکھ لیں اور تبھی کوئی فیصلہ کریں۔ دشمن کی یہ جانی پہچانی رڑنیتی رہی ہے کہ اگر وہ کسی قوم کو مزید کمزور کرنا چاہتا ہے تو اس کے ایمان وعقیدے کو اس کی نظروں میں مشکوک بناتا ہے، قیادت اور عوام کے درمیان دوریاں پیدا کرتا ہے اورپھر چاروں طرف سے وار کرتا ہے۔
اس لیے اختلافات کے باوجود اور نااتفاقیوں کے باوجود متفق رہنا اور یک جٹ رہنا ضروری ہے۔
(فیس بک وال سے)