مولانا عبد الحمید نعمانی
بھارت ایک گلدستہ کی طرح ہے، یہاں کسی ایک چیز یا خود کو بھارت سمجھ لینا سراسر بے دانشی اور تنگ نظری ہے اس میں مختلف مذاہب و روایات اور افکارو اشخاص سے منسوب جو کچھ بھی ہے وہ بھارت کے تہذیب و تمدن اور گزرتے وقت کا حصہ اور گواہ ہے ۔ اجنتا ایلورا اور ہندی بھی بھارت کا حصہ ہیں تو تاج محل اور اردو بھی اس کی پیشانی کا جھو مر ہیں، کسی چیز کے نام اوراس کی تاریخ کو بد لنے اور ختم کرنے کی کوشش ،ذہنی و عملی فساد اور متعدی بیماری ہے ،جس سے بچانے کی ذمہ داری ہر صحت مند شہری کی ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے عناصر ملک میں نمودار ہورہے ہیں جو بھارتیہ سنسکرتی اور آدرش کے نام پر بھارت کو ختم کرنے اور اس کا نقشہ بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں ، ایک معروف ٹی وی چینل کے خصوصی پروگرام ’عدالت‘میں یوگی مہاراج نے گورکھپور کے علی بازار کو ایشور بازار اور اردو مارکیٹ کو ہندی بازار میں بدل دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دیس کے مفاد اور بھارت کے موافق جو بھی ہوگا وہ سب کیا جائے گا،لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ علی بازار اور اردو مارکیٹ بھارت سے غیر موافق کس طرح ہے؟ اردو بازار اور مسلم نام والے مظاہر کی طرح فرقہ پرست عناصر کو تاج محل سے بھی بڑی دقت ہے،اسے بھی مغل اور مسلمانوں کے حوالے سے قبول کرنے کے لیے ، بیمار ذہن کے عناصر تیار نہیں ہیں ، اس کی جڑ میں بد ذوقی ،عدم اعتراف ،تنگ نظری اور حسد کی جان لیوا بیماری ہے ۔ اسے بڑھاوا دینے کا کام پی ،این، اوک نے کیا تھا، انھوں نے تاریخ کے نام پر تاریکی پھیلانے کا جو کام شروع کیا تھا ، اس سے دور ہونے کے بجائے تاریک پسند اسے دوا سمجھ کر بطن و باطن میں اتارتے چلے گئے ۔
تاریخ و تذکرہ کے علم سے نا بلد فرقہ پرستوں کو یہی معلوم نہیں ہے کہ شاہ جہاں ہندو مسلم ماں باپ کا نمائندہ ہے، اکبر کے زمانے سے خاص طور سے فرقہ وارانہ اتحاد اور ہندو مسلم کے ملن کے نتیجے میں جو ماحول پیدا ہوا اس نے بھارت میں ایک مخصوص قسم کے مشترکہ تہذیب و تمدن کو فروغ دیا، جس کے اثرات زندگی کے مختلف شعبے کے علاوہ فن تعمیر پر بھی پڑے ہیں ، اس کے نمونے ہندو مسلم دونوں حکمرانوں بلکہ عوام کے کاموں اور افکار میں نظر آتے ہیں ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر مسلم حکمراں کے کام میں مسلم تہذیب و تمدن کے کچھ نمو نے دیکھ کر اسے اس کے کار نامے سے خارج کر دیا جائے ، یا کسی مسلم حکمراں کے کام میں غیر مسلم نمونے کو دیکھ کر اسے اس کے کارنامے کی فہرست سے خارج کر دیا جائے ، لیکن اس طرح کی بے دانشی کا سلسلہ جاری ہے ۔
سدھا نشو ترویدی جیسے تعلیم یافتہ، پارٹی ترجمان، راجیہ سبھا کا ممبر بھی تاج محل کو شاہ جہاں کے کارنامے سے خارج کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اس سے اس خیال کہ تقویت ملتی ہے کہ غلط صحبت اور فساد زدہ ماحول میں کیسے کیسے ویسے ویسے ہوجاتے ہیں ، تاج محل میں چوں کہ بھارت کا پیسہ اور مزدورلگے تھے اس لیے اس کو شاہ جہاں اور مغل و مسلم آثار و کار نامے کی فہرست سے خارج کر دیا جائے ، اس طرح کی باتیں جب کھلے عام، نیشنل چینلز پر کی جاسکتی ہیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اندرون خانہ ،کیمرے کی آنکھوں سے دور کیا کچھ کہا جاتا اور کیا جاتا ہوگا۔
سنسکر تی او ر تہذیب و ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے تہذیب و تمدن کے اعلی آثار و مظاہر سے ان کا رشتہ ختم یا کم کرنے کی کوشش آدمی کی ذہنی کجی و خرابی کو ظاہر کرتی ہے، تاج محل سے شاہ جہاں کا رشتہ ایک تاریخی اور معروف حقیقت ہے ، اسے کچھ لوگوں کا اندھا پن نہ بدل سکتا ہے نہ ختم کرسکتا ہے ، اس سلسلے کے تمام تر ریکارڈ اور دستاویزات متعلقہ معاصر تواریخ میں محفوظ و مند رج ہیں ، مودی سرکار کی طرف سے تعمیر کردہ کسی سڑک ،اسپتال ،یونی ورسٹی کو اس کی خدمات و کارنامے سے محض اس لیے خارج نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ بھارت کے عوام کے پیسے اور مزدوروں کے ذریعے تعمیر ہوئی ہے ،لیکن ہندو تو وادیوں ،صہیونیوں اور یوروپ و مغرب کے حکمراں طبقے کے تنگ نظر، اخلاق و دیانت سے محروم افراد عدم اعتراف اور اخلاقی جرات کی کمی کے کوڑھ روگ میں سدا سے مبتلا رہے ہیں ، مسلم ترقی یافتہ دور غلبہ میں یوروپ تاریکی کی حالت میں غرق تھا اس کے پیدا کر دہ جاری ماحول میں جو مستشرقین اور انتظامیہ میں شامل افراد نے اپنے دور کے مسلم سماج کو ذ لیل و حقیر باور کرانے کے لیے اس تاثر کو عام کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی نظر یہ اور مسلم سماج میں وہ صلاحیت و توانائی کہاں ہے کہ تاج محل ، لال قلعہ وغیرہ کی تعمیر کی جاسکے ۔ تاج محل کی عمارت اس قدر دل آویز،خوبصورت اور دلکش ہے کہ باذوق آدمی اسے د یکھ کر مبہوت ہوجاتا ہے فنی لحاظ سے مہارت و فن کاری کا مکمل اور اعلیٰ ترین نمونہ ہے یہ ملک کے قومی تصور و نظریے کے تناظر میں بھارت کا ورثہ قرار پاتا ہے ، جب کہ فرقہ وارانہ ذہنیت کے تحت وہ غلامی کی علامت قرار پاکر قابل انہدام ہوجاتا ہے دوسری شکل یہ ہے کہ عمارتوں و آثار کا ہندو کرن کر کے اسے اپنے کھاتے میں ڈال لیا جائے ، ہندو تووادی عناصر میں یہ دونوں قسم کے افراد پائے جاتے ہیں منکر ہونے کی ذلت اور اپنانے کی مجبوری کی کھینچا تانی نے چہرے کی ہیت و رنگت کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔
دوسری طرف مغلوں ، مسلمانوں اور شاہ جہاں کے فکرو عمل کے نتیجے میں وجود میں آنے والے آثار و عمارات کے کلی انتساب کے اعتراف سے ان کی تہذیبی برتری ثابت ہوتی ہے اس سے برٹش سامراج کو منفرد و ممتاز اور اعلیٰ نمونہ باور کرانے کے مشن پر زد پڑتی ہے اس سے تحفظ کا طریقہ یا تو یہ ہے کہ احساس جمالیات سے بھر پور آثار کو اپنا کارنامہ قرار دے دیا جائے یا منہدم و مسخ کردیا جائے ، اس لحاظ سے ہندوتو وادی اور یوروپی عناصر ایک جگہ ایک ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ،تاج محل وغیرہ کا وجود، ہندو تووادی اور یوروپی عناصر کے لیے اس میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے کہ مغل اور مسلم دور حکومت کو تاریکی و جہالت میں ڈوبا باور کرایا جاسکے ۔
اس نے دونوں کے احساس برتری کو ضرب لگانے کا کام کیا ہے ، برٹش سامراج کے غلبے کے دور میں اس کی شہہ پر پہلے تو لٹر یرو ں نے تاج محل کی عمارت سے قیمتی پتھر اور سامان کو لوٹ لیا، اس لوٹ مار میں انگریزوں نے بھی برابر کا حصہ لیا،’ گم شدہ تاریخ‘ میں معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے ذکر کیا ہے کہ ولیم پینٹنک کے وقت میں برطانوی حکومت ہند نے فیصلہ کیا کہ دہلی،آگرہ کی مغلوں کی تعمیر کردہ عمارتوں کو منہد م کر کے ان کے سنگ مرمر کو انگلستان کی منڈیوں میں فروخت کر کے روپیہ حاصل کیا جائے۔ اس فیصلے کے تحت دہلی کے قلعہ کی عمارتوں سے سنگ مرمر اکھیڑ کر انگلینڈ روانہ کردیا گیا۔ تاج محل کو بھی گرا کر سنگ مرمر حاصل کرنے کی غرض سے مشینیں آگرہ روانہ کر دی گئیں لیکن تاج محل کی خوش قسمتی سے پہلے کا بھیجا سنگ مرمر کا نیلام کامیاب نہیں رہا اور یوں تاج محل مسمار ہونے سے بچ گیا۔
دوسری طرف تاج محل کو پسند کرنے والے لارڈ کر زن وائسرائے بن کر آئے، جنھوں نے تاج محل کی عمارت کی مرمت کرائی اور نکالے گئے پتھروں کو سابقہ جگہوں پر لگوایا اس کے نتیجے میں تاج محل، سابقہ جمال و تابانی کے ساتھ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ لیکن آزادی کے بعد سے مسلسل اس کے وجود کو مشکوک و منہدم کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ گزشتہ کچھ برسوں سے ان میں ایک خاص طرح کی تیزی آئی ہے ۔ فرقہ پرست ہندوتووادی عناصر مغلوں کو تاج محل اور اسی کی تعمیرسے پوری طرح محروم کردینے پر آمادہ ہیں وہ اس طرح کی عمارتوں کو غیر ملکی قبضہ کی علامت قرار دے کر ان کے کارناموں سے انکار پر مصر ہیں ، راجپوت ہندو ماں کے بیٹے شاہ جہاں وغیرہ کو غیر ملکی قرار دینے میں جہالت کار فرما ہے ورنہ سچائی تو یہ ہے کہ شاہ جہاں سے لے کر سارے مغل حکمراں ہندستانی تھے اور ان کی تعمیر کردہ عمارتیں اور آثار باقیہ بھارت کا حصہ ہیں ، عد م اعتراف اور عدم برداشت کی خرابی نے بہتر سماج کی تشکیل میں ہمیشہ رکاو ٹیں کھڑی کی ہیں اس طرح کی سوچ اور عمل بھارت کے مفاد میں قطعاً نہیں ہے۔