تحریر:کلیم الحفیظ -نئی دہلی
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔اس کے باوجود ہر دہشت گرد کا کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہوتا ہے۔ایک عرصہ ٔ دراز سے دہشت گردی کا الزام اسلام اور مسلمانوں پر لگتا رہا ہے۔دہشت گردی کا کہیں بھی کوئی واقعہ ہوا ،اس کاالزام مسلمانوں پر لگادیا گیا ۔حالانکہ اس کی کوئی تحقیق بھی نہیں ہوئی ۔یہ معاملہ ساری دنیا میں رہا ۔ہر جگہ مسلمان مار کھاتے رہے ،دبائے جاتے رہے ،مگر ذرا سا کسی نے انتقاماً کوئی کارروائی کی تو ساری دنیا کے خود ساختہ امن کے علم بردار اسلام اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہراتے رہے۔مسلمان دفاعی پوزیشن میں رہے ،عام مسلمان سے لے کر دانشور تک نے چینخ چینخ کر کہاکہ اسلام کسی بے گناہ کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس کے باوجود ساری دنیا نے مل کر مسلمانوں کو کچلنے کا فریضہ انجام دیا۔فلسطین ،افغانستان اور عراق اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔فلسطین میں یہودی ریاست کی دہشت گردی،افغانستان میں پہلے روسی کمیونزم اور اس کے بعد امریکہ کی قیادت میں سیکولرزم کے علم برداروں کی دہشت گردی اور عراق میں کیمکل ہتھیاروں کی تلاش میں بیس لاکھ انسانی جانوں کا قتل دنیا کو نظر نہیں آیا۔
وطن عزیز بھارت جس نے انگریزوں کے دور غلامی میں اذیت ناک تکالیف برداشت کیں ،جس نے اپنی آزادی کے لیے لاکھوں انسانوں کی قربانیاں دیں،جوبرطانوی دہشت گردی کا شکار ہوا۔اب یہاں ایک نئی قسم کی دہشت گردی نے جنم لے لیا ہے جسے ہم ’’زعفرانی دہشت گردی ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔یوں تو اس زعفرانی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی داغ بیل 1925میں اس وقت پڑ گئی تھی جب آر ایس ایس نامی تنظیم وجود میں آئی تھی۔لیکن اس کی عملی شکل 30جنوری1948کو اس وقت سامنے آئی جب راشٹر پتا مہاتما گاندھی کا قتل ہوا۔اس قتل کی وجہ ہی یہ تھی کہ گاندھی جی نے سنگھ کے نظریات اور مطالبات کے بر عکس ملک کے لیے جمہوری نظام کو پسند کیا تھا۔جب کہ سنگھ کی خواہش تھی کہ ملک میں منو اسمرتی کا نظام قائم ہو۔اس کے بعد جب تک بھارت میں وہ لوگ حکمراں رہے جنھوں نے جنگ آزادی کی تحریک کو قریب سے دیکھا تھا،یا جنھیں باپو کی صحبت ملی تھی،تب تک ہندو فرقہ پرستی کو زیادہ آکسیجن نہ مل سکی ،لیکن جیسے ہی وہ نسل ختم ہوئی ،زعفرانی فرقہ پرستی کے ناگ نے پھن اٹھانا شروع کردیا۔بابری مسجد میں موریتاں رکھنے سے لے کر انہدام تک کے سارے مراحل اسی دہشت گردی کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔
ایک وقت وہ تھا جب عوام کسی بھی قسم کی انتہا پسندی سے نفرت کرتی تھی ،فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمان پولس فورس کی زیادتیوں کا شکار ہوتے تھے،ملیانہ،ہاشم پورہ،بھاگلپور اور مرآداباد اس کی مثالیں ہیں،اتر پردیش میں بدنام زمانہ پی اے ایسی ہوا کرتی تھی جس کو مسلمانوں کے قتل کا سرٹیفکیٹ حاصل تھا۔اس کے بعد ٹاڈا ،پوٹا اور اب یو اے پی اے ہے جس کے تحت مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کی جا رہی ہیں۔یہ سب ریاستی دہشت گردی ہے،مگراس وقت ملک میں زعفرانی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔اس لیے کہ اس کے ذریعے کی جانے والی تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کو سرکار کی حمایت حاصل ہے۔دہشت گردی کی نئی لہر میںمسلمانوں کے قاتلوں کو باعزت رہا کیا گیا،ہندتووادیوںنے انھیں اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہوئے ان کی عزت افزائی کی۔اسلامی شعائر کی بے حرمتی پر حکومتیں خاموش رہیں۔ہجومی تشدد کے ذریعے مسلم نوجوانوں کو مارا گیا۔گائے کے نام پر تو پہلے بھی مسلمانوں کو زدو کوب کیا جاتا تھا مگر اب کچن جھانک کر دیکھنے کا نیاسلسلہ شروع ہوا۔گائے کے نام پر بنی گئو شالائوں میں روزانہ درجنوں گائیں مررہی ہیں ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں مگر کسی مسلمان کی زبان پر گائے کا نام بھی آجائے تو زبان کاٹ لینے کی دھمکی دی جارہی ہے۔دہشت گردی کی نئی لہر میں دھرم سنسد منعقد کرکے مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا جارہا ہے ،دارالعلوم دیوبند اور بریلی کو بند کرنے کی منصوبہ بندی ہے،تین طلاق بل لاکر مسلم خواتین کو آزادی دلانے کا ڈھونگ کرنے والے ہی حجاب کا مسئلہ اٹھا کر مسلم بچیوں کو تعلیم سے روک رہے ہیں۔یوپی ایس سی میں جامعہ ملیہ کے طلبہ کی نمایاں کامیابی کو یو پی ایس سی جہاد کانام دے کر مسلمانوں کے لئے اعلیٰ مناصب کے دروازے بند کیے جارہے ہیں ۔یہ تمام حربے ہیں جوزعفرانی فکر رکھنے والے ہندو راشٹرکے قیام کے لیے اپنارہے ہیں۔
زعفرانی دہشت گردی کے ذیل میں جہاں مندرجہ بالا واقعات ہیں وہیں حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی پر قاتلانہ حملہ بھی ہے ۔ جس میں حملہ آور وں کا تعلق ہندو سینا سے ہے ،ریاست کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ان کے فوٹوز ہی نہیں بلکہ ان کو وزیر اعلیٰ کا آشیرواد بھی حاصل ہے۔ملک کی تاریخ میں یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ اب مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے والا بھی محفوظ نہیں ہے ۔دو بار کے ایم ایل اے ،چار مرتبہ سے ممبر پارلیمنٹ،ایک پارٹی کا قومی صدر اور بیسٹ پارلیمنٹرین کا خطاب حاصل کرنے والاایک مسلمان شہری محفوظ نہیں ہے ۔عام مسلمانوں کی حفاظت کا تو سوال ہی نہیں ۔اس پر مزید یہ کہ نہ گولی چلانے والوں کو کوئی افسوس ہے نہ ان کے آقائوں کو۔بلکہ ہندو سینا کے لیڈران نے ان قاتلوں کی قانونی مدد کرنے اور انھیں ایوارڈ دینے تک کا اعلان کرڈالا ہے۔موجودہ دہشت گردی میں ہندو مذہبی لیڈر شپ کے ساتھ ساتھ ،انتہا پسندانہ نظریات کے حامل لوگ،گودی میڈیا،زعفران زدہ آئینی ادارے اور ریاستی و مرکزی حکومتیں تک شامل ہیں۔زعفرانی دہشت گردی کے بڑھتے رجحان نے ملک کے ہر گوشے میں بے اطمینانی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ملک کے چاروں طرف جو ممالک ہیں وہ رفتہ رفتہ ملک کی سرحدوں پر قبضہ کرتے جارہے ہیں ۔دنیا بھر میں ملک کی رسوائی ہورہی ہے ۔حقیقی مسائل سے لاپرواہی برتی جارہی ہے ،یہ لاپرواہی کسی دن دھماکہ خیز شکل اختیار کر سکتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ زعفرانی فکر رکھنے والے نوجوانوں میں یہ رجحان کیوں بڑھ رہا ہے۔یہ کونسی کتاب پڑھ کر مسلمانوں کے پیغمبرکو گالیاں دے رہے ہیں،پولس کے اہل کارتک بزرگوں کی داڑھیاں نوچ رہے ہیں ،ان پر پیشاب کررہے ہیں،یہ کس پاٹھ شالہ کے ودیارتھی ہیں جو نفرت کی سوداگری کررہے ہیں؟یہ سب سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ افراد ہیں۔ان کے حوصلے اس لیے بڑھ رہے ہیں کہ انھیں اپنے آقائوں کی سرپرستی حاصل ہے ۔یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر ڈر پیدا کریںمگر یہ ان کی خام خیالی ہے ۔یہ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے لیے ملک کے یہ سنگین حالات کوئی نئے نہیں ہیں ۔جس قوم نے 1857کا غدر جھیلا ہو،جس قوم کے رہبروں کی لاشیں دہلی سے لاہور تک لٹکائی گئی ہوں،جس قوم کے علماء کو کالے پانی کی سزا دی گئی ہو،اس کے لیے دھرم سنسد میں کی جانے والی بکواس کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ،جس قوم کے یہاں شہادت پانا فخر ہو،اس قوم کے لیڈر پر بزدلوں کا قاتلانہ حملہ کسی شمار میں نہیں آتا ،مگر یہ حالات اکثریت کے لیے نقصان دہ ہیں۔انتہا پسندی اور دہشت گردی ہر قوم کے لیے خطرناک ہے۔نوجوانوں میں دہشت گردی کا بڑھتا رجحان ملک کے مستقبل کو غیر محفوظ بناتا ہے،خود ہندو مذہب کی تصویر کو خراب کرتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ اس پر غور کریں ۔بھارت کی طاقت محبت ہے ،نفرت پر مبنی سیاست صابن کے جھاگ پیدا کرتی ہے جن کی عمر بہت کم ہوتی ہے ۔ہم آج ہیں کل نہیں ہوں گے ،لیکن ہماری غلطیوں کی سزا ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گی ،زمانہ کا پہیہ گھومتا رہتا ہے ،وقت بدلتا ہے تونظام بھی بدل جاتا ہے ۔اس لیے دانائی اسی میں ہے کہ ہم سب بھارت کی خوبصورت جمہوری اقدار اور آئین کا پاس و لحاظ کریں،جیو اور جینے دو کے اصول پر چلیںتاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا بھارت چھوڑ کر جائیں جہاں رنگ ،نسل ،کلچر اور زبان کے بجائے انسانیت کی بنیاد پرانسان کا احترام ہو۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)