تحریر:روہت کھنہ
یہ جو انڈیا ہے نا… یہاں بی جے پی کی معطل قومی ترجمان نوپورشرما کی تعصب کی قیمت ،پریاگ راج میں جاوید محمد اور ان کے پریوار والے کیوں چکا رہے ہیں ؟
یہ بلڈوزر کس قانون کے تحت پریاگ راج، سہارنپور، کانپور میں مکانات کو گرا رہے ہیں؟ آئی پی سی یا ہندوستان کے آئین میں کہاں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو مقدمے سے پہلے سزا دی جا سکتی ہے؟
اور جب بلڈوزرآپے سے باہر ہوجاتے ہیں، تو ہماری عدالتیں اس پر خاموش کیوں ہیں؟ اور کیا ہم اس قسم کا ہندوستان چاہتے ہیں… ایک انتشاری ہندوستان، جہاں ہم اپنی اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پر ٹارگٹ کرتے ہیں ….
ان کے رسم و رواج، ان کی تعلیم، ان کے ذریعہ معاش، ان کے گھروں کو نشانہ بناتے ہیں، انہیں قانون کی مدد سے محروم رکھتے ہیں، ان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور لنچنگ کے واقعات کو نظر انداز کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ بلڈوزر اسی کا مظہر ہے۔ کہ یہ جو بلڈوزر ہے،یہ تمہیںاپنی جگہ بتا رہے ہیں، کہ آپ ایک اکثریتی حکومت کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ بلڈوزر آپ پر کسی بھی وقت چلائے جا سکتے ہیں… اس لیے اپنی جگہ جانیںلیجئے۔ اور چپ رہو۔ خاموش۔
کیا جاوید محمد پریاگ راج میں پتھراؤ میں شامل تھے، کیا انہوں نے منصوبہ بنایا، اس کی قیادت کی؟ جب تک یہ عدالت میں ثابت نہیں ہو جاتا، انہیں سزا نہیں دی جا سکتی۔
تو ان کا گھر کیوں گرایا گیا؟ صرف اس گمان پر کہ وہ قصوروار ہے کیوں کہ اس کا نام ایف آئی آر میں ہے؟ اور اگر وہ قصور وار پائے جاتے ہیں – کسی کے گھر کو گرانے کی سزا، جو ان کے پورےپریوار کو ملتی ہے -ہمارے قانون میں ایسی سزا کی گنجائش کہاں ہے؟
اور مجھے غلط مت سمجھئے… سوشل میڈیا پر کچھ لوگ نوپور شرما کے گھر پر بلڈوزر چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن یہ غلط ہو گا۔ کچھ لوگ پوچھ رہے ہیں – 5 لوگوں کے قتل کے ملزم مرکزی وزیر اجے مشرا کے بیٹے کے گھر پر بلڈوزر کیوں نہیں چلایا گیا، جس کی ضمانت سپریم کورٹ نے منسوخ کر دی تھی۔ کچھ پوچھتے ہیں – نفرت انگیز تقریر کرنے والے مجرم یتی نرسنگھانند اور ان جیسے دوسرے لوگوں کے گھر پر بلڈوزر کیوں نہیں چلا؟
لیکن بات یہ ہے کہ – بغیر ٹرائل کے انصاف کی یہ شکل کسی بھی مبینہ مجرم کے لیے غلط ہو گی۔ جاوید محمد کے لیے، نوپور شرما کے لیے، آشیش مشرا کے لیے اور نرسنگھانند کے لیے۔
کیونکہ یہ جو انڈیا ہے نا… اسے قانون کی حکمرانی پر یقین ہونا چاہئے نہ کہ بلڈوزر قانون پر!
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج ہندوستان میں قانون یکساں طور پر نافذ نہیں ہو رہا ہے۔ یتی نرسنگھانند نے کم از کم دو بار نوپور شرما کے حق میں بات کی ہے، ایک ویڈیو میں بی جے پی لیڈروں کی توہین کی ہے، دوسری میں مسلمانوں کو گالی دی ہے۔ ہریدوار میں نفرت انگیز تقاریر کرنے کے جرم میں پہلے ہی ضمانت پر رہا، نرسنگھانند نے اپنی ضمانت کی شرائط کو بار بار توڑا ہے، لیکن قانون نے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ کیوں؟
11 جون کو، بی جے پی ایم ایل اے شلبھ منی ترپاٹھی، جو کچھ دیر پہلے یوگی آدتیہ ناتھ کے میڈیا ایڈوائزر تھے، نے ایک وائرل ویڈیو شیئر کیا جس میں یوپی کے دو پولیس اہلکار مظاہروں میں شامل نو لوگوں کو مبینہ طور پر بے دردی سے مار رہے تھے۔ ویڈیو کے لیے ان کا کیپشن تھا ’بلوائیوں، یعنی فسادیوں کو ،ریٹرن گفٹ‘‘۔ ایک ایم ایل اے حراست میں تشدد کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔
جو کہ بھارت میں سنگین جرم ہے۔ لیکن ترپاٹھی کے خلاف بھی اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ کیوں؟
ہندوستان کے کرکٹ ہیرو گوتم گمبھیر جو کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ بھی ہیں کا کہنا ہے کہ نوپور شرما کو جان سے مارنے کی دھمکی دینے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ لیکن پھر، کیا یہ سچ ہے کہ آج ہندوستان میں، ہم یہ انتخاب کر سکتے ہیں کہ کس کو سزا دی جائے اور کس کو چھوڑا جائے؟ یہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔
اور یہ بھی سمجھ لیں- قانون کے مطابق، عدالت میں.. پولیس کہے گی.. گھر غیر قانونی تھا، تجاوزات تھا۔ تو ہم نے، لیکن عوام کے سامنےوزیر کہیں گے- یہ ان کی سزا تھی احتجاج کرنے کی ،ہماری تنقید کرنےکی ہمت کرنے کی۔ یعنی دوہری باتیں، کیوںنکہ حکمران اور لیڈر جانتے ہیں کہ کوئی بھی عدالت صرف حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر ’سزا‘ کے طور پر گھر توڑنے کی حمایت نہیں کرے گی۔ کیونکہ احتجاج ہر شہری کا قانونی حق ہے۔
جاوید محمد کے معاملے میں بھی – ہفتہ کی رات گھر پر ناجائز تجاوزات کا ایک پچھلا حکومتی نوٹس چسپاں کیا گیا تھا، اور اگلے ہی دن گھر کو بلڈوز کر دیا گیا ۔
جیسا کہ پورے ملک نے ٹی وی پر اور کئی وائرل ویڈیوز میں دیکھا۔ اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گھر کی اصل مالک جاوید محمد نہیں بلکہ ان کی اہلیہ پروین فاطمہ ہیں۔ لیکن حکومت جاوید محمد کو اپنے بلڈوزر قانون کے تحت سزا دینے میں اتنی عجلت میں تھی کہ اس نے ان تمام باتوں پر توجہ نہیں دی۔
اور یہ ہمیں ایک آخری، لیکن اہم نکتہ تک پہنچاتا ہے – ہمارے قانون اور عدالتوں سے اس پر ایکشن لینے کی اپیل۔ ہماری عدالتیں بی جے پی کی حکومت والی کچھ ریاستوں میں منظور کیے گئے متنازع قوانین کے خلاف متعدد عرضیوں پر کارروائی کیوں نہیں کر رہی ہیں؟
یوپی، ایم پی اور کرناٹک کے تبدیلی مذہب مخالف قوانین کے آئینی جواز پر سوال اٹھانے والی درخواستیں، ایم پی اور یوپی میں بلڈوزر راج کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانے والی درخواستیں، کرناٹک ہائی کورٹ کی حجاب پر پابندی کے خلاف عرضیاں۔
ہم پوچھ رہے ہیں کہ ان فیصلوں میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ یقینی طور پر عدالتیں دیکھ سکتی ہیں کہ بہت سے ہندوستانی شہری اس کی وجہ سے اپنے گھر کھو رہے ہیں۔ ہم جن گھروں کو جانتے ہیں کوئی عدالت کبھی بحال نہیں کر سکتی۔
یہ جو انڈیا ہے نا… یہاں قانون کی حکمرانی کی اشد ضرورت ہے.. یہ غیر انسانی بلڈوزر راج ختم ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کل کی حکومت ،ٹارگٹ کرنے کے لئےنئے لوگوں کی نئی لسٹ بنا سکتی ہے۔
اور پھر ، کون جانتاہے ، آپ کا گھر، میراگھر.. بلڈوزر کی اطلاعمیںاگلا ہو سکتاہے ۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی)