نئی دہلی :(ایجنسی)
نئی دہلی میں حکومتی ذرائع کے مطابق بھارت جلد ہی افغانستان میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے پر غور کر رہا ہے، تاکہ سفارتی سرگرمیاں پھر سے بحال کی جا سکیں۔ ایک معروف اخبار’ ‘انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق اسے معلوم ہوا ہے کہ سیکورٹی اہلکاروں کی ایک ٹیم نے اسی مقصد کے لیے زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے فروری میں کابل کا دورہ بھی کیا تھا۔
تاہم مشن دوبارہ کھولنے کی اس کوشش میں سینئر سطح کے سفارت کاروں کو بھیجنے کا ابھی کوئی منصوبہ نہیں ہے اور حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کابل سفارتخانہ صرف مقامی اہلکاروں کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال ہو گا، اور ضرورت پڑنے پر اس میں قونصلر خدمات تک کی توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن نئی دہلی حکومت نے اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی وضاحت کی ہے اس کا مطلب، ’’طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔‘‘
بھارت نے گزشتہ برس افغانستان پر طالبان کے قبضے کے دو دن بعد 17 اگست کو کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی دہلی میں یہ بحث بھی ہوتی رہی کہ آیا یہ صحیح فیصلہ تھا یا نہیں۔ اس سلسلے میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور وزارت خارجہ کا موقف یہ رہا ہے کہ کابل میں موجود رہنے سے بھارتی اہلکاروں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی تھیں۔
ایک اور حلقے کا موقف یہ رہا ہے کہ کابل مشن بند کرنے سے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بھارت تن تنہا رہ گیا، جس کا کابل میں کوئی بھی نمائندہ نہیں ہے۔
پیر کو نئی دہلی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک اجلاس ہوا، جس میں افغانستان کا ایجنڈہ سر فہرست تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اجلاس کا میزبان بھارت وہ واحد ملک تھا، جس نے ابھی تک کابل میں اپنا مشن دوبارہ نہیں کھولا ہے۔
یہی وہ اہم نکتہ ہے جس نے دہلی کو کابل میں دوبارہ مشن کھولنے کے بارے میں غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یورپی یونین سمیت دنیا کے تقریباً 16 ممالک کابل میں اپنی سفارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر چکے ہیں اور اب بھارت نے بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا کرنے کے لیے قدم اٹھایا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ فروری میں جب بھارت کی سکیورٹی ٹیم نے کابل کا دورہ کیا تو اس سفر کے لیے طالبان کی قیادت سے منظوری طلب کی تھی اور ان سے رابطہ بھی کیا گیا تھا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق بھارتی ٹیم نے طالبان حکومت کے عہدیداروں سے کابل میں ملاقات کی تھی اور سکیورٹی کے دیگر پہلوؤں پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال کے دوران بھارت کے بر عکس پاکستان، چین، روس اور ایران جیسے ممالک نے کابل میں اپنے مشن کو مکمل طور پر بند نہیں کیا تھا۔
وسطی ایشیا کے پانچوں ممالک نے بھی طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ کابل میں سفارتی سرگرمیاں جاری رکھنے کے مقصد سے امریکہ نے بھی اپریل میں قطر کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی کابل واپس آگئے ہیں۔
کابل میں بھارت کے لیے سکیورٹی سب سے اہم مسئلہ ہے، سن 2008 میں کابل میں بھارتی مشن پر بم حملہ ہوا تھا، جس میں ایک عسکری مشیر، ایک سینیئر سفارت کار اور سفارت خانے کی حفاظت کرنے والے دو فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارتی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ واقعہ اب بھی ایک تازہ زخم کی طرح ہے۔
اس وقت کی افغان حکومت نے الزام لگایا تھا کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ اس وقت نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کو اس کام کے لیے استعمال کیا گیا۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، اور یہ سفارتی کوششیں مختلف طرح کی مصروفیات کے لیے محض روابط استوار کرنے کی خاطر ہیں۔