تحریر: افتخار گیلانی
لیجیے سات مرحلوں پر محیط طویل ترین انتخابی عمل ہندوستان میں بس اب مکمل ہونے والاہے۔ چونکہ پہلے مرحلے کی نوٹیفیکیشن20مارچ کو جاری کی گئی تھی، اس لیے یہ عمل 73دن تک جاری رہا۔ پہلے مرحلے کی ووٹنگ 19اپریل کو اور آخری ساتویں مرحلے کی ووٹنگ یکم جون کو ہو رہی ہے۔ چار جون کو الکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بند ووٹوں کی گنتی کرکے نتائج کا اعلان کیا جائےگا۔
انتخابی عمل کے شروعات میں ہی ان کالمز کے ذریعے میں نے بتانے کی کوشش کی تھی کہ 2024کا انتخاب حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلمان کے نام پر لڑے گی۔ عوام کو لبھانے کے لیے ہندو قوم پرستوں کے پاس تین ہی ہتھیار ہوتے ہیں۔ گائے، پاکستان اور مسلمان۔ ان میں سے اول الذکر دو کو 2014اور 2019میں بھنایا جا چکا تھا۔
کانگریس کے انتخابی منشور کو مسلم لیگ سے تشبیہ دےکر اور پھر پاکستان کے سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری کی طرف سے اپوزیشن کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی تعریف کرنے کو موضوع بناکر،پاکستان کو دوبارہ انتخابات میں لانے کی کوشش تو ضرور کی گئی، مگر عوام میں کچھ زیادہ اس کی پذیرائی نہ دیکھ کر اس پر ہیجان برپا کرنے سے گریز کیا گیا۔
انتخابی مہم کے دوران مودی نے جس طرح ہندو اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں سے ڈرایا، اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلم امیدوارں کو ٹکٹ دینے سے گریز کیا۔ کانگریس نے اپنے منشور میں مسلم لفظ کو استعمال کرنے سے احتراز کیا۔ ہندوستان کی 543 کل لوک سبھا کی سیٹوں میں جموں و کشمیر سمیت 161سیٹیں ایسی ہیں، جہاں مسلمان 15فیصد یا اس سے زیادہ ہیں۔ جس طرح کا جمہوری نظام جنوبی ایشیائی ممالک نے اپنایا ہے اس کے مطابق کسی پارلیامانی سیٹ میں 15فیصد کا ووٹ بینک نہایت اہم ہوتا ہے۔ 86کے قریب ایسی سیٹیں ہیں، جہاں وہ 20 فیصد ہیں اور ان میں 16حلقوں میں ان کی تعداد 50فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ مگر اس کے باوجود سیکولر پارٹیوں نے بھی ان کو دور دور ہی رکھا۔
ان کو بتایا گیا کہ وہ بس ان کے امیدوار کو ووٹ دیں۔ کانگریس نے کل 328امیدوار میدان میں اتارے، جن میں صرف 19مسلما ن تھے۔ 2014اور 2019میں پارٹی نے بالترتیب 31اور 34مسلمان امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ مسلمانوں کے ووٹوں کے دم سے ہی قائم اترپردیش کی سماج وادی پارٹی نے کل 71امیدوار وں کو ٹکٹ دیے اور ان میں صرف چار مسلمان تھے۔2019 میں اس پارٹی نے 8 مسلم امیدوارں کو میدان میں اتارا تھا، جس میں تین جیت گئے تھے۔
یہی حال پڑوس کے بہار صوبہ کا ہے، جہاں لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل نے اپنے حصہ میں آئی 24سیٹوں میں سے صرف دو پر مسلمان امیدوارں کو اتارا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے کل 82امیدواروں میں 10مسلمانوں کو ٹکٹ دیے۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی، جو 440سیٹوں پر قسمت آزمائی کر رہی ہے، نے صرف ایک مسلمان ایم عبدالسلام کو ٹکٹ دیا ہے، جو جنوبی صوبہ کیرالا کی مالاپورم سیٹ سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔جب اس صوبہ میں وزیر اعظم مودی نے روڈ شو کیا تو ان کو اس سے دوررکھا گیا، تاکہ مودی کے ساتھ ان کی کوئی تصویر یا ویڈیو نہ بن پائے، جس سے پارٹی کا کور ہندو ووٹ بینک ناراض ہوجائے۔
ہوجائے۔
سال 2014 کے بعد سے مودی کے جادو نے مسلم ووٹ کو اس حد تک بے وقعت اور بے وزن بنایا کہ سیکولر پارٹیاں بھی ان کو دور سے ہی سلام کرکے بس ووٹ دینے کی درخواست کرتی ہیں۔ مودی اور ان کے دست راست امت شاہ نے مسلم ووٹ کو بے وزن کرنے کا فارمولہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ مسلم اکثریتی یا اثر و رسوخ والے حلقوں میں لاتعداد مسلم امیدوارں کو بطور آزاد امیدوار کھڑا کردو، تاکہ مسلم ووٹ ان میں تقسیم ہوجائے اور پھر کئی درجن سیکولر پارٹیاں بھی ان حلقوں میں مسلمان امیدوارں کو ٹکٹ دیتے تھے، جس سے ان کو ووٹ مزید تقسیم ہو جائے
جائے۔
دوسری طرف ہندو ووٹوں کو ہندوتوا کا جام پلا کر سیٹیں اپنے نام کرلی جائیں۔ اس لیے 2014 میں 86 مسلم اکثریتی سیٹوں پر بی جے پی کو 38 اور پھر 2019 میں 36 سیٹیں مل گئیں
سیکولر پارٹیوں کے لیڈران کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے اس بار انہوں نے قلیل تعداد میں مسلمانوں کو میدان میں اتارا۔ ان کے مطابق پچھلے کئی سالوں میں بہار اور مغربی بنگال میں جو اسمبلی انتخابات ہوئے،ان میں مسلمانوں نے جم کر بالترتیب راشٹریہ جنتا دل اور ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کے ہندو امیدواروں کو ووٹ ڈالے اور کانگریس اور بائیں بازو کی طرف سے کھڑا کیے گئے مسلم امیدواروں کو مسترد کر دیا
دیا۔
ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ جہاں مسلمان تھوڑا بہت طاقت دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہاں ہندو ووٹ پولرائز ہوتا ہے۔ اس کے ذمہ دار مسلمان بڑی حد تک خود ہی ہیں کہ پچھلے ایک ہزار سالوں سے وہ ابھی تک ہندو یا دیگر مذاہب کے پڑوسیوں تک کوئی آؤٹ ریچ کرسکے ہیں نہ ان کو بتا پائے ہیں کہ وہ ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں، بلکہ ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، جو امن کا داعی ہے۔
انڈیا ٹوڈے کے ایک سروے کے مطابق، 61 فیصد مسلمانوں نے بتایا کہ 2014 کے بعد سے ان کی معاشی صورت حال ابتر ہو گئی ہے۔ دیگر مذاہب میں صرف 35فیصد نے اس طرح کی بات کی۔اس لیے انتخابی تجزیہ کاروں کو لگتا ہے کہ شاید مسلمانوں نے اس بار اسٹریٹجک ووٹنگ کی ہو۔
ویسے تو 1996 سے ہی بی جے پی کو دو فیصد ووٹ مسلمانوں کے ملتے ہی تھے، جو 2019 میں بڑھ کر سات فیصد ہوگئے تھے۔ بی جے پی کے ایک مسلم لیڈر نے راقم کو بتایا کہ وہ ا س بار اس تعداد کو 15فیصد تک لے جانے کے فراق میں تھے اور پچھلے کئی برسوں سے اس منزل کے حصول کے لیے ان کو پارٹی لیڈران کی طرف سے ہدایات بھی موصول ہوتی تھی۔سب کا ساتھ اور سب کا وکاس (ترقی) کے نعرے کو بنیاد بناکر ان کو بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کو پیغام دیا جائے کہ وہ بھی اس نعرے میں شامل ہیں، اور ان کی ترقی اور بہبودی مودی کو عزیز ہے۔
مگر پارٹی اور پھر وزیر اعظم کی طرف سے خود ہی مسلمانوں کو انتخابی ایشو بناکر ان کے خلاف ایک ماحول بنانے سے، نیز کشمیر کی تین مسلم اکثریتی پارلیمانی حلقوں سے امیدوار کھڑا نہ کرنے کے فیصلہ نے ان کے مسلم آؤٹ ریچ کے پروجیکٹ کو نقصان پہنچا دیا۔
دیا۔بی جے پی کے لیڈر کے مطابق ان کو بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک جسد واحد کی طرح دیکھنے کے بجائے ان کو مختلف فرقوں اور ذاتوں کی عینک سے دیکھا جائے اور سنی فرقہ میں دیوبندی، بریلوی اور پھر شعیہ فرقہ کے لیے الگ الگ اسٹریٹجی بنائی جائے۔
اسی طرح پسماندہ مسلمانوں کو دیگر مسلمانوں یعنی خود ساختہ اشراف کے مقابل کھڑا کیا جائے۔بوہرہ مسلمانوں پر مودی نے خود ہی داؤ لگایا ہوا تھا۔
ہندوستان کی 200 ملین مسلم آبادی میں 57 فیصد کا تعلق پسماندہ طبقہ سے ہے۔ ان انتخابات میں پسماندہ مسلمانوں کے ووٹ پیٹرن بی جے پی کی مسلمانوں کے بارے میں آئندہ کی حکمت عملی طے کرے گا۔ گو کہ بی جے پی کئی سالوں سے پسماندہ بنام اشراف کا کھیل کھیل رہی تھی، مودی پسماندہ مسلمانوں کو باقی مسلمانو ں سے متنفر کرکے ان کے ووٹ بٹورنا چاہتے ہیں۔ اس میں کچھ ہاتھ مسلمانوں کا خود بھی ہے، جو ذات پات کے خول سے باہر نہیں آنا چاہتے ہیں۔
گو کہ مسلمان اس بار یک مشت سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دے رہے ہیں، مگر ساتھ ہی ان کو باور کرار ہے ہیں کہ ان کو ایک مذہبی گروپ کے بجائے ایک ایسے گروپ کے روپ میں دیکھیں، جو ملک کی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے اور اگر اس دو سو ملین آبادی کی پسماندگی کو دور نہیں کیا گیا، تو ہندوستان کا اگلے تین سالوں میں پانچ ٹریلین ڈالر اور پھر 2030 تک سات ٹریلین ڈالر کی اکانومی بننا ناممکن ہے۔
چار جون کے بعد برسر اقتدار آنے والی پارٹی پر لازم ہے کہ اس آبادی کے لیے ایسے پروگرام تیار کرے، جس سے وہ بھی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ملک کی اقتصادیات میں اپنا حصہ ڈالیں۔
(یہ تجزیہ نگار کے ذاتی خیالات ہیں)