حرف حق: پروفیسر اختر الواسع
آزادی کے بعد ہندوستان میں جس طرح مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کی مثال مشکل ہی سے مل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مولانا ابو الکلام آزاد، رفیع احمد قدوائی،مولانا حسرت موہانی،حافظ محمد ابراہیم، ڈاکٹر سید محمود، عابد علی جیسے قد آور لیڈروں کو جس طرح بھلایا گیا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ خود مسلمانوں نے بھی ان لوگوں کو اس طرح بھلایا کہ جیسے ان کاکوئی وجود اور خدمات ہی نہیں۔ وہ تو سیاسی ضرورتوں کا بھلاہو کہ ہم بار بار بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اسے دلتوں کا دباؤ کہیے یا دوسری سیاسی ضرورتیں جس کی وجہ سے کانگریس سے بی جے پی تک کو باباصاحب کی دہائی دینے کے لیے ہر طرح مجبور دیکھا جا رہا ہے۔
معاملہ صرف بی جے پی کا ہی نہیں کانگریس بھی سے مبرا نہیں کہ ہندوستان میں کسی ہوائی اڈے کو مولانا آزاد سے منسوب نہیں کیا۔ زراعت یا اس سے ملحق دوسرے غذائی اداروں میںسے کسی کو رفیع احمد قدوائی کا نام نہیں دیا گیا۔ آزادی کے بعد سے سید محمود اور عابد علی یا حافظ محمد ابراہیم میں سے کسی کا کیا ذکر کریں، مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی کانگریس کا صدر نہیں نامزد کیا گیا اور ایسا صرف کانگریس یا بی جے پی نے ہی نہیں کیابلکہ آپ کسی بھی پارٹی کو ملک بھر میں دیکھ لیجیے، اس نے ہمارے ان مسلم رہنماؤں کو جنھوں نے آزادی کی جنگ میں سالار کارواں کا رول ادا کیا یا اس سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی،ان میں سے کسی کو اپنے یہاں سربراہی کا اعزاز نہیں بخشا۔ یہ امتیاز صرف اندرا گاندھی کو حاصل ہے کہ جن کے رہتے ہوئے برکت اللہ خاں راجستھان میں، عبد الرحمن انتولے مہاراشٹر میں، عبد الغفور بہار میں یا پھر کسی دیگر جماعت کی حمایت سے ایم او ایچ فاروق پانڈیچیری میں، علیم الدین منی پور میں، سی ایچ محمد کویا کیرالا میں اور بعد ازاں انورہ تیمور آسام میں وزرائے اعلیٰ کے منصبوں پر فائز ہوئے۔
1947 کے بعد اور اس سے پہلے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں مسلمانوں کو جان بوجھ کر ہلاکتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ انھیں دو تین چار دن کے اندر ہی فرقہ وارانہ سفاکی کے نتیجے میں علاقے کے علاقے خالی کرنے کے لیے مجبور کردیا گیا۔ پہلے فسادات اس لیے ہوئے کہ فرقہ وارانہ عناد نے فساد کے لیے مجبور کر دیا۔ پھر تقسیم وطن کے نتیجے میں نئی سرحد کے پار سے جو پناہ گزیں آرہے تھے، ان کی باز آباد کاری کے لیے فساد ہوئے، جب یہ سلسلہ تھما اور مسلمانوں نے معاشی اعتبار سے مضبوط ہونا شروع کیا تو پھر ان کو معاشی اعتبار سے کمزور کرنے اور بے بس بنانے کے لیے فسادات ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو جبل پور، روڈ کیلہ، کلکتہ، ممبئی، جمشید پور، جلگاؤں، بھیونڈی، احمدآباد، بڑودہ، علی گڑھ، مرادآباد، فیروزآباد، بنارس، مئو ناتھ بھنجن وغیرہ شہروں کے نام نہیں رہے بلکہ ہمارے دلوں کے داغ بن گئے۔ فسادات کا ایک رخ ہم نے آسام اور بھاگلپور، میرٹھ اور ملیانہ میں بھی دیکھا جس میں صرف فرقہ پرست ہی عناد و فساد کے لیے ذمہ دار نہیں تھے بلکہ پولیس کے ایک بڑے افسر وبھوتی نارائن رائے کے الفاظ میں پولیس اور پی اے سی مسلمانوں کے قتل عام کے لیے ذمہ دارتھی۔ یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ یہ سب کچھ کانگریس کے زمانہ اقتدار میں ہی ہوا اور کانگریس نے اس کے لیے بہ ظاہر الزام آر ایس ایس اور بھارتیہ جن سنگھ (بی جے پی کا پہلا اوتار) کو ضرور دیا لیکن ان کے خلاف کوئی ایسی کاروائی نہیں کی جس سے آئندہ ایسا کچھ نہ ہو پائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فرقہ پرستوں کے حوصلے اور عزائم بڑھتے گئے اور مسلمان پٹتے ہی رہے۔ حالت یہ ہو گئی کہ بقول شاعر:
کیوں ہوئے قتل ہم پر یہ الزام ہے قتل جس نے کیا ہے وہی مدعی
قاضئ وقت نے فیصلہ دے دیا لاش کو نذر زنداں کیا جائے گا
اب عدالت میں یہ بحث چھڑنے کو ہے یہ جو قاتل کو تھوڑی سی زحمت ہوئی
یہ جو خنجر میں ہلکا سا خم آ گیا اس کا تاوان کس سے لیا جائے گا؟
نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے کانگریس کا انتخابی سیاست میں ساتھ دینا بند کر دیا اور جس کے نتیجے میں کانگریس کہیں کی نہ رہی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اس زوال نے آر ایس ایس اور اس کے سیاسی حلیفوں کو مضبوط بنا دیا اور مرکزی حکومت ان کے قبضے میں آ گئی اور یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ بابری مسجد میں مورتی کی تنصیب ہو، تالا لگانا اور بعد میں کئی برسوں بعد کھلوانا ہو اور الیکشن مہم کا آغاز ایودھیا سے کرنے کا معاملہ ہو یا پھر چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت سب کانگریس کے دور اقتدار میں دیکھنے کو ملے۔