نئی دہلی(ڈی ڈبلیو)
سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ جسٹس وی ایس سرپرکار کمیشن نے حیدرآباد انکاونٹر کے انکوائری رپورٹ میں کہا کہ’’متوفی مشتبہ افراد پر پولیس افسران کی جانب سے جان بوجھ کر جانے والی فائرنگ کو جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہماری رائے میں ملزمین نے جان سے مارنے کی نیت سے گولیاں چلائیں اور انہیں یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ اس فائرنگ کے نتیجے میں مشتبہ افراد ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘
کمیشن نے اس انکاونٹر میں شامل 10پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے۔
تلنگانہ پولیس نے تین نوعمر لڑکوں سمیت چار افراد کو دسمبر 2019میں گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ پولیس نے دعوی کیا تھا کہ یہ چاروں میڈیکل کی ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور پھر اسے زندہ جلادینے کے واقعے میں ملوث تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ جب وہ ان چاروں افراد کو جانچ کے سلسلے میں حیدرآباد میں اس مقام پر لے گئی جہاں طالبہ کو جلایا گیا تھا تو چاروں ملزمین نے پولیس پر پتھراو کیا اور پھر فرارہونے کی کوشش کی۔ پولیس کو اپنی دفاع میں فائرنگ کرنا پڑی جس میں چاروں افراد مارے گئے۔
اس واقعے پر پولیس کی زبردست تعریف کی گئی تھی اور ان کے ’کارنامے‘کو سراہا گیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ کی مقرر کردہ کمیشن نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے اپنے بیانات میں ہی کافی تضادات ہیں اور پولیس کے اقدام کو کسی بھی صورت میں درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
بھارت میں فرضی انکاونٹر کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں فرضی انکاونٹر کے واقعات میں کافی تیزی آئی ہے۔ صرف بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہی نہیں بلکہ اترپردیش میں بھی ایسے انکاونٹر کے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جہاں وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے حکومت سنبھالنے کے بعد مجرموں کو "ٹھونک دینے ” (گولی ماردینے) کا اعلان کیا تھا۔ا س اعلان کی خاصی نکتہ چینی بھی ہوئی تھی۔
حق اطلاعات قانون کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق بھارت میں سن 2000سے سن 2017کے درمیان فرضی انکاونٹر کے 1782کیس درج کیے گئے۔ سب سے زیادہ 794یا 44 فیصد انکاونٹر اترپردیش میں ہوئے۔تاہم ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق یوگی حکومت میں صرف ڈھائی برس کے دوران ساڑھے تین ہزار سے زائد انکاونٹر ہوئے جن میں 73مجرموں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سترہ برسوں کے دوران آندھرا پردیش میں 94، بہار میں 74، جھارکھنڈ میں 69، آسام میں 69 اور منی پور میں انکاونٹر کے 63واقعات درج ہوئے۔ دہلی میں اس دوران انکاونٹر کے 40اور جموں و کشمیر میں 22کیسز درج کیے گئے۔
کشمیر میں ہونے والے انکاونٹر پر انسانی حقوق کی ملکی اوربین الاقوامی تنظیمیں اکثر سوال اٹھاتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ کشمیر میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) نافذ ہے اس لیے بھارتی فوجی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے کے باوجود بھی اس قانون کی وجہ سے بچ جاتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹوں میں بھارت سے افسپا کو ختم کرنے کی بارہا اپیل کی ہے۔ بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ’’افسپا ایک ایسا غلط قانون ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پناہ دیتا ہے۔ اس قانون کی موجودگی میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے باوجود سکیورٹی فورسیز کے خلاف کوئی مقدمہ چلانا تقریباً ناممکن ہے۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ کی ساوتھ ایشیا ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ اگر سکیورٹی فورسز کوقانون کی خلاف ورزی کرنے پر قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا تو تشدد کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
اترپردیش کے سابق اعلی پولیس افسر وی این رائے کا کہنا ہے کہ ‘فرضی انکاونٹر ایک سنگین معاملہ ہے۔ تمام انکاونٹرس میں پولیس نے ایسے لوگوں کوبھی مارا ہے جو کبھی کسی جرم میں ملوث نہیں رہے۔ آخر ایسے لوگوں کو پولیس کیسے مجرم قرار دے سکتی ہے۔