تحریر: کشور مصطفیٰ
بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بے جے پی کی قیادت والی موجودہ حکومت کی طرف سے انتہا پسندانہ رجحانات کو فروغ دینے کا سبب بننے والے اقدامات نا صرف بھارتی مسلم برادری بلکہ خود بھارت کے وسیع النظر دانشور، ادبا اور مفکرین کے لیے بھی لمحہ فکریہ بن گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے میں نے بھارت میں جس بھی مؤرخ، ادیب، لکھاری، اُستاد اور فنکار سے بذریعہ ٹیلی فون بات چیت کی یا اُس سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر رابطہ کیا تو یہی سننے کو ملا کہ وہ اپنے دیش میں بڑھتی انتہا پسندی اور بھارت کی صدیوں پرانی مسلم تہذیب کو دیدہ و دانستہ مٹانے کی کوششوں پر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔
بھارت دنیا کی چند اُبھرتی ہوئی اقتصادی قوتوں میں سے ایک ہے۔ بین الاقوامی سطح پر خود کو تیزی سے ترقی کی طرف آگے بڑھانے کی کوشش اور چند قدیم تہذیبوں کا گہوارہ ثابت کرنے کے لیے بھارت دنیا کے سامنے اپنا ‘سیکولر چہرہ‘ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ساتھ ہی سرمایہ کاری اور سیاحت کے شعبوں کو فروغ دینے کے لیے بھارت اپنے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ہر سمت قدم قدم پر پائے جانے والے مسلم تہذیبی شاہکاروں کو تشہیری مواد کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں، ٹرین اسٹیشنز ، بندرگاہوں سمیت بڑے بڑے ہوٹلوں، شاپنگ مالز سے لے کر جتنی عالمی نمائشیں لگتی ہیں ہر جگہ بھارت کے تشہیری مواد کا اہم ترین جُزو وہ پوسٹرز ہوتے ہیں جن پر Incredible India لکھا ہوتا ہے۔ یعنی ” ناقابل یقین یا انوکھا انڈیا‘‘۔ تاہم ان الفاظ کو نمایاں اور پُر کشش بنانے کے لیے جن رنگوں، نقوش اور عکس کا سہارا لیا جاتا ہے وہ ہندوستان کے ماتھے پر ٹیکے کی مانند سجی ہوئی عمارت تاج محل اور مسلم طرز تعمیر کی دیگر شاہکار عمارتوں ، باغات، مقبروں، شاہی قلعے وغیرہ کی تصاویر ہوتی ہیں۔ کیا مختلف علاقوں کے صدیوں سے چلے آ رہے ناموں کو مٹا کر اور ان کی تعمیر اور وجود کو متنازعہ بنا کر سیاسی دکانداری چلانے سے بھارت کو پائیدار ترقی اور دائمی امن و شانتی نصیب ہو سکے گی؟
سخت گیر موقف والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں اور ان کے حامیوں کی طرف سے حکومت سے ایسے مطالبات کا سلسلہ جاری ہے جن کے تحت مسلم حکمرانوں کے ناموں سے منسوب شاہراہوں، چوراہوں یا دیگر عمارتوں کے نام تبدیل کر کے ہندوؤں کی ممتاز شخصیات کے نام پر ان کے نام رکھے جائیں۔ اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں نئی دہلی میں اُس وقت دیکھنے میں آئی جب بی جے پی کے چند سرکردہ عناصر نے اورنگزیب لین کے ایک سائن بورڈ پر ” بابا وشواناتھ مارگ‘‘ کے نام کا ایک پوسٹر لگا دیا۔ یہ اس نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ نہیں تھا۔ بلکہ اسے ہندو قوم پرستوں کی انتہاپسندانہ کارروائیوں کا تسلسل کہنا غلط نہ ہوگا۔ نئی دہلی میں بی جے پی کے سربراہ ادیش گپتا
نے نئی دہلی میونسپل کے چیئرمین کو ایک خط لکھا اور یہ مطالبہ پیش کیا کہ جتنی سڑکیں مغل بادشاہوں کے ناموں پر ہیں انہیں معروف ہندو شخصیات کے نام سے تبدیل کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر ہمایوں روڈ، اکبر روڈ، بابر لین، کی جگہ انہیں مہارانا پرتاپ، مہارشی بالمیکی، کھڈی رام بوس اور جنرل پبن روات کے ناموں پر رکھا جائے۔
بھارت جسے کبھی ہندوستان کہا جاتا تھا تاریخی اعتبار سے دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے گہواروں میں سے ایک ہے۔ اس کی سرزمین پر نہ صرف مسلمانوں کے دور حکومت کے نقوش نمایاں ہیں بلکہ قبل از اسلام وسطی ایشیا، چین، یونان اور ایران کے مختلف حکمرانوں نے اپنی اپنی ثقافتی اور تہذیبی رنگ اور نقوش ثبت کیے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں فرانسیسی، پرتگالی اور انگریزی حکمرانوں نے یورپی طرز تعمیر کی عمارات بنوائیں۔ مسلمانوں کے عہد حکومت میں ہندوستان میں تعمیر ہونے والی زیادہ تر عمارتیں اپنے طرز تعمیر کی انفرادیت اور کمالِ فن کی وجہ سے ممتاز نظر آتی ہیں۔
بھارت کے شمال،جنوب، مغرب اور مشرق ہر طرف فن تعمیرات کے ایسے شاہکار پائے جاتے ہیں جن کو اگر ایک ایک کر کے گرانا اور ڈھانا شروع کر دیا جائے تو جنوبی ایشیا کے اس اتنے بڑے خطے پر کھنڈرات کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ کیا دلی قطب مینار، لال قلعے، جامع مسجد اور ہمایوں کے مقبرے کے بغیر پہچانا جا سکے گا؟ آگرہ اور فتح پور سیکری کا تصور ہی تاج محل اور بلند دروازے کے ساتھ ذہن میں آتا ہے۔ کرناٹک میں بیدار نامی مقام، بیجاپور، گلبرگہ اور گجرات میں کھمبایت کی جامع مسجد اور حیدرآباد دکن کی مسلم سلطنت کے دور کی فن تعمیرات کے شاہکار اور آثار قدیمہ دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچے لاتے ہیں۔
مشرق میں پانڈوا اور گورکی بروشونا مسجد اور فیروز مینار اور ایک لاکھی مقبرہ ہندوستانی معماروں اور کاریگروں کے کرشموں کا منہ بولتا ثبوت نظر آتا ہے۔ اُدھر کشمیر میں سلطان سکندر شاہ میر کی تعمیر کردہ خانقاہ مولا اور سرینگر کی جامع مسجد پندرھویں صدی کی فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔ اننت ناگ میں مغل بادشاہ جہانگیر کا تعمیر کردہ ‘گارڈن آف ویریناگ‘ جنت نظیر باغ کہلاتا ہے۔
مذکورہ مقامات اور عمارتوں سمیت باغات وغیرہ میں سے اکثر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں کے حامل مقامات کی فہرست میں شامل ہیں۔ انہیں میں سے ایک قطب مینار کمپلیکس بھی ہے۔ حال ہی میں قوم پرست ہندوؤں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ دلی میں واقع قطب مینار دراصل ایک مندر تھا جسے ایک ہندو راجہ نے تعمیر کروایا تھا اس لیے قطب الدین ایبک کی بجائے اسے ‘ وشوا استمب‘ کا نام دیا جائے اور اس کی کھدائی کروائی جائے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ اس کی تعمیر کسی مسلمان نے نہیں بلکہ ہندو نے کروائی تھی۔
یورپی تاریخ بھی جنگوں، تعصبات پر مبنی سیاست اور انتقامی کارروائیوں کی بھینٹ چڑھتی تہذیبی ورثے کی تباہیوں سے بھرپور نظر آتی ہے تاہم دوسری عالمی جنگ کا ایک مشہور واقعہ میری نگاہ میں ایک ایسی مثال ہے جس سے آنے والی نسلوں تک یہ پیغام پہنچایا جا سکتا ہے کہ تعمیری سوچ اگر تخریبی سوچ پر غالب آ جائے تو تمام بنی نوع انسانوں کا کتنا بھلا ہو سکتا ہے۔ آج سیر و سیاحت کی غرض سے دنیا کے کسی بھی کونے سے پورپ آنے والا شاید ہی کوئی ایسا سیاح ہو جو یورپ کے ‘عروس البلاد‘ یعنی فرانسیسی شہر پیرس دیکھنے کا خواہشمند نہ ہو۔
پیرس دنیا کے خوبصورت اور رومانویت سے بھرپور شہروں میں سے ایک ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں دیگر یورپی شہروں کی طرح اس شہر کو بھی مسمار ہو جانا تھا تاہم ایک جرمن جنرل ”ڈیٹرش فون خولٹٹس‘‘ نے پیرس کو برباد ہونے سے بچا لیا۔
ہوا یوں تھا کہ ایڈولف ہٹلر نے اپنے اس فوجی کمانڈر ”جنرل ڈیٹرش فون خولٹٹس‘‘ کو حکم دیا تھا کہ جرمن فوج فرانس کے قلب یعنی پیرس سے نکلنے سے پہلے پیرس کو مسمار کر دے۔ ہٹلر کا کہنا تھا کہ دریائے سین پر جو پُل قائم ہیں وہ منہدم ہونے کے لیے ہیں۔ شہر پیرس کسی صورت دشمنوں کے ہاتھ میں نہ آئے۔ اس سے قبل ہی اس شہر کو ملبے اور کھنڈرات میں بدل دیا جائے۔ جنرل ڈیٹرش فون خولٹٹس نے ہٹلر کی حکم عدولی کی اور پیرس کو برباد نہیں ہونے دیا۔ مؤرخین اس واقعے کی تشریح اپنے اپنے انداز سے کرتے ہیں تاہم تمام دنیا کے انسانوں کے لیے یہ ایک مثال ہے۔ پیرس شہر کی خوبصورتی، اس کی کشش آئندہ نسلوں کے لیے بھی خوشگوار لمحات سے لطف اندوز ہونے کا منبہ رہے گی۔
اگر موجودہ بھارتی حکومت چاہے تو جنوبی ایشیا کے س خطے میں پائے جانے والے انتہائی قیمتی تہذیبی اور ثقافتی سرمائے کو مذہب، فرقے، نسل و رنگ کے امتیاز پر مبنی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے اسے دنیا بھر کے انسانوں اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر سکتی ہے۔
(بشکریہ:ڈی ڈبلیو،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)