تحریر: دلیپ منڈل
ایک حقیقی سیکولر ملک میں حجاب کا تنازع اتنا سنگین کبھی نہیں ہوتا۔ بہت ممکن اس بات کی بات کی ہوتی کہ حجاب پہن کر کالج آئی لڑکیوں سے کہہ دیا جاتا کہ وہ ذاتی طور پر حجاب پہنے یا نہ پہنیں، لیکن اسکول اور کالج میں اسے پہن کر نہ آئیں،کیونکہ یہ پبلک مقامات ہیں۔
لیکن ایسا کہنے والے راشٹر(ملک) کو تمام مذاہب کےتئیں یکساں رویہ رکھا ہوگا، تبھی اس کی بات ناقابل تردیدطور سے مانی جائے گی۔ ایسا کرنے کے لیے کسی راشٹر کا حقیقی معنوں میں سیکولر ہونا ہوگا۔حکومت اور عوامی زندگی میں مذہب کی مداخلت کو دور رکھنا اگر کسی راشٹریہ کا بنیادی اصول ہو تو ہی ایسا کرنا ممکن ہے ۔
لیکن بھارت میں معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ چونکہ کرناٹک ہائی کورٹ فی الحال اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے اور اس سلسلے میں اس کا فیصلہ آنا باقی ہے، اس لیے اس وقت اس کیس کی خوبیوں پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ میں اس وقت ریاست، مذہب اور شخصی آزادی کے وسیع دائرے میں حجاب کے مسئلے کو دیکھنے کی کوشش کروں گا تاکہ یہ سمجھ سکوں کہ بھارتمیںمذہب پر عوامی پیروی کرنے کو لے کر لگاتار تنازع کیوں ہوتے رہتے ہیں اور یہ تنازع اتنا بڑا مسئلہ کیوں بن جاتا ہے ۔
درحقیقت حجاب اور اسی طرح کے دیگر مسائل – مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر بجنے سے لے کر، مذہبی مقامات پر حکومتی کنٹرول تک – اس لئے آرہی ہے کیونکہ بھارت میں مذہب اور اقتدار کےدرمیان تعلقات میں تال میل ہے ۔ کئی لوگ حجاب تنازع کے بعد کہہ رہے ہیں کہ بھارت پہلے ایسا تونہیں تھا۔ مثال کے طور پر یوا کانگریس کے صدر نے ٹوئٹر پر لکھا ۔’ یہ میرے سپنوں کا بھارت نہیں ہے ۔‘
بھارت کی اپنی قسم کا سیکولرازم
یہ سچ ہے کہ حجاب تنازع میں جس طرح لڑکیوں کو ڈرایا- دھمکایا جا رہا ہے اور جس طرح سے ہندوتوا نوجوانوں کاہنگامہ نظر آرہاہے ، اس سے ملک کے کافی لوگ پریشان ہیں، لیکن اس پر حیران یا چونکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ میرا استدلال یہ ہے کہ اکثریت طبقہ کے لوگوں کی دادا گیری کی جڑیں بھارتیہ سیکولرازم میں پیوست ہیں۔ ہندوستانی ریاست اور سیکولرازم کےتصور کے درمیان ٹکراؤ ہے ، اس کی ایک وجہ حجاب تنازع ہے ۔
درحقیقت ہندوستان کبھی بھی حقیقی معنوں میں سیکولرازم یا سیکولر ملک نہیں رہا۔ سیکولرازم کا خیال یورپ سے آیا ہے اور اس کا منبع چرچ اور بادشاہت کے درمیان تنازعات میں ہے ،جس میں چرچ کو آخر کار پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اس کے بعد ہی خیال آیا کہ چرچ اور پادریوں کو مذہبی امورسنبھالنا چاہئے اورریاست کے کاموں میںانہیں مداخلت نہیں کرنا چاہئے، اس لئے آپ پائیں گے کہ سیکولرازم کا تعارف کرنے کی ہر کوشش میں مذہب اور اقتدار کے درمیان کے تقسیم یا علیحدگی کو ماننا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولرازم کا مطلب ایک ایسا خیال ہے جس میں معاشرے کے کام، تعلیم وغیرہ میں مذہب کی مداخلت نہیں ہوگی۔ وہیں کیمبرج ڈکشنری میں کہا گیا ہے کہ سیکولرازم ایک ایسا عقیدہ ہے کہ مذہب کو راشٹر(ملک) کی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ میریم ویبسٹر اور کولنز ڈکشنری بھی سیکولرازم کی ایسی ہی تعریفیں ملتی ہیں۔
ان تعارف میں سیکولرازم کو الحاد یا مذہب کی مخالفت کے طور پر نہیں دیکھا گیا ہے، بلکہ ان تمام تعریفوں میں مذہب کو ذاتی عقیدہ اور عمل کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ یعنی کسی بھی مذہب کو ماننے یا نہ ماننے کی انفرادی آزادی بھی سیکولرازم کی بنیاد ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ مذہب اور اس کے چلانے والے حکمرانی میں مداخلت نہ کریں۔
بھارت میں جسے سیکولرازم کہتے ہیں وہ سیکولرازم کی کلاسیکی اور عالمی تعریفوںپر کھری نہیں اترتی۔ یہ صحیح ہے کہ بھارت نے 24 ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ سیکولر لفظ کو آئین کے دیباچے میں جوڑ لیاہے ، وہیں آرٹیکل 25 ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے اوراس کی تبلیغ کاحق دیتا ہے، بشرطیکہ ایسا کرنے سےامن وامان ،اخلاقیات اورصحت کو نقصان نہ پہنچے۔
راج دھرم ک جگہ پر ہندوتوا
لیکن، بھار ت کا آئین کہیں بھی مذہب کو حکمرانی سے الگ رکھنے کی بات نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہید میں لفظ سیکولر کی موجودگی کے باوجود اس بات کا کوئی واضح انتظام نہیں ہے کہ حکومت مذہب کا استعمال نہیں کرے گی اور مذہب حکمرانی میں مداخلت نہیں کرے گا۔ آئین بنانے والوں نے اس معاملے کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور ہم آگے دیکھیں گے کہ یہ سوچ بھارتیہ راشٹر کی بنیاد میں ہی ہے کہ مذہب اور راشٹر کو الگ نہیں رکھنا ہے۔
بھارتمیں سیکولرازم کو ’سرو دھرم سنبھاؤ‘ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یعنی ریاست تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرے گی اور حکمرانی کے لیے تمام مذاہب برابر ہوں گے۔ لیکن جس راشٹر میں 78 فیصد لوگ مردم شماری میں خود ہندو لکھتے ہیں ، وہاں تمام مذاہب کے یکساں ہونے کا سیدھا مطلب ہندوؤں کا غلبہ ہے ۔
ہندوؤں کا تسلط بھارتیہ راشٹر کی بنیادی فطر ہے ۔ اس لئے سرکاری پروگرام اکثر گنیش وندنا یا سرسوتی وندنا سے شروع ہوتے ہیں اور مہمان خصوصی شمع روشن کرتےہیں۔ اسے ثقافت کہاجاتا ہے ، جو اکثریت طبقہ کے لوگوں کا مذہبی طرز عمل ہے ، وہ ہندوستانی ثقافت ہے ۔
اس لیے جب کسی سرکاری عمارت، پل یا ریلوے لائن کا افتتاح ہوتا ہے تو پوجا کی جاتی ہے اور ناریل پھوڑا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب کوئی سمندری جہاز یا جنگی طیارہ فوج میں شامل کیا جاتا ہے تو وزیر دفاع محض ہندوؤں کے مذہبی نشان سواستیکا بناتے ہیں یا اس پر ناریل پھوڑتے ہیں۔ کئی سرکاری تعلیمی اداروں میں سرسوتی کی مورتی لگی ہوئی ہے اور ہر مذہب کے طلبہ کو ان کے پاس سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ معمول کی بات ہے۔ سرسوتی کی مورتی دہلی میں صحافت کی تربیتی ادارہ آئی آئی ایم سی کے گیٹ پر ہی نصب ہے۔
یہی نہیں، ہندی کے کورس میں تلسی اور سور داس کے مذہبی متن پڑھائے جاتے ہیں اور یہ بھی معمول کی بات ہے ۔ یہاں تک کہ اسرو جب کوئی سیٹلائٹ لانچ کرتا ہے تواس سے پہلے اسرو کے چیف تروپتی مندر میں عوامی پوجا کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے حکم دیا کہ مرکزی حکومت ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ بنائے۔
اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب سرو دھرم سنبھاو زمین پر اترتا ہے تو یہ ہندومت کی بالادستی میں بدل جاتا ہے۔ سیکولر اور فرقہ پرست دونوں طرح کی حکومتیں اس ثقافتی بالادستی کو یکساں طور پر نافذ کرتی رہی ہیں۔
مذہب کا حکمرانی پر اثر کتنا وسیع ہے ،اسے سمجھنے کے لیے ایک اور مثال دیکھیں۔ کئی سروے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ جنوبی ہند کی تمام ریاستوں کی طرح کرناٹک کے تمام مذاہب کے زیادہ لوگ کوشت خور ہے ، اس کے باوجود کرناٹک کے سرکاری اسکولوں میں مڈ ڈے میل میں لہسن اور پیاز نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ یہاں مڈ ڈے میل میں انڈا بھی نہیںدیاجاتا تھا۔ بعد میں ماہرین غذائیت اور ڈاکٹروں کے بار بار مشورے پر صرف سات اضلاع میں بچوں کو مڈ ڈے میل میں انڈے دیے جا رہے ہیں اور اس کی کافی مخالفت ہو رہی ہے۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت کے پالیسی فیصلوں پر مذہبی تحفظات کس حد تک اثر انداز ہو رہے ہیں۔
سیکولرازم کی غلط تشریح: ذمہ دار کون ہے؟
یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ سیکولر لوگوں کی جانب سے بہت ہی ہلکے انداز میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ بی جے پی بالخصوص نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوا ہے۔ ورنہ پہلے ٹھیک چل رہا تھا۔ میرا استدلال یہ ہے، میں جانتا ہوں کہ اس سے سیکولر لبرل دانشوروں کو تکلیف پہنچے گی کہ ہندوستان میں مذہب اور حکمرانی کا اختلاط بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے ہوا تھا۔
مذہب اور سیاست کو ملانا بنیادی طور پر گاندھیائی خیال ہے۔ جب گاندھی ہندوستانی سیاست میں آئے تو ان کا چیلنج یہ تھا کہ وہ کانگریس کو بڑا بنائیں اور اسے عام لوگوں تک لے جائیں۔ اس وقت تک کانگریس وکلاء، جاگیرداروں اور صنعت کاروں کی جماعت تھی۔ گاندھی نے کانگریس کے سماجی اصلاحی پروگراموں کو روک دیا اور رام دھن سے رام راجیہ کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے ہندو مذہب کی بنیادی بنیاد ورنا نظام کی کھل کر حمایت کی اور آخری دن تک اس خیال پر کھڑے رہے کہ ورنا نظام اچھا ہے۔ اس سے وہ مہاتما اور گاندھی بابا بن گئے، کانگریس بھی لوگوں تک پھیل گئی اور آزادی کی جدوجہد بھی تیز ہوئی، لیکن اس تسلسل میں انہوں نے ہندو مذہب کو ہندوستانی قومی ریاست کا غیر اعلانیہ ریاستی مذہب بنانے کا راستہ صاف کر دیا۔
میں نے پہلے ایک مضمون میں بتایا تھا کہبھارتیہ راشٹر کے قیام کے دوران یعنی 14-15 اگست کو جس طرح ہندو علامتوں کا کھلے عام استعمال کیا گیا اور جس پر کوئی تنقید نہیں ہوئی، اس سے ثابت ہوگیا کہ ہندوستان کی سمت کیا ہوگی۔
اس مضمون میں میں نے بیان کیا ہے کہ کس طرح 14-15 اگست کے واقعات کو لیری کولنز اور ڈومینیک لیپیئر نے اپنی مشہور تصنیف -’ فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘ میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں- ’(جنوبی ہندوستان سے لائےگئے( دونوں پجاریوں نے جواہر لال نہرو پر مقدس جل چھڑکا، ماتھے پر مقدس راکھ لگائی، دنڈ کو ان کے ہاتھوں میں سونپا اور انہیں مقدس لباس پہنایا۔ نہرو نے یہ سب خوشی سے ہونے دیا۔ یہ کچھ ویسا تھا گویا کئی منطقی شخص یہ سمجھ پا رہاہوں کہ اس کے سامنے جو بھاری کام سونپا گیا ہے ،اسے پورا کرنے کے لے ہر تعاون کی ضرورت ہے اگر تانترکوں سے بھی مدد مل جائے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گھر پر ہوئے اس تقریب کے بعد جب نہرو 14؍15 اگست کی آدھی رات کو آزادی کی تقریب میں گئے تو یہ سب کچھ ان کے جسم سے ہٹا دیا گیا تھا اور انہوں نے اپنا شناسا نہرو کوٹ اور چست پاجامہ پہن لیا اور اس کے بٹن میں تازہ گلاب کے پھول ٹانکا ہوا تھا۔ یعنی نہرو ایک ساتھ دو متضاد کرداروں میں تھے جو ان کے لباس میں بھی جھلک رہے تھے۔
وہاں سے کچھ دور دستور ساز اسمبلی کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کی سرکاری رہائش گاہ کے لان میں رات کو ہون کا پروگرام تھا، جہاں برہمنوں نے منتر پڑھے۔ کولنز اور لاپیئر لکھتے ہیں کہ – ‘پجاری بلند آواز میں منتر پڑھ رہے تھے اور جو کچھ دیر بعد آزاد ہندوستان کے وزیر بننے والے تھے وہ ہون کنڈ کے پاس کھڑے تھے۔ ایک اور برہمن ان پر مقدس پانی چھڑک رہا تھا۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی بنیاد کیسے رکھی گئی تھی۔ بہر حال، کانگریس کے دور حکومت میں اور ایک حد تک واجپئی کے دور میں (جس میں بی جے پی کی اکثریت نہیں تھی)، اقلیتوں کو یہ یقین تھا کہ وہ ہندو تکثیریت میں ایک گوشہ تلاش کرتے رہیں گے۔
نریندر مودی کے دور میں، وہ یقین دہانی، مسلمانوں کا وہ اعتماد بھی توڑا جا رہا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)