انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ بددہن اور بدزبان یتی نرسنگھا نند نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جو گستاخانہ کلمات کہے ہیں،وہ قطعا ناقابل برداشت ہیں اور سرخ لکیر کو عبور کرنے کے مترادف ہے،مولانا نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایسے بدزبان شخص پر کیس چلائے اور اُس کواس کی صحیح جگہ یعنی جیل پہنچائے ؛ کیونکہ یہ کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہے اور اگر اس کے رد عمل میں نوجوان بھڑک گئے تو اس سےپورے ملک کا امن وامان خاکستر ہو سکتا ہے۔
آپ نے کہاکہ اسلام کا تصور واضح ہے کہ تمام مذاہب کی جو مقدس شخصیتیں ہیں ؛ چاہے ہم ان پر ایمان رکھتے ہوں یا نہیں رکھتے ہوں؛ لیکن ہمارے لیے ان کا احترام کرنا، ان کی بے احترامی سے بچنا اور ان کے ماننے والوں کی دل آزاری سے اجتناب کرنا ضروری ہے،اسلام ایک خدا کا قائل ہے، وہ مورتی پوجا کا قائل نہیں ہے؛ لیکن جن دیویوں اور دیوتاؤں کو دوسری قومیں پوجتی ہیں قرآن مجید میں ان کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا گیا ہے، یہ ہے مذہب،عقیدہ اور دھرم کے معاملے میں وہ صحیح طریقہ کار جس سے سماج میں امن قائم رہ سکتا ہے اور جو سماج کے تمام طبقات کو جوڑ سکتا ہے۔
مولانا رحمانی نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ یہ ایک بیہودہ شخص کا بیان ہے،عام برادران وطن کی سوچ یہ نہیں ہے، ہمارے ملک میں ایسے برادران وطن آج بھی موجود ہیں اورپہلےبھی گزرے ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات لکھی ہے، جنہوں نے آپ کی شان میں نعتیہ کلام کہا ہے، ہمارے سامنے گاندھی جی کی تعلیم موجود ہے جنہوں نے آپ کی زندگی کو آج کی انسانیت کے لیے آئیڈیل اور نمونہ قرار دیا ہے، اس لیے اگر ایک بدزبان شخص اپنی زبان کی گندگی کو بیہودہ گفتگو کے ذریعے ظاہر کرتا ہے تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ تمام برادران وطن کی یہی سوچ ہے ؛البتہ ہمیں اس بدزبان کے خلاف قانونی لڑائی بھی لڑنی چاہیے اورحکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اس شخص کو قرار واقعی سزا دےاور ساتھ ہی ساتھ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاصحیح تعارف ہر زبان میں برادران وطن تک پہنچانا چاہیے اور ملک کی ہر زبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، آپ کے اخلاق،آپ کی اعلی تعلیمات، آپ کی انسانیت نوازی اور آپ نے زندگی گزارنے کا جو خوبصورت طریقہ دیا اس طریقہ کا تعارف پیش کرنا چاہیے۔(پریس ریلیز)