تحریر:عبد السلام عاصم
انڈیا گیٹ سے تاریخی امر جوان جیوتی کو نیشنل وار میموریل میں منتقل کیا جانا کچھ لوگوں کے نزدیک انقلابی قدم ہے تو کچھ حلقے اسے ایک متنازعہ فیصلہ گردان رہے ہیں۔ ایک حلقہ اور بھی جو اسے معکوس رُخ پر پیش رفت کا نام دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک سے زیادہ اظہار خیال کرنے والوں کی بھیڑ نے منظر نامے کو اور بھی دھندلا کر دیا ہے ۔ ملک کی آزادی کی جنگوں کی ترتیب کو بھی جو پہلے بھی اختلافی رہی، بعض بیانات کے ذریعہ متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ انڈیا گیٹ پر جن شہیدوں کے نام کندہ ہیں، اُن شہیدوں نے پہلی عالمی جنگ اور اینگلو افغان جنگ میں انگریزوں کیلئے حصہ لیا تھا۔ اس طرح یہ ہمارے نو آبادیاتی ماضی کی ایک علامت ہے۔ دوسری طرف نیشنل وار میموریل میں 1971، اس سے پہلے اور بعد کی جنگوں سمیت تمام لڑائیوں میں شہید ہونے والے ہندستانی جوانوں کے نام شامل ہیں ، اس لئے امر جوان جیوتی کی اصل ضرورت وہاںہے۔ واضح رہے کہ دہلی کے قلب میں ایک چوراہے کے بیچ میں محراب کی طرح 42 میٹر اونچا انڈیا گیٹ ان 70,000 ہندوستانی فوجیوں کی یاد میں ہے جنہوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی فوج کے لئے لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ اس یادگار پر 13,516 سے زیادہ برطانوی اور ہندوستانی فوجیوں کے نام کندہ ہیں جو 1919 کی افغان جنگ میں شمال مغربی سرحد پر شہید ہوئے تھے۔
دیکھا جائے توسرکاری وضاحت اور معترضین کے دلائل کہیں آپس میں متصادم نہیں۔ دونوں الگ الگ رُخ پر ہیں۔ باوجودیکہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ایک یادگار پر دوسری یادگار کو ترجیح دینے کے بجائے قدیم اور جدید یادگاروں کے ایک سلسلے کا احاطہ کیا جا سکتا تھا۔ دنیا کے کئی ملکوں میں ایک سے زیادہ ایسی یادگاریں موجود ہیں جو بالواسطہ حیثیت رکھتی ہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہوا! اس رُخ پر سوچنے کیلئے اُن حالات کو سمجھنا ہو گا جو غیر صحتمند امدادِ باہمی سے تیار ہوتے آئے ہیں ۔ ان میں گنجائشیں کم اور گھٹن زیادہ ہوتی ہے۔ عصری منظر نامے میںسوشل میڈیا اس گھٹن کو بڑھا نے میں خطر ناک رول ادا کر رہا ہے۔ کہتے ہیںممکنہ اندیشہ ٹال کر نہ جینے کے نتائج پر چونکنا غلط نہیں لیکن سارا الزام نقصان پہنچانے والوں کے سر ڈال کر اُس کا ازالہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قومی سیاست سر دست واقعات کے اسی مرحلے سے گزر رہی ہے۔ اختلاف حق و باطل کے درمیان نہیں۔ پسند اور ناپسند کا جھگڑا ہے، جسے تاریخ کی درستگی کا نام دیا جا رہا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ تاریخ درست کبھی نہیں کی جا تی ، صرف بدلی جاتی ہے ۔ اس لحاظ سے عصری واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہر گز نہیں۔
اتفاق اور عدم اتفاق کے ماحول میںپچھلے ہفتے امر جوان جیوتی اور نیشنل وار میموریل کے مشعلوں کا انضمام عمل میں آگیا۔ اس سے ایک روز قبل امر جوان جیوتی کو بجھانے کی خبر نے بھی سیاسی بے چینی پھیلا دی تھی۔ پھر پتہ چلا کہ معاملہ جلانے بجھانے کا نہیں انضمام کا ہے۔ اس کے بعد بھی اختلافات ختم نہیں ہوئے ۔ کانگریس کے نزدیک جہاں اس اقدام سے شہیدوں کی توہین ہوئی ہے وہیں حکومت کا کہنا ہے ہے پہلے جو عارضی انتظام تھا اسے مسققل حیثیت دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ پہلی عالمی جنگ اور برطانوی عہد کی ہندستانی فوج کے 84 ہزار جوانوں کے اعزاز میں انڈیا گیٹ کی تعمیر عمل میں آئی تھی جہاں امر جوان جیوتی کا نظم پاکستان پر ہندستان کی جنگی فتح کے بعد 1972 میں کیا گیا تھا۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی اس واقعاتی سلسلے کے آخری مر حلے میں یہ کہہ کر اسمبلی انتخابات میںپارٹی کی تیاروں میں مصروف ہو گئے کہ ہم ایک بار پھر اپنے جوانوں کے لئے امر جوان جیوتی کو روشن کریں گے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک جہاںمسٹر گاندھی کا یہ اعلان الیکشن رُخی ہے وہیں قومی سیاست میں آنے والی تبدیلی کو محسوس کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس ایپی سوڈ کو بی جے پی زیادہ بہتر طور پر بھنائے گی جسے یوپی میں کسی حد تک آزمائش کا سامنا ہے۔ مودی حکومت کے اس اقدام کے حوالے سے سوشل میڈیا پرموافقت اور مخالفت میں دونوں طرف سے یکساں طور پر شدت پائی جاتی ہے۔
جہاں تک آزاد ہند فوج اور اس کے کمان دار اعلیٰ نیتا جی سبھاش چندر بوس کا تعلق ہے تو اُن کے سیاسی استعمال کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں۔ ماضی میں کانگریس بھی مغربی بنگال کے لوگوں کی نیتاجی سے جذباتی وابستگی کا سیاسی فائدہ اٹھا چکی ہے اور ترنمول کانگریس نے بھی اِس مرتبہ بنگال کی جھانکی کا محور اُنہی کو بنایا تھا جو یوم جمہوریہ کی پریڈ میں نمائش کا حصہ نہیں بن سکی۔ ترنمول کانگریس اسے بھی انتخابی سیاست سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے۔ اس بیچ نیتا جی کی جرمن نشیںبیٹی انیتا بوس نے بھی ایک ہندستانی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ آزاد ہند فوج کے رہنما کے کاموں کا اکثر سیاسی اسباب سے سیاسی استحصال ہوتا رہا ہے۔ قبل ازیں فارورڈ بلاک اور سبھاس چندر بوس کے اہل خانہ نے حکومت ہند سے نیتا جی کا یوم پیدائش یوم حب الوطنی کے طور پر منانے کا مطالبہ کیا تھا اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی تجویز یہ تھی کہ اُس دن کو قومی ہیرو کے دن کے طور پر منایا جائے اور اُس روز قومی تعطیل کا اعلان کیا جائے۔ حکومتِ ہند نے بہر حال ایسا کچھ کرنے کے بجائے پچھلے سال ہی نیتا جی سالگرہ سے چند روز قبل یہ اعلان کر دیا تھا کہ نیتا جی کے یوم پیدائش کو ہر سال یوم شجاعت کے طور پر منایا جائے گا۔ نیتا جی کی فیملی کے اراکین، بنگال کی حکمراں ترنمول کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے اس قومی ہیرو کے یوم پیدائش کو اُن کی تجاویز کے برعکس یومِ شجاعت کے طور پر منانے کے مرکز کے فیصلے سے کھلے دل سے اتفاق نہیں کیا۔
نیتا جی کے خاندان کے لوگوں نے ان کے یوم پیدائش کے موقع پر انڈیا گیٹ پراُن کا مجسمہ نصب کرنے کے حکومت کے فیصلے کا بہر حال خیر مقدم کیا ہے۔ہر چند کہ نیتاجی جو 1938 میں کانگریس کے صدر بنائے گئے تھے اور مہاتما گاندھی اور پارٹی ہائی کمان سے اختلاف رائے کی وجہ سے صدارت چھوڑ دی تھی، گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفے سے اختلاف رکھتے تھے، اس کے باوجود وہ چاہتے تھے کہ ملک کے تمام فرقوں ہندووں، مسلمانوں، مسیحیوں، جین ، بودھوں اور سکھوں کو متحدرکھا جائے۔نیتا جی کے بڑے بھائی سرت چندر پوس کے پوتے چندر کمار بوس نے بھی کہا ہے کہ اگر نیتا جی کو واقعی اعزازا بخشنا مقصود ہے تو تمام فرقوں کو متحد کرنے کی اُن کی ہمہ جہت آئیڈیالوجی کو عمل میں لایا جائے۔ جب تک یہ کمی پوری نہیں ہوتی اُنہیں حقیقی خراج پیش نہیں کیا جا سکتا۔اُن کا یہ بھی استدلال ہے کہ نیتا جی کی موجودگی ہندستان کی تقسیم کو روک سکتی تھی۔اب اس ملک کو مزید تقسیم سے بچا نا ہے تو ملک کی سیاسی قیادت ان کے یوم پیدائش کے موقع پر اُن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور نظریے کا پاس رکھنے کا عہد کرے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)