دوٹوک:قاسم سید
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کا اکلوتا ایسا مشترکہ پلیٹ فارم ہے جس کی ساکھ و اعتبار کافی حد تک باقی ہے ۔گئے گزرے حالات میں اس کا دم غنیمت ہے ورنہ دور دور تک سناٹا ہے
سب جانتے ہیں کہ بورڈ ان دنوں وقف بل کے خلاف برسرپیکار ہے اور اس میں اپنی تمام توانائی جھونک دی ہے پتہ نہیں اس کا نتیجہ کیا ہوگا وقف بل کے بارے میں خیال پایا جاتا ہے کہ بی جے پی کی اتحادی پارٹیاں بورڈ کو عین موقع پر دھوکہ دیں گی یہ ان کی پیشانی پر لکھا ہے ۔
بورڈ اس وقت اپنے وجود کی بھی لڑائی لڑ رہا ہے۔ بدقسمتی سے اندرونی سطح پر شدید کشمکش زوروں پر ہے اور بورڈ کی قیادت کو عملا چیلنج کیا جارہا ہے ۔افسوس تو یہ ہے کہ بورڈ کے بعض معزز ممبران ہی اس میں شامل ہیں ۔حالیہ دنوں میں کئی واقعات ایسے ہوئے جو بورڈ کی صحت کے لئے یقینا اچھے نہیں ہیں اور نہ اس سے ملک وملت کی خدمت ہورہی ہے ۔
مثال کے طور پرگزشتہ ماہ نئی دہلی میں جمعیت کے صدر مولانا محمود مدنی کی کوشش سے امسلم جماعتوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں وقف بل کے حوالہ سے کچھ فیصلے کئے گئے اسی دوران ایک سینئیر فاؤنڈر ممبر نے سوال اٹھایا کہ بورڈ غیر فعال ہےاور وہ کوئی کام نہیں کررہا ہےاس لئے مسلم جماعتوں کو آگے بڑھ کر آنا چاہئے ان کے بار بار مداخلت سے مولانا محمود مدنی اور مولانا ارشد مدنی نے ان کو ٹوکا اور کہا کہ یہ معاملہ بورڈ میں اٹھائیں۔اس میٹنگ میں بورڈ کے صدر اور جنرل سکریٹری اور ترجان نہیں تھے ۔
اس کے علاوہ وقف بل پر بورڈ ملک کے کئی اہم شہروں میں بڑے جلسے بھی کررہا ہے کچھ ہوگئے ہیں کچھ ہونے والے ہیں ۔ایک جلسہ کل یعنی چھ اپریل کو رانچی میں طے کیا گیا مگر اس سے قبل ہی بورڈ کی کلیدی ممبر امارت شرعیہ بہار اڑیسہ کے سربراہ نے زور دیا کہ وہ تین اکتوبر کو امارت کے تحت جلسہ کررہے ہیں ۔اس سلسلہ میں صدر بورڈ کی ایما ہر جنرل سکریٹری بورڈ مولانا فضل الرحیم مجددی نے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو خط لکھا اور ان سے مجوزہ اجلاس نہ کرنے کی درخواست کی مگر وہ نہیں مانے -یہی نہیں وہ آفیشیل لیٹر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ۔ان کا اجلاس ارریا جھارکھنڈ میں ہوا اور چھ اکتوبر کو یعنی کل بورڈ اسی موضوع پر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق رانچی میں اجلاس ہوگا ۔ کیا یہ رویہ ٹھیک ہے ۔جب باہم دست وگریباں ہوں تو غیروں کو چنگاری بھڑکانے کا موقع تو ملے گا ہی-یہ جگ ہنسائی والی بات ہے اور اس سے انتشار و بد اعتمادی کی فضا کو تقویت ملتی ۔مولانا رحمانی کے نزدیکی لوگوں کا کہنا ہے جس کی بورڈ کے کئی ممبران نے بھی تصدیق کی کہ دراصل امارت شرعیہ نے بورڈ کی قیادت سے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ امارت شرعیہ کے دائرہ کار والے علاقے بہار،بنگال۔جھارکھنڈ ۔اڑیسہ کو اس کے لئے چھوڑ دے اور یہاں اپنے پیر نہ پھیلا ئے۔اسی موقف کے تحت وقف بل پر ارریا میں اپنی “عظیم الشان تاریخی کانفرنس” منعقد کی ۔مولانا رحمانی بورڈ کے اکلوتے ایسے ممبر ہیں جن کو ایک ہی دن میں ممبر بنایا گیا اور اسی دن مولانا خالد سیف اللہ نے سکریٹری بھی بنادیا ۔حالانکہ ان کا یہ عہدہ ان کے قد سے فروتر ہے ،بورڈ کے اندر ایسے بھی ممبر ہیں جو ان کو جنرل سکریٹری دیکھنا چاہتے ہیں-
اور بھی باتیں ہیں جن کا ذکر پھر کبھی۔بورڈ جن کے لئے ہے اور جن کی قیادت کرتا ہے ان کو یہ معلوم ہونے کا حق ہے کہ بورڈ میں چل کیا رہا ہے یہ اپنا گھٹنا ننگا کرنے کی بات نہیں ہم بہت کچھ اسی نام پر کارپٹ کے اندر چھپا دیتے ہیں جو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے
سوال یہ ہے کہ کریڈٹ لینے اور خود کی نیک نامی کے لئے مسلم ماس کا استعمال واستحصال کتنا جائز ہے ۔کیا وقف بل جیسے حساس اور نازک معاملہ میں بھی اطاعت،سماعت،قربانی،فراخ دلی،وسعت قلبی ،جاں نثار ی کا جذبہ نہیں دکھایا جاسکتا ؟۔یہ سارے فرائض عوام کالانعام کے لئے ہی ہیں؟ ۔مسلمان بہت ہی نازک اور خطرناک دور سے گزر رہے ہیں ۔تحریکیں ماضی میں یرغمال بنتی رہی ہیں ۔سوائے این آرسی موومنٹ کے کیونکہ اس کی قیادت بے نام تھی ۔وہ آج بھی جیلوں میں سڑرہی ہے۔مقدمے بھگت رہی ہے ۔بورڈ کوئی اکائی نہیں نہ افرادی قوت ہے نہ پیسہ نہ تنظیم اسے سب جماعتیں مل کر چلا رہی ہیں ۔اگر ایسے ہی علاقے بانٹ لئے جائیں “رعایا” کو اپنی اپنی قلمرو میں رکھ لیا جائے تو پھر بورڈ کے وجود کی معنویت اور ضرورت کیا ہے۔