آمنہ مفتی
میں نے ٹی وی اسکرین پر الجلالہ ٹاورز کو گرتے دیکھا۔ ایک مینار، دوسرا مینار اور پھر آہستہ آہستہ پوری گیارہ منزلہ عمارت گری۔ ہوا میں گردوغبار اور دھوئیں کے سیاہ بادل چھا گئے، جن کے درمیان نارنجی شعلے اٹھ رہے تھے۔
یہ غزہ میں واقع چند صحافتی اداروں کے دفتر تھے۔ مہلت دی گئی کہ ایک گھنٹے میں عمارت خالی کر دی جائے۔ عمارت پر حملہ کیا گیا اور دو تقریباً غیر جانبدار صحافتی ادارے تباہ کر دیے گئے۔
ظاہر ہے جنگ میں پہلا مقتول سچ ہوتا ہے۔ اس حملے سے بہت سی باتوں کی تصدیق ہو گئی۔ فلسطین اسرائیل سے اب شاید خبر اس طرح نہ آ پائے گی جیسے پہلے آتی تھی۔
جن لوگوں کو اندرا گاندھی کے دور میں ہوا آپریشن بلیو اسٹار یاد ہو گا، انھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ اس آپریشن سے پہلے بین الاقوامی میڈیا بلیک آوٹ کر دیا گیا تھا۔
جب کوئی طاقت، اپنی طاقت کا ایسا استعمال کرنا چاہتی ہے جس پر اسے یقین ہوتا ہے کہ عوامی ردعمل برا آئے گا اور بین الاقوامی برادری کی نظر میں برے بننے کے امکانات موجود ہیں تو میڈیا بلیک آوٹ کر دیا جاتا ہے خاص کر غیر ملکی میڈیا کو کسی نہ کسی طرح منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
فلسطین اسرائیل تنازعہ، جو شاید اب تنازعہ نہیں بلکہ ایک مسلح طاقت کا کچھ نہتے لوگوں کو بے دخل کرنے کا توسیع پسندانہ منصوبہ بن گیا ہے، نو آبادیاتی حاکموں ہی کا دنیا کو عطا کردہ تحفہ ہے۔
آباد کاری کا نظام اپنے آپ چلتا رہتا ہے۔ انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ وسائل کی تلاش میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ کسی جگہ بس بھی جاتے ہیں اور کسی جگہ بسنا پسند بھی نہیں کرتے۔
انسانی آبادیاں اور خاص کر پرانی آبادیاں ایک خاص انسانی افہام و تفہیم پر چلتی رہی ہیں۔ وہ ملک جہاں لوگ زبان، مذہب، ملک، رنگ و نسل کے باعث مخصوص علاقوں میں رہنے پر مجبور ہوں میرے نزدیک وہ ریاستیں نہیں ہوتیں۔
اگر آج کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اسرائیل میں اس وقت تقریباً خانہ جنگی کی سی کیفیت پائی جارہی ہے۔ غزہ میں اس کے حملے چاہے حماس کے راکٹ حملوں کے بعد زیادہ شدت اختیار گئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس بار تشدد کی جو لہر اٹھی ہے یہ لہر اسرائیل کے اندر سے اٹھی ہے۔
لد کا شہر ہو یا یروشلم، اسرائیلی عربوں اور اسرائیلی یہودیوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ یہ ایسا ہے کہ ملک باہر کسی سے جنگ میں مصروف ہو اور ملک کی 21 فیصد آبادی دشمن کے ساتھ ہو۔بچپن سے ہی فلسطین کا تصور ذہن میں یہ ہی آیا کہ ایک بچہ پتھر لیے ایک ٹینک کے آگے تنا کھڑا ہے۔ اس اسرائیلی ٹینک اور اس پتھر بردار بچے کی کہانی ہے جو بار بار دہرائی جاتی ہے۔
محمود درویش کی نظموں سے ہمیشہ یہ ہی نظر آیا کہ فلسطینی، اپنے انگور کے باغ چرا لیے جانے کے ظلم کو کبھی معاف نہیں کر سکتے۔ نظمیں اپنی جگہ سچ بولتی مگر حالات ایک اور طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے غرب اردن میں توسیع پسندانہ کارروائیاں کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دی تھیں لیکن آج جو کچھ نظر آتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کچھ ٹھان چکا ہے۔
ایک اور انسانی المیہ منہ پھاڑے پورے عالمی ضمیر کے سامنے کھڑا ہے۔ حالیہ واقعات میں 39 بچے بھی جان سے گئے۔ کئی خواتین بے گھر ہوئیں اور کتنے بے گناہ اپنی جان سے گئے۔
متوقع اسرائیلی آپریشن کے بارے میں شاید کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں اور شاید اسرائیل ایسا کچھ کرنے جا بھی نہ رہا ہو لیکن شواہد یہ کہتے ہیں کہ جسے دنیا جنگ کہہ رہی ہے میرے نزدیک وہ ایک طرفہ آپریشن ہو گا۔ ایک ایسا آپریشن جس میں اپنے اہداف حاصل کیے بغیر اسرائیل مذاکرات کی میز پر نہیں آئے گا اور جب آئے گا تو فلسطین شائد مزید علاقے کھو چکا ہو گا۔
ایسی ریاستیں جن کی بنیاد ظلم، زور زبردستی اور ناانصافی پر رکھی جاتی ہیں کبھی بھی نہیں پنپتیں۔ تاریخ میں ستر پچھتر سال کچھ بھی نہیں ہوتے۔ اسرائیل کے اندر جاری خانہ جنگی بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ انسان کو تقسیم در تقسیم کرنے سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔
یہ کہنا تو عبث اور بے کار ہے کہ کاش مسئلہ فلسطین حل ہو جائے۔ گرہیں لگانے والوں نے بہت سوچ سمجھ کے گنجل ڈالے ہیں۔ دنیا صرف دم سادھے دیکھ رہی ہے اور شاید حالیہ ہوائی حملے کے بعد دنیا کی آنکھیں بھی پھوٹ گئی ہیں۔
خدا نہ کرے جو عالمی وبا کے ان دنوں میں ہمیں ایک اور انسانی المیہ دیکھنا پڑے۔ ایک انسانی المیہ جو تلا کھڑا ہے اور اسے روکنے کے لیے عالمی برادری کو جھنجھوڑ نے کی ضرورت ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی برادری کسی ضروری کام سے سو رہی ہے۔
چلتے چلتے محمود درویش کی ایک نظم کی چند سطریں سن لیجیے:
میں ایک عرب ہوں
میرا نام کسی شناخت کے بغیر ہے
ایک ملک میں صابر و شاکر ہوں
جہاں لوگ غصے میں ہیں
میری جڑیں وقت کی پیدائش سے پہلے
اور زمانوں کے منکشف ہونے اور گھٹنے سے بھی پہلے
دریا، صنوبر اور زیتون کے درختوں اور گھاس
کے اگنے سے بھی پہلے گہری ہو چکی تھیں