تحریر : مسعود جاوید
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ کرنٹ افیئرز ہمارے لئے معنی نہیں رکھتے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر محترم شہاب الدین یعقوب قریشی اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں لنچنگ کے حالیہ واقعات اور نفرتی سیاست کی سنگین صورت حال پر بے باکی سے مسئلہ اٹھاتے ہیں، حالانکہ وہ ملی قائد یا کسی ملی تنظیم کے ترجمان نہیں ہیں۔ وہ ایک ریٹائرڈ آئی ایس افسر ہیں۔
ہمارے ملی قائدین کے لئے یہ مسائل اہم کیوں نہیں ہیں!
ملک میں ہندو مسلم منافرت کو ہوا دینے میں مخصوص عناصر سرگرم ہیں. فرقہ پرستی پر مشتمل بیانیے انتخابات میں مذہب کی بنیاد پر لام بندی( پولرائزیشن) کے لئے اہم جزء ترکیبی ingredient کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ملک کی معیشت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے، بے روزگاری اور مہنگائی عام لوگوں کا جینا محال کر رہی ہے ان مسائل پر بیان کی بجائے آپ مخلوط نظام تعلیم، پردہ اور بے حیائی کو موضوع سخن بناتے ہیں تو کہنے والے اپنی بات میں برحق ہیں کہ مسلمانوں کو ملک کے مسائل کی کوئی فکر نہیں ہے۔
کیا معاشرہ میں مخلوط نظام تعلیم co-education کے منفی اثرات کا ذکر اس وقت ضروری تھا؟ یہ ذکر اتنی بڑی شخصیت نے ایسے وقت میں کیوں کیا ہے یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر کوئی اور کرتا تو میں کہتا کہ میڈیا کو ایندھن فراہم کرنے کے لئے یہ موضوع اچھالا گیا ہے۔
دستور ہند نے ہر شخص کو اظہار رائے کا حق دیا ہے،لیکن قائدین سے ہم توقع کرتے ہیں کہ ترجیحات کے مطابق بیان دیں۔
مرد و زن کا اختلاط نہ صرف تعلیمی اداروں اسکول، کالج یونیورسٹی میں عام ہے بلکہ تجارتی مراکز اور دیگر شعبہ جات میں زندگی کی ضرورت بن چکی ہے۔
اس ضرورت کی نفی کرنے کی بجائے اس کے لئے مناسب حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور وہ حل ہے صالح معاشرے کا قیام جس میں اخلاقیات کا درس صرف لڑکیوں کو نہیں لڑکوں کے لئے بھی لازمی بنایا جائے، بے راہ روی کا خطرہ صرف لڑکیوں اور خواتین کو ہی نہیں لڑکوں اور مردوں کو بھی ہے۔
جہاں تک دونوں جنس کے لئے علیحدہ اسکول کا تعلق ہے اس کا ایک حل دہلی کے بعض اسکولوں میں دیکھنے کو ملتا ہے اور وہ یہ کہ طلباء کی کثرت اور عمارتوں کی قلت کے پیش نظر لڑکیوں کے لئے صبح کا شفٹ اور لڑکوں کے لئے شام کا شفٹ۔ میٹرو اور سٹی بسوں میں لیڈیز اسپیشل بس اور میٹرو میں لیڈیز کوچ اسی طرح متعدد محکمہ جات میں خواتین کے لئے علیحدہ قطار Queo کا مقصد بھی خواتین کو ممکنہ ہراسانی سے محفوظ رکھنا ہے۔ لیکن مسئلہ کی حساسیت کے مدنظر اسے مذہبی اینگل اور عنوان دینا قطعاً مناسب نہیں ہے۔ پیش نظر کام ہو نام نہیں۔
مذکورہ بالا صنفی تفریق سے مرد و زن کے اختلاط کے ممکنہ خطرات سے بچنے کا مقصد حاصل ہو رہا ہے لیکن اسے مذہبی رنگ دینے سے مقصد فوت ہو سکتا ہے اور ’اسلامی کرن‘ کا عنوان لگا کر طالبانی فرمان کہہ کر خواہ مخواہ ایک نئی بات کو بحث کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔
ملک میں بے شمار گرلز اسکول کالج اور بوائز اسکول کالج ہیں وہ کبھی موضوع بحث نہیں بنے اس لئے کہ مذہبی تصور کو سامنے رکھ کر ایسا نہیں کیا گیا ہے۔
آج کے معاشرے میں دنیا کے کسی بھی ملک میں دونوں صنف کی مکمل علیحدگی ممکن نہیں ہے۔ بہت سی خواتین کا غیر محرم مردوں سے معاملات ایک ضرورت ہے اور ضرورت کے تحت ایسا کرنا قابل قبول عذر ہے لیکن اس کے لئے اسلامی ضابطہ یہ ہے کہ خواتین کا لباس ہیجان انگیز نہ ہو اس کی اداجنس مخالف کو مائل کرنے والی نہ ہو وہ آئ کنٹیکٹ کے بغیر سپاٹ لہجے میں ضرورت کی بات کریں۔ اس لئے کہ بعض مرد بہت جلد اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ خاتون کے دل میں ان کے لئے نرم گوشہ ہے اور اسی خوش گمانی کے تحت وہ پیش قدمی کرنے لگتے ہیں۔
تاہم اسلامی ضابطے صرف خواتین کے لئے نہیں ہیں، لڑکوں اور مردوں کو بھی حکم ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں۔جس طرح انہیں اپنی بہن بیٹیوں کی عزت و عفت عزیز ہیں غیروں کی بہن بیٹیوں کے لئے بھی ایسا ہی احساس اور فکر ہو۔
اسی ضمن میں اس کا ذکر بھی بے محل نہیں ہوگا کہ جس طرح ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ صالح معاشرہ میں ناقابل قبول ہے اسی طرح یہ بیان بھی قابل مذمت ہے کہ ’’ لڑکے جوش جوانی میں لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کر بیٹھتے ہیں ‘‘۔ جب تک اس طرح کی ذہنیت باقی رہے گی معاشرہ میں اخلاقی گراوٹ اور جنسی بے راہ روی کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے گی۔
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)