تحریر:سیمی پاشا
اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ مکمل ہو گئی۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس دوران انتخابی جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف میدان میں خم ٹھوکتے نظر آئے، لیکن ایک قدآور رہنما انتخابی منظر نامے سے غائب ہیں۔سماج وادی پارٹی لیڈر اعظم خاں، جو رامپور سے ایم پی ہیں اور پچھلے دو سالوں سے جیل میں بندہیں۔
خاں کو اپنی پارٹی کے لیےانتخابی مہم چلانے سے روکنے کے لیے آدتیہ ناتھ حکومت کی کوششوں کا آغاز الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر ایک انتخابی عرضی سے ہوا،جس میں 2017 کے اسمبلی انتخاب میں ان کے بیٹے عبداللہ اعظم خاں کے انتخاب کو اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا کہ اس وقت ان کی عمر 25 سال نہیں تھی، حالانکہ، لکھنؤ کے کوئن میری اسپتال میں عبداللہ اعظم خاں کو جنم دینے والی ڈاکٹر نے خود پیدائش کی تاریخ کے بارے میں گواہی دی، لیکن ہائی کورٹ نے ان کی گواہی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ انہوں نے جس بچے کو جنم دیا تھا، وہ عدالت میں اپنے سامنے کھڑےشخص کی صورت میں ممکنہ طو رپر اس کی شناخت نہیں کر سکتی ہیں ۔
لہٰذا ہائی کورٹ نے عبداللہ اعظم کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس معاملے کا استعمال کرتے ہوئے، اعظم خاں، ان کے بیٹے عبداللہ اور اہلیہ تزئین فاطمہ کے خلاف عبداللہ کی شناخت سے متعلق مختلف جعلی دستاویز بنانےکے الزام میں کئی ایف آئی آر درج کی گئیں۔ اعظم خاں کے خلاف کل 87 مقدمے زیر التوا ہیں، جن میں سے84 ایف آئی آر2017 میں بی جے پی حکومت بننے کے اگلے دو سالوں میں درج کی گئیں۔ 84 میں سے 81معاملے 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے اور بعد میں درج کیے گئے۔
اعظم خاں کے حامیوں کا خیال ہے کہ یہ ایف آئی آر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے موصول ہونے والی شکایات کی بنیاد پر درج کی گئی ہیں، جن کا مقصد خاں کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھنا ہے۔ ان میں سے اکثر ایف آئی آر ضرورت سے زیادہ اور غیر ضروری تاخیر کے ساتھ درج کی گئی ہیں۔ایک ایف آئی آر تو شکایت موصول ہونے کے 16 سال بعددرج کی گئی۔ 22 ایف آئی آرمبینہ جرم کے 13 سال بعد درج کی گئیں۔ ان 22 ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ اعظم خاں کی محمد علی جوہر یونیورسٹی کسانوں کی زمین پر زبردستی قبضہ کرکے بنائی گئی تھی۔
یونیورسٹی 2006 میں قائم ہوئی تھی اور 2019 تک اس کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں ہوئی تھی۔ 12 سے 20 جولائی 2019 کے درمیان رامپور کے عظیم نگر پولیس اسٹیشن میں 22 ایف آئی آر درج کی گئیں۔ تمام ایف آئی آر کے اندراج کا وقت صبح یا آدھی رات کا تھا۔
پہلی ایف آئی آر 12 جولائی کو دوپہر 2:19 بجے درج کی گئی تھی۔ 16 جولائی کو رات 10:30 سے 11:30 بجے کے درمیان 8 ایف آئی آر درج کی گئیں۔ 18 جولائی کی رات 10:30 بجے سے 19 جولائی کی صبح 6 بجے کے درمیان 10 ایف آئی آر درج کی گئیں۔
اعظم خاں کے بیٹے عبداللہ اعظم خاں کا کہنا ہے کہ ، ’ایسا لگتا ہے کہ ان کی زمین کےمبینہ طور پر قبضے کے 13 سال بعد کسان آدھی رات کو جاگ گئے اور 8-10 کے گروپ میں پولیس سے رابطہ کیا۔‘دیگر ایف آئی آر میں اعظم خاں پر بکری چوری کرنے، بھینس چوری کرنے، ایک بزرگ عورت کے زیورات لوٹنے اور اورایک آدمی کی جیب سے 16500 روپے لوٹنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام ہیں۔
کچھ ایف آئی آربہت حد تک اسی طرح کے الزامات سے متعلق ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کا اندراج اس لیے کیا گیا ہے کہ اعظم خاں زیادہ سے زیادہ معاملوں میں الجھے رہیں ۔ کئی معاملات میں ایک ہی شخص نے متعدد ایف آئی آر درج کرائی ہیں۔ وہ بھی کون، جو بی جے پی کا وفادار ہوا کرتا ہے۔ اعظم خاں کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر ایف آئی آر میں الزامات اتنے مضحکہ خیز ہیں کہ ان پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔
عبداللہ کا کہنا ہے کہ ’تمام مقدمات حکومت کے اشارے پر درج کیے گئے ہیں۔‘ عبداللہ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو معلوم تھا کہ وہ انہیں انتخاب میں شکست نہیں دے سکتے، اس لیے انہوں نے ہمارے خاندان کو برباد کرنے کا یہ طریقہ اپنایا۔ اعظم خاں اپنے خلاف زیر التوا کل 87 مقدمات میں سے 84 میں ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جن میں تین ایسے ہیں جن میں سپریم کورٹ نے ضمانت دی تھی۔ اس کے باوجود وہ 26 فروری 2020 سے عدالتی حراست میں ہیں۔
باقی تین مقدمات، جن میں خان ابھی تک حراست میں ہیں، غیر ضروری رکاوٹوں کے باعث مؤخر ہیں۔ہتک عزت کے ایک معاملے میں خاں پرراشٹریہ سویم سیوک سنگھ، بی جے پی اور سید کلب جواد نقوی کو بدنام کرنے کا الزام ہے۔ اس معاملے میں خاں کی ضمانت کی درخواست کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے دو ماہ تک زیر التوا رکھا۔اس کے بعد اسے ایم پی؍ایم ایل اے کورٹ میں منتقل کر دیا گیا، جس نے 27 جنوری کو ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ خاں کی قانونی ٹیم نے اب سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔
دوسرا معاملہ زمین ہتھیانے کے لیے جعلسازی اورکمیشن سے متعلق ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس میں جرم کے 16 سال بعد ایف آئی آر درج کی گئی۔ یہاں شریک ملزم وہ شخص ہے جس پر دراصل جعلسازی کا الزام ہے۔ انہیں سپریم کورٹ سے ضمانت مل گئی ہے۔
خاں کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی تھی اور ہائی کورٹ نے 4 دسمبر 2021 کو فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ یہ پچھلے دو ماہ سے نہیں دیا گیا ہے۔تیسرا معاملہ اتر پردیش جل نگم میں انجینئروں اور اسٹینوگرافروں کی بھرتی میں مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق ہے۔ خاں پر یہ الزامات اس وقت لگائے گئے جب وہ کابینہ وزیر کے طور پر جل نگم کے چیئرمین تھے۔ اس لیے انہیں بھی مقدمے میں ملزم بنایا گیا۔ چارج شیٹ میں نامزد دیگر 14 ملزمین ضمانت پر ہیں۔خاں کی ضمانت کی درخواست 30 ستمبر 2021 کو دائر کی گئی تھی، لیکن یہ معاملہ بار بار ملتوی ہونے اور بلاوجہ تاخیر کے باعث زیر التوا ہے۔ہائی کورٹ کی جانب سے آٹھ بارمعاملے کو ملتوی کیا گیا ہے، جس سے خان کے وکلاء کو جلدی سماعت کے لیے درخواست دینے کو مجبور ہونا پڑا۔ درخواست پراسرار طور پر غلط عدالت پہنچ گئی۔
اس کے بعد درخواست کو ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل اے سے متعلق معاملات کی سماعت کرنے والے جج کے سامنے لسٹ کیا گیا اور اسے آنے والے ہفتے میں لسٹ کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اگلی تاریخ کو معاملہ اسی جج کے پاس پہنچا، لیکن اس دوران روسٹر بدل گیا تھا اور وہ جج اب ایم ایل اے اور ایم پی کےمعاملے کو سننے والے جج نہیں رہے۔ معاملہ پھر سے اگلے روسٹر کے تحت آنے والے جج کے پاس لسٹ ہوا۔
اس کیس کی آخری سماعت 31 جنوری 2022 کو ہوئی اور معاملہ صحیح جج تک پہنچا ، لیکن پھر کیس کی فائل گم ہوگئی۔ عدالت نے اپنے عملے کو فائل تلاش کرنے کو کہا اور دوپہر کے کھانے کے بعد سماعت طے کی، تاہم لنچ کے بعد عدالت بیٹھی ہی نہیں ۔
ایک ضمانت کی درخواست سپریم کورٹ میں بھی دائر کی گئی تھی، جس میں انتخابات کے پیش نظر تینوں مقدمات میں عبوری ضمانت کی درخواست کی گئی تھی۔ 8 فروری کو درخواست پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کو متعلقہ عدالتوں کے سامنے دوبارہ پیش کرنے کو کہا۔ عدالت نے امید ظاہر کی کہ عدالت ضمانت کی درخواستوں کو جلد نمٹا دیں گی۔
(بشکریہ: دی وائر: یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)