عمران قریشی کی خاص رپورٹ
کرناٹک کے اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پہننے کا تنازع اب بھی برقرار ہے اور کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی اُڈپی کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج کی کلاسوں میں حجاب پہننے پر پابندی کولے کر 11 دنوں کے دوران مختلف آراء کی سماعت مکمل کر لی ہے۔
بی بی سی کےرپورٹر نے حجاب اور اس سےجڑے تنازع کے الگ الگ پہلوؤں کو مذہبی علماء اور دیگر ماہرین سے بات کرکے جاننے کی کوشش کی۔
قرآن کے حوالہ سے ماہرین کہتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنا چہرہ، ہتھلیاں اور پیر کھلے رکھتے ہوئے سر ڈھنکیں۔ سورہ نور میں شرافت کی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے باقی جسم کو ڈھانپنا چاہیے۔
کئیعلماء اور عالم کی رائے ہے کہ ’مسلم خواتین کو حجاب کی بجائے روایتی طور سے سماج کے تمام طبقے اور برادری میں بڑی تعداد میں خواتین کے ذریعہ سر پر پہناجانے والا ڈوپٹہ پہننے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ اسکارف جو کہ کافی متنازع ہو چکاہے ۔
‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر اختر الواسع نے بی بی سی ہندی کو بتایا، ’یہ ہندو مذہب یا سکھ مذہب کی خواتین کے پہننے والے لباس سے الگ نہیں ہے، جہاںسر کوگھونگھٹ یا دوپٹہ سے ڈھکا جاتا ہے۔ اسلامی قانون کے تحت سلوار ،قمیص (یا جمپر) کے ساتھ صرف ڈوپٹہ ضروری ہے جو سیے اور سر کو ڈھانپتا ہے ۔‘
جامعہ مسجد بنگلور کے امام و خطیب مولانا ڈاکٹر مقصود عمران رشدی نے بی بی سی ہندی کو بتایا، ’صرف اتنا ہی ضروری ہے کہ پورے بدن کو ڈھکنے والی یونیفارم کےساتھ ایک ڈوپٹہ، چاہےاس کا رنگ جو بھی ہو، پہناجائے،برقع پہننا صروری نہیں ہے ۔ اگر ڈوپٹہ پہننا جاتا ہے ، تو یہ اسلام کی تعلیمات کوپورا کرنے کے لیے کافی ہے ۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین کے اس موقف کو چکمگلور ضلع کے کوپا تعلقہ کے گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کے اُڈپی کالج میں کشیدگی بڑھنے کے بعد نافذ کیا گیا ہے۔
چکمگلور کالج انتظامیہ نے دیکھا کہ لڑکے کالج میں بھگوا شال پہن کر گھوم رہے ہیں ۔ جب کالج کے ٹیچروں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں تو انہوں نے کہاکہ وہ شال تب ہی اتاریں گے جب مسلم لڑکیاں حجاب ہٹائیں گی ۔
اس کے بعد پرنسپل اور دیگر لوگوں نے لڑکے – لڑکیوں کے گھر والوں اور مقامی وشو ہندو پریشد کے نمائندوں کےساتھ میٹنگ کی۔ اس میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ لڑکیاں کلاس میں اپنے ڈوپٹہ سے اپنے سر کو ڈھانپیں گی۔
لیکن، اُڈپی میں جو کچھ ہوا، معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔ اور اس کی وجہ سے کرناٹک میں امن و امان کو متاثر کرنے والے حالات پیدا ہوئے۔ یہی نہیں یہ ملک کے دیگر حصوں تک بھی پہنچ گیا۔
اسلامی فقہ کیا کہتی ہے؟
کیرل یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر اشرف کدکل نے بی بی سی ہندی کو بتایا، ’اسلامی فقہ کے چاروں مکاتب فکر – شافعی، حنفی، حنبلی اور مالکی – میں واضح طور سے بتایا گیاہے کہ خواتین کے بال کو ، خاص طور سے غیرمحرم کے سامنے ،ڈھکا جانا چاہئے ۔ اس نظریے سے یہ اسلام کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ ‘
انہوں نے کہا، ’یہاں تک کہ اسلامی قانون کی بنیاد – قرآن (پاک کتاب)، حدیث (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور طرز عمل)، اجماع (رضامندی) اور قیاس یہ بتاتے ہیں کہ بالوں کو ڈھانپنا چاہیے۔‘
پروفیسر اشرف کہتے ہیں، ’حدیث اس کو ضروری قرار دیتی ہے، قرآن مجید میں کئی آیات ہیں جو خواتین کے لئے اسے لازمی بناتی ہے ۔ خاص طور پر ازواجِ مطہرات اور صاحبزادیوں کے لیے اپنی نگاہیں نیچی رکھیںاور سر کو اسکارف سے ڈھانپنے ،اسکارف کا قرآن میں ذکر آتا ہے ۔ قانونی معاملات میں حتی کہ اسلامی ذرائع (شرعیہ) بھی اسے مذہب کا اٹوٹ حصہ بتاتے ہیں ۔‘
پرو اشرف کا کہنا ہے کہ اس ہدایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ’یہ صرف اسکارف ہے، یہ برقع نہیں ہے، یہ چادر نہیں ہے اور یہ نقاب نہیں ہے۔ چہرے کو ڈھانپنے کی بات دعوے سے نہیں کہی جا سکتی ہے لیکن بالوں کو ڈھانپنا مذہب کا اٹوٹ حصہ ہے ۔‘
مولانا رشدی کا کہنا ہے کہ ہدایات کے مطابق ایک دوپٹہ کافی ہے، بالوں پر کپڑا باندھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اسکارف کو صرف اسکارف کہا جاتا اور ہم اسے حجاب نہیں کہتے ، تو اس میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔‘
پروفیسر واسع کہتے ہیں ’ جو بھی نام دیا گیاہو،اس نکتےپر زور دیا گیاہے کہ لباس معمولی ہونی چاہئے، کسی عورت کے ،یہاں تک کہ مردوں کے بھی، جسم کےکسی حصہ کو،کھلا نہیں دکھانا چاہئے، اس کا مطلب ہے کہ مرد یا عورت کے شرمگاہ کو کھلانہیں دکھایا جا سکتا ہے ۔‘
پروفیسر واسع کہتے ہیں، ’اگر لڑکی کسی گرلز کالج میں پڑھ رہی ہے تو اسے حجاب یا برقع پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن، اگر کو-ایجوکیشنل کالج ہے تو لڑکیاں اپنے بال ڈھانپ سکتی ہیں۔‘
پرو اشرف کہتے ہیں، ’یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ پردہ یا کوئی خاص لباس پہنیں۔ اسلام میں لباس کا کوئی ضابطہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ جسم کو ڈھانپنے کی تاکید کرتا ہے۔‘
کیا حجاب نہ پہننا حرام ہے؟
تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ حجاب یا اسکارف اسلام میں ایک لازمی مذہبی روایت ہے۔ لیکن، اگر کوئی اسکارف یا حجاب نہیں پہنتا، تو یہ حرام یا ناجائز نہیں ہے۔
پروفیسر واسع کہتے ہیں ’ اگر کوئی اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزارنا چاہتا ہے تو اسے ڈریس کوڈ پر عمل کرنا چاہیے۔‘
مولانا رشدی کے مطابق، ’اسلام میں کچھ فرائض ہیں جیسے دن میں پانچ وقت کی نماز۔ اسلام میں کسی پر نماز پڑھنے کے لئے دباؤ ڈالنے کا سوال ہی نہیں ہے یا ایسا نہیں کہ کہ نا پڑھنے پر اسے پیٹاجائے، اسلام میں کسی بھی طرح کی زور زبردستی نہیں کی جاتی ہے ۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو نصیحت دیتا ہے اوراسے ماننا یا نہ ماننا اس شخص پر چھوڑ دیاجاتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی حجاب یا اسکار ف نہیں پہنتا ہے ، تویہ حرام نہیں ہے۔‘
وزڈم فاؤنڈیشن کی زینت شوکت علی کا کہنا ہے کہ ڈریس کوڈ اس وقت آیا جب پیغمبر محمد ؐ اسلام کی تبلیغ کررہے تھے ۔
زینت کہتی ہیں، ’خواتین کے ساتھ کبھی اچھا سلوک نہیں کیا گیا ،ان کےساتھ چوپایوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا اور بہت سی عورتیں غلام تھیں۔رفع حاجت کے لئے رات میں باہر جانے والی خواتین پر مرد حملہ کرتے تھے ، ایسے میں پیغمبر اسلام نے اپنے صحابہ سے کہا کہ آپ کو اپنی نگاہیں نیچے رکھنی چاہئے اورمردوں اورخواتین دونوں کے معاملے میںاپنی شرافت کا خیال رکھنا چاہئے۔ خواتین کی حفاظت کے لئے ڈریس کوڈ آیا ۔ حجاب تکنیکی طور سے ایک پردہ ہے ، جو دوسروںسے دوری بنائے رکھنے کے لئے رکاوٹ کا کام کرتاہے ۔‘
زینت علی نے کہا کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ماننا ضروری ہے ۔ وہ کہتی ہیں ’ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر آپ اسکوٹر چلارہےہیں اور آپ کو اذان سنائی دے توآپ اسکورٹر درمیان سڑک پر روک دیں اورنماز پڑھنے چلے جائیں۔ بنیادی بات ہے اللہ کو یاد کرنا ۔ مشکل یہ ہے کہ حکم کی روحانیت کی گہرائی اوروسعت کو نہیں سمجھ پائے ہیں ۔ آپ اپنے فرض یا فرائض پر عمل کریں یا نہ کریں ،آپ خود کے سامنے جواب دہ ہیں ۔‘
’ایسے بہت سے مسلم اکثریتی ممالک ہیں جہاں حجاب ضروری نہیں ہے ، صرف ایران ،افغانستان اورانڈونیشیا کےصوبے آچے میں ضروری ہے ۔‘
پروفیسر واسع کے مطابق حجاب یا اسکارف پہننے کا فیصلہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو ’صرف خواتین ہی کر سکتی ہیں۔ میں یا آپ فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ان پر جبر نہیں کیا جا سکتا۔‘
کیا حجاب نہ پہننے سے اسلام ختم ہو جائے گا؟
تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر خواتین سر پر حجاب یا اسکارف نہ اوڑھیں تو دین ختم نہیں ہوگا۔
کرناٹک کے ایڈووکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے اپنی دلیل کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک مثال پیش کی کہ فرانس میں حجاب پہننے پر پابندی سے اسلام پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے فل بنچ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دیکشت اور جسٹس زیب النساء محی الدین قاضی کے سامنے یہ دلیل دی۔
پروفیسر واسع نے کہا، ’فرانس میں کیا ہوتا ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہندوستان فرانس نہیں ہے۔ ہمارا سیکولرازم مذہب مخالف یا بے مذہب نہیں ہے۔ ہمارا سیکولرازم ایک ہندو کہاوت پر مبنی ہے: سرو دھرم سمبھاؤ۔ مسلمانوں کے لیے یہ تمہارا دین ( مذہبی عقیدہ ) تمہارے لئے،ہمارا دین ہمارے لئے ۔ ہے۔
پرو فیسر واسع کا ماننا ہے کہ لیکن اب تک جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں حجاب کامسئلہ مذہبی مسئلہ سے کہیں زیادہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ۔
یہ مذہبی مسئلہ ہے یا سیاسی؟
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں قرون وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ کے پروفیسر نجف حیدر،ایک طرح سے پروفیسر واسع سے متفق ہیں ۔
پروفیسر حیدر کہتے ہیں، ’یہاں دو الگ الگ مسائل ہیں۔ ایک وہ بحث ہے جو ثقافتی اور مذہبی ہے اور دوسری یہ کہ کیا حجاب پہننا سماجی نظام کو توڑنے کے لیے ظلم کی علامت ہے۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔’ جس سے حکومت لڑکیوں اور خواتین کو حجاب اتارنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کی نیت مشکوک ہے۔‘
ان کا کہنا ہے ’ذاتی طور پر میں حجاب کی بڑی حامی نہیں ہوں، لیکن آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ مسلم خواتین کو کئی طریقوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ آسان ہدف ہیں۔ کوشش مسلمانوں کو ’دوسرا‘ ثابت کرنے کی ہے ۔ آپ ایک مسلم خاتون سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسا مت کرو کیونکہ اس سے تقسیم اورگہرا ہوگا۔‘
پرو فیسرحیدر کا خیال ہے کہ اس طرح کا رویہ سے’مخالفت میں اور زیادہ خواتین اسے پہنیں گی ۔‘
(بشکریہ : بی بی سی ہندی)